Advertisement

نصاب تعلیم جامعہ گلشن مصطفی نسواں ایک تعارف ! مفتی محمد ایوب مصباحی


 نصاب تعلیم جامعہ گلشن مصطفی نسواں ایک تعارف ! 


از: مفتی محمد ایوب مصباحی 

پرنسپل دار العلوم گلشن مصطفی بہادرگنج، سلطان پور، ٹھاکردوارہ، مراداباد، یو۔ پی۔ انڈیا۔

۲۷/جون ٢٠٢٢ء مطابق ٢٦/ذی قعدہ ١٤٤٣ھ بروزپیر

    
            تعلیم کی مضبوطی میں جس طرح جفاکش اساتذہ و معلمات ، طلبہ و طالبات کا متواتر محنت ومشقت سے اسباق کو یاد کرنا اور سمجھنا، پابندی وقت اور فارغ البال ہونا شرط ہے اسی طرح نصاب تعلیم کا معیاری ہونا بھی حد درجہ ناگزیر ہے۔  نصاب تعلیم عصر حاضر کے تمام تر تقاضوں کو پورا کرنے والا ہو تو طلبہ و طالبات احساس کمتری سے دوچار اور ناکامی کا منہ نہیں دیکھتے۔ 
            جامعہ گلشن مصطفی نسواں کا نصاب تعلیم بھی ایک معیاری اور عصری تقاضوں پر کھرا اترنے والا نصاب ہے۔ اس نصاب تعلیم میں ان تمام تقاضوں کو حتی الامکان پورا کرنے کی سعی کی گئی ہے جو وقت کی ضرورت ہیں اور امت مسلمہ جن درپیش مسائل سے نبرد آزما ہے۔ 

             نصاب تعلیم کی خصوصیات

           ١۔ قدیم نصاب تعلیم میں طالبات کو پارہ عم ، یس، ملک اور ق وغیرہ کا حفظ کرادیا جاتا تھا، جس سے طالبات کو ادائیگی نماز میں تو سہولت فراہم ہوتی تھی لیکن اس کے علاوہ کوئی اور فائدہ نظر نہ آتا تھا۔ جدید نصاب تعلیم میں مندوبین کے آرا کے باہمی اتفاق سے یہ فیصلہ لیا گیا کہ اب دینیات کی طالبات کو پارۂ عم کے سوا سورہٴ نسا، آل عمران، نور اور سورۂ احزاب کا حفظ کرایا جاۓ۔ تاکہ یہ طالبات جب درجۂ عالمیت و فضیلت میں پہونچیں ، درس قرآن کی خواندگی کریں اور تفسیر کا مطالعہ کریں تو انھیں سمجھنا بھی آسان ہو، ان سورتوں میں موجود پردہ، زنا، تہمت، نکاح، اور طلاق و عدت کے احکام کی مستدل بہ آیات بھی انھیں ازبر اور راسخ ہوں اور تبلیغ واشاعت دین میں بھی ممد ومعاون ثابت ہوں۔ 

         ٢۔ قدیم نصاب تعلیم میں فراغت تک انگریزی و ہندی کی بس ایک دو کتاب پڑھادی جاتی تھی اس جدید نصاب میں اس کا التزام کیا گیا کہ دینیات ششماہی میں ایل۔ کے۔ جی۔ اور سالانہ میں یو۔ کے۔ جی۔ کے کورسیز پڑھاۓ جائیں اور اعدادیہ ششماہی میں درجہ اول اور سالانہ میں درجہ دوم، اولی نصف اول میں سوم اور نصف ثانی میں چہارم کا کورس نافذ کیا گیا۔ باقی تمام درجوں میں بھی یک سال میں دو کلاسوں کی تعلیم کے عزم وحتم کے ساتھ فضیلت تک ہائی اسکول کی تعلیم کی تکمیل کا عزم بالجزم کیا گیا ہے۔ تاکہ یہاں فراغت کے بعد طالبات محض عالمہ ومعلمہ اور درس وتدریس تک ہی محدود نہیں ہوں بلکہ انجینئرنگ، صحافت ، حکمت کے گمشدہ اثاثے کی وارثہ بنیں اوراپنی اقتصادیت و معیشت کو مضبوط کریں۔ اخروی کامیابی کےساتھ ساتھ دنیوی سرخروئی بھی اپنے نام کریں کہ جب ابتدائی تعلیم ان کی مضبوط ہوگی تو آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی ان میں بیدار ہوگا اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے میں کوئی چیز حائل نہ ہوگی۔ اور یہ بھی کہ طالبات کی عصری ضرورت جب یہاں پوری ہوگی تو کالجوں کی مخلوط تعلیم سے محفوظ ومامون رہیں گی جو مغربی تہذیب وکلچر کی دلدادہ ہے۔ 
          ٣۔ درس نظامی کے اس سات سالہ کورس میں ہندی، انگش، حساب اور سائنس کے مضامین  /سبجیکٹ شامل کیے گئے تاکہ اسکول کا سارا کام یہیں سر انجام پاسکے کیوں کہ سرپرستوں میں   اولا تو اتنی ہمت نہیں کہ دوہری فیس کا بار اٹھاسکیں اور ساتھ آٹھ سال مدارس میں پڑھ کر اتنا وقت فارغ نہیں بچتا کہ از سر نو اسکول وکالجز کا رخ کیا جائے، ثانیا یہ کہ طالبات کو اسلامی کالجوں کی مخلوط تعلیم سے دور رکھنا بھی مقصود ہے جو اس طور پر حاصل ہے۔ علاوہ ازیں اعلی درجات میں انگلش پر دسترس اور عبور حاصل کرانے کے لیے پروز (نثر) پوئٹری(نظم) کے علاوہ گرامر کا حصہ بصورت سیکنڈ پیپر داخل نصاب کیا گیا۔ تاکہ انگریزی کے قواعد یاد کرکے بآسانی اسے سیکھا جاسکے۔
          ٤۔ دعوت وتبلیغ کا فریضہ جس طرح تقریر وخطابت سے سرانجام پاتاہے اسی طرح تحریر و نگارشات سے بھی انجام دیا جاتاہے بلکہ کبھی کبھی تحریر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ تقریر وخطابت میں نکھار پیدا کرنے کا چلن زمانہ قدیم سے مدارس میں بشکل بزم و انجمن موجود ہے اور اداروں نے قوم کو خطبا کے گوہر نایاب وافر مقدار میں دیے۔ تحریر کی طرف مدارس اور ان کے فرزندوں دونوں ہی کا رجحان کم رہا اور نسواں اداروں میں تو دور تک نظر نہیں آتا۔ لہذا مافی الضمیر کو ضبط تحریر میں لانے کے لیے اور اسے سپرد قرطاس وقلم کرنے کے لیے درجۂ ثانیہ اور ثالثہ میں "قواعد املا وانشا" کو شامل کیا گیا اور شعبہ تحقیق میں مشق فتوی کے ساتھ ساتھ مقررہ عنوان پر مقالہ نگاری کو زیر نصاب کیا گیا تاکہ طالبات مضمون نگاری کرکے اپنی نگارشات کے ذریعے ملی، سماجی، معاشرتی اور دینی خدمات انجام دے سکیں۔ 
          ٥۔ تمام علوم وفنون کا سرچشمہ قرآن پاک ہے۔ بیشتر نصابوں میں اس کی بہت قلیل مقدار شامل درس تھی۔ جب کے سب سے زیادہ نظر قرآن کے مطالعہ پر ہی پڑنی چاہیے اور کم از کم سرسری نگاہ سے تو اکثر حصہ گزر جانا ہی چاہیے ۔ اس نصاب تعلیم میں اس نقص کو حتی المقدور ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور قریب نصف قرآن داخل نصاب کیا گیا۔ نیز بڑی خوبی کی بات یہ ہے کہ ان صورتوں اور پاروں کا انتخاب عمل میں لایا گیا جس میں عورتوں کے مسائل کثرت سے ہیں۔ جیسے: سورہ آل عمران، نسا، نور، احزاب، طلاق ، مجادلہ اور مریم وغیرہ۔ تاکہ مسائل پرصحیح طور پر آگاہی ہوجاۓ۔
           ٦۔ اس نصاب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ فقہ وتفسیر وحدیث کے تمام ابواب کا جائزہ لینے کے بعد یہ طے کیا گیا کہ اگر ایک باب ایک کتاب میں  پڑھا جاچکاہے تو وہ دوسری کتاب میں نہ آۓ۔ اور تینوں عناوین پر مشتمل کتابیں استقرائی طور پر تمام فقہی ابواب کو محیط ہوں، یعنی جب فراغت ہو تو اس وقت کسی حد تک تمام ابواب پر نظر پڑ چکی ہو خواہ کسی بھی کتاب میں پڑی ہو تاکہ تمام ضروری مسائل اجمالا ذہن نشین ہوجائیں۔ 
           ٧۔نسواں اداروں میں درجۂ فضیلت تک تقریبا دو تین حدیث کی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں اور بخاری شریف پڑھا کر ردا پوشی کرادی جاتی تھی، اس نصاب تعلیم میں اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ صحاح ستہ کی کل کتابیں یعنی بخاری ومسلم ، جامع ترمذی، ابوداؤد، سنن نسائی اور ابن ماجہ  کو داخل نصاب کیا گیا مزید برآں "مؤطا امام محمد" اور "ریاض  الصالحین" سے بھی کچھ ابواب شامل کیے گئے۔ تاکہ طالبات روایات واحادیث سے کسی حد تک روشناس ہوسکیں اور احادیث کا مطالعہ کما حقہ ہوسکے۔ 
           ٨۔ ارشاد وتبلیغ کا ایک خاص عنصر یہ ہے کہ انسان جو پڑھے لکھے اسے ذہن نشین کرکے مد مقابل کے ذہن ودماغ میں اتاردے اور مادہ افہام وتفہیم اسے حاصل ہو، اس بابت زیر نظر نصاب میں منطق اور علم کلام کو جگہ دی گئی، اور "کبری" و"مرقاۃ" و"شرح العقائد" داخل کی گئی۔ آخر الذکر کتاب اگرچہ اعتقادیات کے باب میں ہے لیکن اس کا انداز بیان ایسا ہے کہ افہام وتفہیم میں اس سے ایک خاص مدد ملتی ہے۔
           ٩۔اصول فقہ میں اصول الشاشی، نور الانوار اور حسامی کو نصاب میں شامل کیا گیاتاکہ علم اصول فقہ پر بھی کامل دسترس حاصل ہو جائے۔ جب کہ قدیم نصاب تعلیم میں صرف اول یا ثانی مع اول ہوتی تھی۔ 
          ١٠۔ حصول علم کا عظیم مقصد تقوی اختیار کرکے دنیا و آخرت میں سرخ روئی حاصل کرنا، اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا حاصل کرکےدنیا و آخرت کی سرفرازی حاصل کرنا ہے لیکن اس سب کے لیے ضروری ہے تزکیہ نفس۔ لہذا اس ضروت کے پیش نظر "ریاض الصالحین"، "مکاشفۃ القلوب" اور "مشکوۃ المصابیح" سے کتاب الرقاق کو شامل درس کیا گیا تاکہ اصل الاصول مقصد ومطلب نجیح ورجیح رہے۔ 
          ١١۔اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے اشر فعلی تھانوی، قاسم نانوتوی، خلیل احمد انبیٹھوی، رشید احمد گنگوہی کی تکفیر فرمائی اور  اسماعیل دہلوی کی بابت کف لسان کیا ۔ کتنے طلبہ اور علما ایسے ہیں کہ جنھیں معلوم نہیں ہوتا!  کہ کس پر حکم کفر ہے اور کس وجہ سے؟ طالبات تو حاشا وکلا! اس نقص کو دور کرنے کے لیے "کتاب العقائد"، "عقائد علماے دیوبند" اور "المعتقد المنتقد" نصاب میں شامل کی گئی۔ تاکہ دیوبندی علما کے عقائد کے بارے میں سرسری طور پر معلومات حاصل کرکے اپنے اعتقاد ونظریات کا تحفظ کرسکیں۔  
         ١٢۔ کامیاب معلمہ بننے کے لیے ضروری ہے کہ عربی زبان وادب پر کامل عبور حاصل ہو۔ اس کے طریقۂ استعمال سے واقفیت ہو اور زمانہ موجودہ کے لحاظ سے اس زبان پر گرفت ہو، قدیم وجدید کا فرق بھی بین ہو۔ اس کے تئیں "معلم الانشا" کے بجاے "مصباح الانشا" کو شامل نصاب کیا گیا۔ 
اس کے علاوہ بھی اس نصاب تعلیم میں گونا گوں خصوصیات ہیں جن کا یہ مختصر مقالہ متحمل نہیں ہوسکتا ۔ اللہ تعالیٰ اس نصاب تعلیم کو اپنے حبیب علیہ التحیۃ والتسلیم  کے صدقہ و طفیل طالبات کےلیے نفع بخش اور قبول عام وخاص بناۓ. 


نصاب تعلیم کا آن لائن مطالعہ فرمائیں 




مزید پڑھیں : 



ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے