Advertisement

شان فاروقِ اعظم (رضی اللہ تعالی عنہ) بزبانِ رسول اکرم (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) از مولانا محمد قاسم مصباحی

 

باسمہ تعالیٰ 


شان فاروقِ اعظم (رضی اللہ تعالی عنہ) بزبانِ رسول اکرم

 (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)



از: مولانا محمد قاسم مصباحی ادروی

استاذ: جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔


 ولادت : واقعۂ فیل کے تیرہ سال بعد 
شہادت : 28 ذی الحجہ 23 ہجری 

1- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
 لقَدْ كانَ فِيما قَبْلَكُمْ مِنَ الأُمَمِ مُحَدَّثُونَ، فإنْ يَكُ في أُمَّتي أحَدٌ، فإنَّه عُمَرُ. (متفق علیہ)
بے شک تم سے پہلی امتوں میں مُحَدَّث ہوا کرتے تھے، اگر میری امت میں کوئی مُحَدَّث ہے تو وہ عمر ہیں. 
2- حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
 مَن أبغض عمرَ فقد أبغضَني ومن أحبَّ عمرَ فقد أحبَّني وإن اللهَ باهٰى بالناسِ عشيةَ عرفةَ عامةً وباهى بعمرَ خاصةً وإنه لم يَبعثِ اللهُ نبيًّا إلا كان في أمتِه محدَّثٌ وإن يكنْ في أمتي منهم أحدٌ فهو عمرُ. قالوا : يا رسولَ اللهِ ، كيفَ محدَّثٌ قال: تتكلمُ الملائكةُ على لسانِه (المعجم الأوسط للطبراني)۔
جس نے عمر سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی رکھی اور جس نے عمر سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی. اللّٰہ تعالیٰ عرفہ والوں پر عموماً اور عمر پر خصوصاً فخر و مباہات فرماتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے دنیا میں جس نبی کو بھی بھیجا اس کی امت میں ایک مُحَدَّث ضرور ہوا ہے اور اگر میری امت میں کوئی مُحَدَّث ہے تو وہ عمر ہیں. صحابۂ کرام نے عرض کی : یا رسول اللہ! مُحَدَّث کیسا ہوتا ہے، حضور انور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے فرمایا : جس کی زبان سے فرشتے بات کریں وہ مُحَدَّث ہوتا ہے. 
3- ایک حدیث میں سعد بن وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
إيهٍ يا ابْنَ الخَطّابِ، والذي نَفْسِي بيَدِهِ ما لَقِيَكَ الشَّيْطانُ سالِكًا فَجًّا قَطُّ، إلّا سَلَكَ فَجًّا غيرَ فَجِّكَ.(متفق عليه)۔
یعنی اے عمر بن خطاب اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے شیطان تمھیں کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اس سے کترا کر دوسرے راستے پر چل پڑتا ہے . 
4- حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
دخلتُ الجَنَّةَ، فإذا أنا بالرُّمَيْصاءِ، امْرَأَةِ أبِي طَلْحَةَ، وسَمِعْتُ خَشفَةً، فَقُلتُ: مَن هذا؟ فقالَ: هذا بلالٌ، ورَأَيْتُ قَصْرًا بفِنائِهِ جارِيَةٌ، فَقُلتُ: لِمَن هذا؟ فقالوا: لِعُمَرَ بنِ الخطابِ ، فأرَدْتُ أنْ أدْخُلَهُ فأنْظُرَ إلَيْهِ، فَذَكَرْتُ غَيْرَتَكَ فقالَ عُمَرُ: بأَبِي أنتَ وأُمِّي يا رَسولَ اللَّهِ أعَلَيْكَ أغارُ (متفق علیہ)۔
 (شب معراج) مَیں جنت میں گیا تو دیکھتا ہوں کہ ابو طلحہ کی بیوی رُمَیصا موجود ہے، اور میں نے ایک آہٹ سنی تو پوچھا : یہ کون ہے ؟ کہا : بلال. اور میں نے ایک محل دیکھا جس کے صحن میں ایک بی بی تھیں، میں کہا : یہ کس کا محل ہے ؟ سب نے کہا : عمر بن خطاب کا. میں نے چاہا کہ  اندر جا کر اس کو دیکھوں، لیکن (اے عمر! ) مجھے تمھاری غیرت یاد آگئی.( حضرت) عمر نے عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)! میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا میں آپ پر غیرت کر سکتا ہوں. 
5- حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
بيْنَما أنا نائِمٌ، رَأَيْتُ النّاسَ يُعْرَضُونَ عَلَيَّ وعليهم قُمُصٌ، مِنْها ما يَبْلُغُ الثَّدْيَ، ومِنْها ما  دُونَ ذلكَ، و عُرِض عَلَيَّ عُمَرُ بنُ الخَطّابِ   وعليه قَمِيصٌ يَجُرُّهُ، قالوا: فَما أوَّلْتَهُ يا رَسولَ اللَّهِ؟ قالَ: الدِّينَُ(متفق علیہ)۔
میں سو رہا تھا تو خواب دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں اور مجھ کو دکھاۓ جا رہے ہیں (میں نے دیکھا کہ) وہ سب قمیص پہنے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کے کُرتے سینے تک تھے اور بعض کے اس سے بھی کم، اور عمر بن خطاب کو پیش کیا گیا تو ان کا کرتا اتنا لمبا تھا کہ وہ اسے زمین پر گھسیٹتے چلتے تھے . لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے ؟ تو حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے فرمایا: دین. 
6- حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
 بَيْنا أنا نائِمٌ أُتِيتُ بقَدَحِ لَبَنٍ، فَشَرِبْتُ حَتَّىٰ اني لأرَى الريَّ يخرجُ في أظْفاري ، ثُمَّ أعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بنَ الخَطّابِ، قالوا: فَما أوَّلْتَهُ يا رَسولَ اللَّهِ؟ قالَ: العِلْمَُ. (متفق علیہ)۔
میں سو رہا تھا تو خواب دیکھا کہ مجھے دودھ کا ایک پیالہ پیش کیا گیا، میں نے  دودھ پی لیا یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ اس کی تازگی میرے ناخنوں سے ظاہر ہونے لگی پھر اپنا بچا ہوا عمر بن خطاب کو دے دیا. صحابۂ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)! اس کی تعبیر کیا ہے؟ نبی کریم (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے فرمایا: علم. 
7- حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنَّ اللهَ جعل الحقَّ على لسانِ عُمَرَ وقلْبِه. (ترمذی)۔
یقیناً اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور قلب پر حق جاری فرما دیا ہے. 
8- حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
 لو كانَ بعدي نبيٌّ لَكانَ عمرُ بنُ الخطّابِ. (ترمذى)۔
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے. 
9- حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :
قال عُمرُ لأبي بَكرٍ: يا خيرَ النّاسِ بعدَ رسولِ اللهِ ﷺ، فقالَ أبو بكرِ: أما إنك إن قلتَ ذاكَ فَلقَدْ سَمعتُ رسولَ اللهِ ﷺ يقولُ: ما طلعَتِ الشَّمسُ على رجُلٍ خيرٍ مِن عُمَرَ (ترمذی)۔
حضرت عمر نے حضرت ابوبکر سے کہا: اے رسول اللہ کے بعد سب سے بہتر، تو حضرت ابو بکر نے کہا: خبر دار! اگر آپ نے یہ کہا تو میں نے بھی رسول اللہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی ایسے شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا جو عمر سے بہتر ہو. 
10- ایک طویل حدیث میں حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنّ الشيطانَ لَيَخافُ مِنْكَ يا عُمَرُ. (ترمذی)۔
اے عمر! بلا شبہہ تم سے شیطان خوف کھاتا ہے. 
11- ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنّي لَأنْظُرُ إلى شَياطِين الجِنِّ و الإنْسِ قَدْ فَرُّوْا مِنْ عمرَ. ( ترمذی)۔
بے شک میں نگاہ نبوت سے دیکھ رہا ہوں کہ جن کے شیطان اور انسان کے شیطان دونوں عمر کے خوف سے بھاگتے ہیں. 
12 - حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
ذاكَ الرَّجُلُ أرْفَعُ أُمَّتِيْ درجةً في الْجَنَّةِ. (ابن ماجہ)۔
یہ شخص (عمر بن خطاب) میری امت میں جنت کے بلند درجے والا ہے. 
13- حضرت علی بن طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے :
 كنت مع رسولِ اللهِ ﷺ إذْ طلعَ أبو بكرٍ وعمرَ فقال رسولُ اللهِ ﷺ هذان سيِّدا كُهُولِ أهلِ الجنةِ من الأولينَ والآخرينَ، إلا النبيينَ والمرسلينَ، يا عليّ ! لا تخبرهما(ترمذی)۔
میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا کہ ابو بکر و عمر (رضی اللہ تعالی عنھما) نمودار ہوۓ تو رسول اللہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے فرمایا : یہ دونوں انبیا و مرسلين کے سوا تمام اگلے پچھلے جنتی بزرگوں کے سردار ہیں. اے علی انھیں مت بتانا. 
فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردار دوجہاں 
اے مرتضیٰ ! عتیق  و  عمر کو  خبر نہ ہو 
14- حضرت حذيفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
 إني لا أدري ما بقائي فيكم، فاقتَدوا باللَّذَينِ من بعدي؛ أبي بكرٍ وعمرَ. (ترمذى)۔
میں نہیں جانتا کہ میں تمھارے درمیان کب تک رہوں گا، تم میرے بعد ابو بکر و عمر کی پیروی کرنا. 
15- حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت ہے:
أنَّ النَّبيَّﷺ، خرجَ ذاتَ يومٍ، و دخلَ المسجد وأبو بَكْرٍ وعمرُ، أحدُهُما عن يمينِهِ والآخرُ عن شمالِهِ وَهوَ آخذٌ بأيديهِما، فقالَ: هَكَذا نُبعَثُ يومَ القيامةِ (ترمذى)۔
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ایک دن باہر نکل کر مسجد میں اس طرح تشریف لائے کہ ابو بکر و عمر میں سے ایک داہنی طرف اور دوسرے بائیں طرف تھے اور حضور اکرم (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ان دونوں کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور فرمایا: ہم قیامت کے دن ایسے ہی (ایک ساتھ) اٹھیں گے. 
16- حضرت عبداللہ بن حنطب رضی الله  تعالی عنہ سے روایت ہے :
 أنَّ النَّبيَّﷺ رأى أبا بكرٍ وعمرَ فقال: هذانِ السمعُ والبصرُ(ترمذی)۔
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر و عمر (رضی اللہ تعالی عنھما) کو دیکھا تو فرمایا: یہ دونوں(میرے) کان اور آنکھ ہیں. 
17- حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : 
ما مِن نبيٍّ إلّا ولهُ وزيرانِ مِن أهلِ السَّماءِ، ووزيرانِ مِن أهلِ الأرضِ، فأمّا وزيرايَ مِن أهلِ السَّماءِ: فجبرئيلُ وميكائيلُ، وأمّا وزيرايَ مِن أهلِ الأرضِ: فأبو بكرٍ وعمرُ. (ترمذی)۔
ہر نبی کے آسمان والوں میں سے دو وزیر اور زمین والوں میں سے دو وزیر ہوتے ہیں، میرے دو آسمانی وزیر جبریل و میکائیل (علیھما السلام) اور زمین والوں میں سے دو وزیر ابو بکر و عمر (رضی اللہ تعالی عنھما) ہیں. 
18- حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
    يَطَّلِعُ عليكم رجلٌ مِن أهلِ الجَنةِ، فاطَّلع أبو بكرٍ، ثم قال: يَطَّلِعُ عليكم رجلٌ من أهل الجنةِ، فاطَّلع عمرُ. (ترمذی) ۔
  تم پر ایک جنتی شخص نمودار ہوگا چنان چہ حضرت ابو بکر (رضی اللہ تعالی عنہ) داخل ہوئے. حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ  وآلہ وسلم نے پھر فرمایا : تمھارے پاس ایک اور جنتی شخص آنے والا ہے تو حضرت عمر(رضی اللہ تعالی عنہ) تشریف لائے۔ 
19- حضرت عبد ﷲ بن عمر رضیﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہُ تَعَالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی :
أللَّهُمَّ أعِزِّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هٰذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْکَ بِأَبِيْ جَهْلٍ أوْ بِعُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ ،قَالَ : وَکَانَ أحَبَّهُمَا إِلَيْهِ عُمَرُ. ( رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ) ۔
 اےﷲ! تو ابو جہل یا عمر بن خطاب دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما۔ راوی کہتے ہیں کہ ان دونوں میں اﷲ کو محبوب حضرت عمر رضی اللہُ تعالیٰ عنہ تھے. 
(چنان چہ حضرت عمر کے حق میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا قبول ہوئی، وہ مشرف بہ اسلام ہوئے اور اسلام کو عزت و قوت ملی )۔.
20 - حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ  تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :.
 أبو بَكْرٍ أرأفُ أمَّتي وأرحمُها، وعمرُ بنُ الخطّابِ خيرُ أمَّتي وأعدلُها. ( تاريخ دمشق)۔
ابو بكر میری امت میں سب سے زیادہ نرم دل اور رحم والے اور عمر بن خطاب میری امت میں بہتر اور انصاف کرنے والے ہیں.
21- حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
 أرحمُ أمَّتي بأمَّتي أبو بكرٍ، وأشدُّها في دينِ اللهِ عمرُ. (حلية الأولياء)۔
میری امت میں، امت پر سب سے مہربان ابو بکر ہیں اور اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے سخت عمر ہیں.


مزید پڑھیں : 



ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے