Advertisement

معترضہ آیاتِ جہاد، معنیٰ و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر، پندرہویں قسط از مولانا بدر الدجیٰ مصباحی

معترضہ آیاتِ جہاد

(معنی و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر)

ماقبل سے پیوستہ

پندرہویں قسط

تحریر : مولانا بدر الدجیٰ رضوی مصباحی

پرنسپل : مدرسہ عربیہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد، ضلع مئو، یوپی، الہند۔




(1) يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ يَغْلِبُواْ أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَفْقَهُونَ (أنفال،65)
اے غیب کی خبریں بتانے والے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو اگر تم میں کے بیس صبر والے ہوں گے دو سو پر غالب ہوں گے اور اگر تم میں کے سو ہوں تو کافروں کے ہزار پر غالب آئیں گے اس لئے کہ وہ سمجھ نہیں رکھتے۔(کنز الایمان)
(2) یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْؕ-وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ (تحریم،۹)
اے غیب بتانے والے(نبی) کافروں پر اور منافقوں پر جہاد کرو ان پر سختی فرماؤ اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور کیا ہی برا انجام(کنز الایمان)
سورۀ انفال اور تحریم کا نزول مدینہ شریف میں ایسے حالات میں ہوا جب کہ کفار و مشرکین مکہ کی ریشہ دوانیاں کسی پہلو رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ اللہ کے رسول ﷺ اہل مکہ کے انسانیت سوز مظالم سے تنگ آ کر مع اصحاب مدینہ ہجرت کر گئے تھے تاکہ سکون و اطمینان کے ساتھ دعوتِ حق کا کام انجام دے سکیں لیکن کفار و قریشِ مکہ کی سازش سے یہاں بھی آپ محفوظ نہیں رہے قریش نے سب سے پہلے عبد اللہ بن ابی اور اس کے ان اصحاب کو ساز باز کر کے اپنا ہم نوا بنا لیا جو اس وقت ایمان نہیں لائے تھے قریش نے انہیں لکھا کہ تم نے ہمارے جس آدمی کو اپنے یہاں پناہ دیا ہے اسے وہاں سے نکال دو ورنہ ہم تمہیں تباہ و برباد کر دیں گے اور تمہارا نشان تک مٹا دیں گے لیکن حضور علیہ الصلوة و السلام کے فہم و تدبر اور پیغمبرانہ بصیرت سے وہ اس میں ناکام ہو گئے لیکن قریش اپنی حرکت سے باز نہیں آئے جب ابن ابی سے کام نہیں چلا تو انہوں نے یہودِ مدینہ سے پینگیں بڑھانا شروع کر دیا اور انہیں اپنے ساتھ ملا لیا اور ان کے توسط سے مسلمانوں کو کہلا بھیجا کہ مکہ سے صاف بچ نکل کر کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو جانا ہم مدینہ کی زمین بھی تم پر تنگ کر دیں گے اور کسی حال میں تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔ ان کی ناپاک حرکتوں سے ابتدائی ایام میں مدینہ کی سرزمین بھی مسلمانوں کے لئے پرامن نہیں رہ گئی حضور علیہ الصلوة والسلام ساری رات جاگ جاگ کر گزار دیتے تھے بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: آج کوئی اچھا آدمی پہرا دیتا! حضرت سعد بن ابی وقاص اٹھ کھڑے ہوئے اور ساری رات پہرا دیا تب جا کر آپ ﷺ نے آرام فرمایا۔ ایسے نا مساعد حالات میں اللہ کے رسول ﷺ کے لئے تین راستے تھے (1) حق اور دعوت الی الحق سے دستبردار ہو جائیں (2) حق پر قائم رہ کر ظلم و تشدد برداشت کریں اور صحابہ کا قتل ہونے دیں (3) ظلم و تشدد کا جرأت و ہمت کے ساتھ مقابلہ کریں اور قریش مکہ سے پوری قوت کے ساتھ اپنا دفاع کریں اور نتیجہ خدا پر چھوڑ دیں_ غور و خوض کے بعد آپ نے تیسری راہ کا انتخاب فرمایا نتیجہ یہ ہوا کہ حق غالب آ گیا اور ظالموں کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا۔

آپ عہدِ رسالت کی اسلامی۔جنگوں کا مطالعہ کریں خواہ وہ غزوات کی صورت میں ہوں یا سرایا کی صورت میں تو آپ پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ بدر سے لے کر تبوک تک ساری جنگیں پیغمرِ اسلام ﷺ نے اپنے دفاع میں لڑی ہیں اس لئے کہ اسلام کبھی بھی ناحق کسی پر ظلم کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے البتہ اپنے دفاع کا حق ہر کسی کو حاصل ہے۔
اس کے کچھ شواہد قرآن پاک سے ملاحظہ فرمائیں!
(1) وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ (البقرہ،190)
اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو! (کنز الایمان)
(2) ٱدْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِٱلْحِكْمَةِ وَٱلْمَوْعِظَةِ ٱلْحَسَنَةِ ۖ وَجَٰدِلْهُم بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ ۚ
اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو( آیات و دلائل سے دعوت دیں جنگ و جدال سے نہیں) (کنز الایمان)
(3) فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ (البقرة،191)
اور اگر تم سے لڑیں تو انہیں قتل کرو! (کنز الایمان)
(4) وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ ۖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ (النحل،126)
اور اگر تم سزا دو تو ویسی ہی سزا دو جیسی تکلیف تمہیں پہونچائی تھی اور اگر تم صبر کرو تو بےشک صبر والوں کو صبر سب سے اچھا ہے (کنز الایمان)
(5) وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (انفال،61)
اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی جھکو اور اللہ پر بھروسہ رکھو بےشک وہی ہے سنتا جانتا۔(کنز الایمان)
(6) وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا (المائدہ، 5)
اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ ابھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو! (کنز الایمان)۔

ان تمام آیات میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی قوم سے جنگ میں پہل نہ کریں البتہ اگر کوئی تم سے جنگ پر کمر بستہ ہو تو تم اپنے دفاع میں اس سے جنگ کر سکتے ہو لیکن اس صورت میں بھی اس کی تاکید کی گئی ہے کہ قتل و قتال، حرب و ضرب میں کسی بھی قسم کی زیادتی مسلمانوں کی طرف سے نہ ہو اور ہر حال میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں یہاں تک کہ حضور علیہ الصلوة والسلام نے جنگ میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور راہبوں کے قتل سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ کسی جہاد میں ایک عورت مقتول پائی گئی تو اللہ کے رسولﷺ نے عورتوں اور بچوں کے قتل کو برا گردانا (صحیح مسلم، کتاب الجھاد، باب تحریم قتل النساء و الصبیان) اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث بھی مروی ہے کہ کسی جہاد میں ایک عورت مقتول پائی گئی تو حضور علیہ الصلوة والسلام نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا۔ (ایضاً) اسی طرح حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی یہ حدیث ہے اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں: اور بہت بوڑھے کو قتل نہ کرو اور نہ بچے کو اور نہ عورت کو (ابو داؤد، جـ 1 صـ 351) حتی کہ احادیث میں دشمن سے مقابلہ کی تمنا سے ممانعت آئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا: تم دشمن سے مقابلہ کرنے کی تمنا نہ کرو اور جب ان سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو (صحیح مسلم کتاب الجھاد، باب کراھة تمنی لقاء العدو و الأمر بالصبر عند اللقاء)۔
اس قسم کی بہت سی آیات اور احادیث ہیں جن میں بلا وجہ قتل و قتال، حرب و ضرب اور بےجا ظلم و تشدد سے مسلمانوں کو منع کیا گیا ہے لیکن اسلام دشمن عناصر کو یہ سب آیات اور احادیث دکھائی نہیں پڑتی ہیں انہیں صرف وہی آیات نظر آتی ہیں جن میں بظاہر ان کے لئے بارود موجود ہے اور صحیح مفہوم و معنی کو سمجھے بغیر ان آیات کو سامنے لا کر وہ ملک کی فضا کو مسموم کرنا چاہتے اور برادرانِ وطن کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے وسیم رضوی کی رٹ خارج کر کے اور اس کی سرزنش کر کے بتا دیا ہے کہ کسی کو بھی ملک کی گنگا جمنی تہذیب پر شب خون مارنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جس کے لئے وہ مبارک باد کے قابل ہے۔

سورۀ انفال کی آیت 65 اور ماقبل و مابعد کی دیگر آیتیں اور سورۀ تحریم کی آیت 9 کو بھی مذکورہ بالا تناظر میں دیکھنا اور سمجھنا چاہیے۔
سن 2 ہجری سے اسلام پر ایک نئے دور کا آغاز ہوا مسلمانوں نے ظالموں کی ریشہ دوانیوں سے تنگ آ کر اپنے تحفظ کے لئے نہایت کم تعداد میں ہوتے ہوئے بھی تلوار اٹھا لیا جس کے نتیجے میں غزوۀ بدر وقوع پذیر ہوا لیکن اس جنگ میں فریقین کے مابین طاقت کا کوئی توازن نہیں تھا قریشِ مکہ کے ساتھ ایک بڑا لشکر تھا جس میں ایک ہزار پیدل سپاہ اور سو سوار تھے اور ایک طرف صرف تین سو تیرہ کی تعداد تھی جن میں ساٹھ مہاجرین باقی انصار تھے (تاریخ اسلام) قریش ساز و سامان اور آلاتِ حرب و ضرب سے پوری طرح لیس تھے لیکن مسلمانوں کو اللہ کی مدد پر بھروسا تھا ظاہر سی بات ہے جب مسلمانوں کو قریش کے لشکر کی نقل و حرکت اور ان کی بھاری نفری کی خبر ملی ہو گی تو انہیں ان کے مقابلہ میں اپنی قلتِ تعداد کا احساس ہوا ہوگا کہاں تین سو تیرہ! اور کہاں سامانِ حرب و ضرب سے لیس ایک ہزار سے بڑا لشکر؟ اسی موقع پر اللہ تبارک و تعالی نے اپنے نبی کو حکم فرمایا کہ آپ مسلمانوں کو استقامت کی تلقین کریں اور انہیں پوری طاقت سے دشمن سے مقابلہ پر برانگیختہ کریں اور انہیں بتائیں کہ وہ دشمن کی کثرتِ تعداد کو دیکھ کر نہ گھبرائیں بلکہ پوری جرأت و ہمت اور ایمانی جذبہ کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں اور ان کو یہ بتا دیں کہ اگر وہ بیس کی تعداد میں ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب ہوں گے اور اگر وہ سو کی تعداد میں ہوں تو ایک ہزار دشمنوں پر غالب ہوں گے یعنی ایک مسلمان دس کافروں پر بھاری ہوگا بشرطیکہ وہ صبر، ہمت اور استقامت کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرے !

اپنے فوجیوں میں اسپرٹ پیدا کرنا، حوصلہ بڑھانا،صبر و تحمل اور استقامت کے ساتھ دشمن کے مقابلہ کی ترغیب دینا، قلت و کثرت کو بالاے طاق رکھ کر دشمن سے نبرد آزما ہونے کا جذبہ پیدا کرنا آج بھی فوجی جنرلوں کا وطیرہ ہے۔ کیا دنیا کی حکومتیں یہ گوارہ کریں گی کہ فوجی افسر سپاہ میں بزدلی پیدا کرے، دشمن سے مقابلہ کے وقت ہتھیار ڈال دینے کی ترغیب دے، بغیر کسی مزاحمت کے خود سپردگی کر دے؟ ہرگز نہیں بس اسی تناظر میں سورۀ انفال کی آیت 65 کو بھی سمجھنا چاہیے۔
بکری چرانے والوں، اونٹوں کی گلہ بانی کرنے والوں کو فرماں روائی کا ہنر حضور علیہ الصلوة و السلام کی اسی تعلیم نے دیا تھا جس کی بدولت وہ بگولوں کی طرح اٹھے اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا پر چھا گئے۔
سورۀ تحریم کی آیت 9 کا بھی نزول مدینہ میں ہجرت کے ابتدائی دنوں میں ہوا جب کہ مسلمانوں کو بیرونی اور اندرونی دشمنوں سے برابر کا خطرہ بنا ہوا تھا ایک طرف مسلمانوں کے کھلے دشمن آئے دن اپنی ناپاک حرکتوں اور طرح طرح کی سازشوں سے مسلمانوں کا جینا حرام کئے ہوئے تھے اور دوسری طرف ان کے چھپے دشمن عبد اللہ بن ابی اور اس کے پیروکار جو بظاہر مسلمانوں کے ساتھ تھے اور بباطن وہ قریشِ مکہ کے ہم نوا اور ان سے ملے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کی راہ میں مشکلات پیدا کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ منافقوں کی سازشوں کا اندازہ آپ یوں کر سکتے ہیں کہ جب احد کا معرکہ پیش آیا اور حضور علیہ الصلوة و السلام نے نوجوان صحابہ کی بڑی تعداد کے مشورے پر شہر سے باہر نکل کر دشمنوں سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور جب آپ اسلامی لشکر کو لے کر مقامِ شرط پر پہونچے تو عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو آدمیوں کو لے کر فرار ہو گیا اور عذر یہ پیش کیا کہ میری راے کے مطابق مدینے میں رہ کر مقابلہ نہیں کیا گیا اس لئے میں اس جنگ میں شریک نہیں ہو سکتا۔ عین وقت پر ابن ابی کے پیٹھ دکھانے کی وجہ سے مسلمان جو پہلے ہی تعداد میں کم تھے اب وہ مزید کم ہو گئے (صرف سات سو)۔

حاصل یہ ہے کہ ہجرت کے ابتدائی ماہ و سال میں مسلمانوں کو بیرونی اور اندرونی دو محاذ پر دشمن سے نبرد آزما ہونا پڑتا تھا ان حالات میں اللہ تبارک و تعالی نے اپنے پیغمبرﷺ کو حکم فرمایا: کہ جو کھلے دشمن ہیں اور قتل و قتال پر آمادہ ہیں ان سے آپ جہاد بالسیف کریں اور جو چھپے دشمن ہیں یعنی منافقین انہیں دلائل کے ذریعہ حق قبول کرنے پر آمادہ کریں یا ڈانٹ پھٹکار کر انہیں راہِ راست پر لائیں یا ان کے راز کو فاش کر کے ان کی خباثت باطنی کو ظاہر کر دیں اور دونوں کے ساتھ انتہائی سختی سے پیش آئیں تاکہ ان کا زور ٹوٹ جائے اور اسلام کو غلبہ و اقتدار حاصل ہو جائے۔ (تفسیر کبیر ماتحت الآیة)۔

جاری


ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے