Advertisement

شان حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) بزبان سید الکونین (علٰی جده و علیہ السلام) از مولانا محمد قاسم مصباحی


 باسمهٖ تعالیٰ 

شان حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) بزبان سید الکونین (علٰی

 جده و علیہ السلام)



از: مولانا محمد قاسم مصباحی ادروی

استاذ: جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔


ولادت: ٣ یا ٥/شعبان المعظم، ٤ ھ
شھادت: ١٠ /محرم الحرام، ٦١ ھ

( 1):حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا:
 لَمَّا نزلت هَذِه الْآيَة [ندْعُ أبناءنا وأبناءكم] دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: «اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أهلُ بَيْتِي» (صحيح مُسلم) 
جب یہ آیت نازل ہوئی [ندْعُ أبناءَنا وأبناءَكم] کہ ہم اپنے اور تمھارے بیٹوں کو بلائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین کو بلایا اور عرض کی: الٰہی یہ میرے گھر والے  ہیں. 
(2) ام المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے انھوں نے فرمایا: 
خَرَجَ النبيُّ ﷺ غَداةً وَعليه مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِن شَعْرٍ أَسْوَدَ، فَجاءَ الحَسَنُ بنُ عَلِيٍّ فأدْخَلَهُ، ثُمَّ جاءَ الحُسَيْنُ فَدَخَلَ معهُ، ثُمَّ جاءَتْ فاطِمَةُ فأدْخَلَها، ثُمَّ جاءَ عَلِيٌّ فأدْخَلَهُ، ثُمَّ قالَ: {إنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ البَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا. (صحیح مسلم)
 حضور نبی اکرم ﷺ صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہما آئے تو نبی کریم ﷺ نے اُنھیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا آئیں، حضور اکرم ﷺ نے انھیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ آئے تو سرکار دو عالم ﷺ نے انھیں یں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اے اہلِ بیت! اللہ تعالیٰ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو (گناہوں سے) خوب پاک و صاف کر دے". 
( 3) حضرت ابن عباس (رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُمَا) سے روایت ہے انھوں نے فرمایا :
  لَمَّا نَزَلَتْ : "قُل لَّاۤ أَسۡـَٔلُكُمۡ عَلَیۡهِ أَجۡرًا إِلَّا ٱلۡمَوَدَّةَ فِی ٱلۡقُرۡبَىٰۗ " قَالُوا : یَا رَسُولَ اللَّہِ ، وَمَنْ قَرَابَتُکَ ھٰؤُلاءِ الَّذِینَ وَجَبَتْ عَلَیْنَا مَوَدَّتُہُمْ ؟ قَالَ : عَلِیٌّ وَفَاطِمَۃُ وَابْنَاهُمَا.(مجمع الزوائد للهيثمى).
جب  آیت کریمہ"قُل لَّاۤ أَسۡـَٔلُكُمۡ عَلَیۡهِ أَجۡرًا إِلَّا ٱلۡمَوَدَّةَ فِی ٱلۡقُرۡبَىٰۗ  " نازل ہوئی تو حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت بابرکت میں عرض کی کہ وہ قرابت دار کون ہیں جن سے محبت کرنا ہم پر ضروری ہے،حضور اکرم صلی اللہُ تَعَالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:علی فاطمہ اور ان کے دونوں شہ  زادے.(حسن و حسین) 
 (4) حضرت عبد الرحمن بن نُعْم (رضی اللہ تعالی عنہ) سے روایت ہے انھوں نے فرمایا :
 سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بنَ عُمَرَ، وسَأَلَهُ عَنِ المُحْرِمِ؟ قالَ: شُعْبَةُ أحْسِبُهُ يَقْتُلُ الذُّبابَ، فَقالَ: أهْلُ العِراقِ يَسْأَلُونِي عَنِ الذُّبابِ، وقدْ قَتَلُوا ابْنَ بِنْتِ رَسولِ اللَّهِ ﷺ، وقالَ رسولُ اللّٰهِ ﷺ: هُما رَيْحانَيَّ مِنَ الدُّنْيا. رواه البخاري (مشكاة المصابيح).
میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما کو فرماتے سنا جب کہ ایک شخص نے مُحْرِم کے بارے میں ان سے پوچھا، حضرت شعبہ کا بیان ہے کہ مجھے یہ خیال آتا ہے کہ سائل نے یہ پوچھا کہ محرم مکھی مار سکتا ہے؟ تو حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھما نے فرمایا:عراق والے مکھی (مارنے) کے تعلق سے پوچھتے ہیں حالاں کہ وہ  رسول اللہ کی لخت جگر (حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا) کے فرزند کو شہید کر چکے ہیں، (جن کے بارے میں) رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ نے فرمایا:یہ دونوں (حسن و حسین) دنیا میں میرے پھول ہیں.

کیا بات رضا اس چمنستان کرم کی 
زہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول 

( 5) حضرت زيد بن ارقم (رضي اللّٰه تعالیٰ عنه) سے روایت ہے :
 أن رسولَ اللهِ ﷺ قال لعَلِيٍّ و فاطمةَ و الحسنِ و الحُسَيْنِ: أنا حَرْبٌ لِمَن حارَبَھم و سِلْمٌ لِمَن سالَمَھم. رواہ الترمذي (مشكاة المصابيح) .
حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنھم سے فرمایا : تم جس سے لڑو گے  اُس سے میری جنگ  ہے اور جس سے تم صلح کرنے والے ہو میں بھی اُس سے صلح کرنے والا ہوں۔‘
( 6) حضرت ابو سعید خدری (رضی اللہ تعالی عنہ) سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
 الحسنُ والحسينُ سيدا شبابِ أهلِ الجنة. (ترمذی) .
(حضرت) حسن اور (حضرت) حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں.
(7)حضرت حذيفہ بن يمان (رضی اللہ تعالی عنہ) سے روایت ہے :
قلتُ لأمِّي دعِيني آتِي النبيَّ ﷺ فأصلِّيَ معَه المغربَ و أسألُه أن يستغفرَ لي ولكِ فأتيتُ النبيَّ ﷺ فصليت معَه المغربَ فصلّى حتى صلّى العشاءَ ثم انفتل فتبِعتُه فسمع صوتِي فقال: من هذا؟ حذيفةُ؟ قلت: نعم، قال : ما حاجتُك، غفر اللهُ لك و  لأمِّك، إن هذا ملَكٌ لم ينزلِ الأرضَ قطُّ قبلَ هذه الليلةِ استأذن ربَّه أن يسلِّمَ علَيَّ و  يبشّرُني أن فاطمةَ سيدةُ نساءِ أهلِ الجنةِ و أن الحسن و الحسينَ سيِّدا شبابِ أهلِ الجنة. (ترمذى).
کہ میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ مجھے اجازت دو کہ میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کروں اور عرض کروں کہ حضور میرے لیے اور تمھارے لیے دعاے مغفرت کریں چنان چہ میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے ساتھ نماز مغرب پڑھی، حضور نے نماز مغرب پڑھی حتی کہ نماز عشا ادا کرکے حضور واپس ہوئے، میں بھی پیچھے ہولیا، حضور نے میری آواز سنی تو فرمایا: یہ کون ہے؟ حذیفہ ہے کیا؟ میں نے عرض کی : ہاں! حضور نے فرمایا: تمھاری کیا حاجت ہے؟ اللہ تعالیٰ تمھیں اور تمھاری ماں کو بخش دے، (پھر فرمایا) یہ ایک فرشتہ ہے جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ اترا، اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام پیش کرے اور مجھے بشارت دے کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہے اور حسن و حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں.
 (8) حضرت اسامہ بن زيد (رضی اللہ تعالی عنہ) سے روایت ہے :
 طَرَقْتُ النبيَّ - ﷺ – ذاتَ ليلةٍ في بعضِ الحاجةِ، فخرج النبيُّ - ﷺ – وهو مُشْتَمِلٌ على شيءٍ؛ لا أدري ما هو؟ فلمّا فَرَغْتُ من حاجتي؛ قلتُ: ما هذا الذي أنت مُشْتَمِلٌ عليه؟ ! فكشفه؛ فإذا الحسنُ والحسينُ على وَرِكَيْهِ؛ فقال: هذان ابنايَ، وابنا ابنتي، اللهم ! إني أُحِبُّهما؛ فَأَحِبَّهُما، وأَحِبَّ من يُحِبُّهُما. (ترمذی)۔
میں ایک رات کسی کام سے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ گود میں کوئی چیز لے کر باہر تشریف لائے اور مجھے خبر نہ تھی کہ وہ کیا ہے؟ جب میں اپنے کام سے فارغ ہو گیا تو پوچھا: (یا رسول اللہ) آپ نے اپنی آغوش میں کیا لیا ہے؟ حضور اکرم نے اسے کھولا تو (دیکھا کہ) حسن و حسین آپ کے رانوں پر بیٹھے ہوئے تھے، حضور انور نے فرمایا: یہ دونوں میرے بیٹے اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ الہی! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما اور جو ان سے محبت کرے اس سے بھی محبت کر.  
( 9 ) حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :
  الحَسَنُ والحُسَينُ مَن أحَبَّهما أحبَبْتُه ومَن أحبَبْتُه أحَبَّه اللهُ ومَن أحَبَّه اللهُ أدخَله جنّاتِ نَعيمٍ ومَن أبغَضَهما أبغَضْتُه ومَن أبغَضْتُه أبغَضَه اللهُ ومَن أبغَضَه اللهُ أدخَله جهنَّمَ وله عذابٌ مُقيمٌ. (معجم كبير ) ۔
جس نے حسن و حسین سے محبت کی میں نے اس سے محبت کی اور جس سے میں نے محبت کی اس سے اللّٰہ محبت فرمائے گا اور جس کو اللّٰہ محبوب رکھے اسے چین و سکون کے باغات میں داخل فرمائے گا، جس نے ان دونوں (حسن و حسین) سے بغض رکھا میں اس سے ناراض ہوں اور جس سے میں ناراض ہوں اس سے اللّٰہ تعالیٰ ناراض ہے اور جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہے اسے جہنم میں داخل کرے گا اور اس کے لیے دائمی سزا ہے.   
( 10)  حضرت علی بن أبی طالب- رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ - سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حسن و حسین کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:
مَنْ أحبَّني، وأحبَّ هذينِ، وأباهُما وأمَّهما، كان معي في دَرجَتي يومَ القيامة. (ترمذی) ۔
جسن نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں(حسن و حسین اور ان کے والد(حضرت علی) اور ان کی والدہ (حضرت فاطمہ) سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا. 
( 11)حضرت أنس بن مالك رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا :
سُئِلَ رسولُ اللهِ ﷺ: أَيُّ أهلِ بيتِك أَحَبُّ إليكَ؟ قال: الحَسَنُ والحُسَيْنُ، وكان يقولُ لفاطمةَ: ادْعِي لِيَ ابْنَيَّ فيَشُمُّهُما ويَضُمُّهُما إليه. (ترمذی) ۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ اہل بیت میں آپ کا سب سے پیارا کون ہے؟ حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے فرمایا: حسن و حسین، حضور اکرم (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) حضرت فاطمہ (رضی اللہ تعالٰی عنہا) سے فرماتے :میر ے بیٹوں کو میرے پاس بلاؤ (جب وہ دونوں نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس آتے) تو حضور انھیں سونگھتے اور (اپنے سینے سے) چمٹا لیتے.  
( 12) حضرت يعلٰى بن مره ثقفى(رضی اللہ تعالی عنہ) سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :
 حُسينُ مِنِّي وأنا من حُسَينٍ أحبَّ اللهُ من أحبَّ حُسَينًا حُسينُ سِبطٌ من الأسباطِ.(ترمذی) ۔
 حسین  مجھ سے ہے اور میں حسین  سے ہوں اور اللہ اسے محبوب رکھتا ہے جو حسین  کو محبوب رکھتا ہے اور یاد رکھو! حسین  میرے سبطوں میں سے ایک سبط ہے۔
سبط: وہ درخت ہے جس کی جڑ ایک ہو اور شاخیں بہت. جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کو اسباط کہا گیا  کہ ان سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل بہت چلی، ایسے ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو سبط فرمایا کہ حضور کی نسل مبارک زیادہ تر حسین سے چلی، دیکھا جاتا ہے کہ آج شرق و غرب میں حسینی سادات کرام زیادہ پاۓ جاتے ہیں.  
( 13 ) ام الفضل بنت حارث (رضی اللہ تعالی عنہا) سے روایت ہے : 
أنها دخلت على رسولِ اللهِ - ﷺ –، فقالت: يا رسولَ اللهِ ! إني رأيتُ حُلمًا منكرًا الليلةَ ! قال: وما هو؟ !، قالت: إنه شديدٌ ! قال: وما هو؟ !، قالت: رأيتُ كأنَّ قطعةً من جسدِك قُطِعَتْ ووُضِعَتْ في حجري، فقال رسولُ اللهِ - ﷺ –: رأيتِ – خيرًا، تلدُ فاطمةُ إن شاء اللهُ غلامًا يكون في حِجرك، فولدتْ فاطمةُ الحسينَ، فكان في حجري، كما قال رسولُ اللهِ - ﷺ –، فدخلتُ يومًا على رسولِ اللهِ - ﷺ –، فوضعتُه في حجره، ثم كانت مني التفاتةٌ؛ فإذا عينا رسولِ اللهِ - ﷺ – تُهْريْقانِ الدموعَ، قالت: فقلتُ: يا نبيَّ اللهِ ! بأبي أنت وأمي، ما لَكَ؟ ! قال: أتاني جبرئیلُ – عليه السلامُ -؛ فأخبرَني أنَّ أمتي ستَقْتُلُ ابني هذا، فقلتُ: هذا؟ ! قال: نعمْ، وأتاني بتُربةٍ من تربتِه حمراءَ. (مشكاة المصابيح) ۔
انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم! میں نے آج رات ایک خوف ناک خواب دیکھا ہے، سرکار نے ارشاد فرمایا: تم نے کیا خواب دیکھا ؟ عرض کرنے لگیں : وہ بہت ہی فکر کا باعث ہے ، آپ نے ارشاد فرمایا وہ کیا ہے ؟ عرض کرنے لگیں : میں نے دیکھا گویا آپ کے جسد اطہر سے ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے، ان شاء اللہ فاطمہ( رضی اللہ تعالی عنہا) کو بیٹا تو لد ہوگا اور وہ تمھاری گود میں آۓ گا چنان چہ ایسا ہی ہوا ،حضرت فاطمہ (رضی اللہ تعالی عنہا) نے (حضرت اما م) حسین( رضی اللہ تعالی عنہ) کو جنم دیا اوروہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بشارت کے مطابق میری گود میں آئے ، پھر ایک روز میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت با برکت میں حاضر ہوئی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو آپ کی خدمت  میں پیش کیا، اس کے بعد کیا دیکھتی ہوں کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمان اقدس اشک بار ہیں، یہ دیکھ کر میں نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ! اشک باری کا سبب کیاہے ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جبرئیل علیہ السلام نے میری خدمت میں حاضر ہوکر بتایا کہ عن قریب میری امت کے کچھ  لوگ میرے اس بیٹے کو شہید کردیں گے ۔ میں نے عرض کی : سرکار کیا وہ اس شہزادے کو شہید کردیں گے ؟ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں ! اور جبرئیل امین علیہ السلام نے اس مقام کی سرخ مٹی بھی میری خدمت میں پیش کی ہے ۔ 
( 14) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا :
 كنتُ مع رسولِ اللهِ ﷺ في سُوقٍ مِن أسواقِ المَدينةِ، فانصرَفَ، وانصَرَفتُ معه، فقال: ادْعُ الحُسَينَ بنَ عليٍّ. فجاءَ الحُسَينُ بنُ عليٍّ يَمْشي، فقال النَّبيُّ ﷺ بيَدِه هكذا، فقال الحُسَينُ بيَدِه هكذا، فالتَزَمَه فقال: اللَّهمَّ إنِّي أُحِبُّه؛ فأحِبَّه وأحِبَّ مَن يُحِبُّه. قال أبو هُرَيرةَ: فما كان بَعدُ أحَدٌ أحَبَّ إليَّ مِن الحُسَينِ بنِ عليٍّ بَعدَما قال النَّبيُّ ﷺ ما قال.( تاريخ دمشق) ۔
میں مدینہ کے ایک بازار میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، آپ وہاں سے واپس ہونے لگے ، میں بھی ساتھ ہولیا ،پھر آپ نے فرمایا: حسین بن علی کو بلاؤ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ چلتے ہوئے آئے ،تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر (معانقہ کے لیے ) ہاتھوں کو پھیلایا ، حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی اسی طرح ہاتھ  پھیلائے اور آپ سے چمٹ گئے ، اس کے بعد آقاے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے اور اس کے چاہنے والوں سے محبت فرما ۔ 
  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد میرے نزدیک حسین بن علی سے زیادہ محبوب کوئی نہیں۔
( 15) حضرت فاطمه زہرا رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے :
 أنَّها أتَت بالحسنِ والحُسينِ إلى رسولِ اللهِ ﷺ في شَكواه الَّتي تُوفِّي فيها فقالت يا رسولَ اللهِ هذان ابناك فوَرِّثْهما شيئًا فقال أمّا حسنٌ فله هَيبتي وسُؤدُدي وأمّا حُسينٌ فله جَراءتي وَجودي. (مجمع الزوائد)۔
وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مرض وصال میں حسن و حسین کو لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی : یا رسول اللہ ! یہ دونوں آپ کے شہ زادے ہیں انھیں کچھ عطا کیجیے، تو حضور اکرم (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے فرمایا : حسن کے لیے میری ہیبت و سیادت ہے اور حسین کے لیے میری جرأت و سخاوت.
اللہ رب العزت ہمارے دلوں میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی سچی محبت پیدا فرماۓ اور ان کے فیضان سے مالا مال کرے. آمین بجاہ جد الحسن و الحسين علیہ و علیھما الصلاۃ و السلام.

پیش کش : فرحان امجد قادری رضا نگر ادری ، مئو ، یوپی۔


مزید پڑھیں : 



ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے