Advertisement

معترضہ آیاتِ جہاد، معنیٰ و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر، چودہوہں قسط از مولانا بدر الدجیٰ مصباحی

 

معترضہ آیاتِ جہاد

(معنی و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر)

ماقبل سے پیوستہ

چودہویں قسط

تحریر : مولانا بدر الدجیٰ رضوی مصباحی

پرنسپل : مدرسہ عربیہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد، ضلع مئو، یوپی، الہند۔


     (۱) وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا (النساء، 101)
     اور جب تم زمیں میں سفر کرو تو تم پر گناہ نہیں کہ بعض نمازیں قصر سے پڑھو اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ایذا دیں گے بےشک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں۔(کنز الایمان)
     (۲) فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠ (أنفال 69)
     تو کھاؤ جو غنیمت تمہیں ملی حلال پاکیزہ اور اللہ سے ڈرتے رہو بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(کنز الایمان)
     سورہ نساء آیت 101 کے تحت یہ جان لینا ضروری ہے کہ دشمن کا خوف نماز میں قصر کی شرط نہیں ہے بلکہ یہ بیان حال کے لئے ہے آیت کے نزول کے وقت سفر اندیشہ سے خالی نہیں ہوتے تھے اس لئے بیانِ حال کی غرض سے یہاں خوف کا ذکر کیا گیا ہے لہذا شرطِ قصر وہ سفر ہے جسے فقہا نے بیان فرمایا ہے چاہے وہ جہاد کے لئے ہو یا سفرِ تجارت ہو یا کسی اور غرض سے وہ سفر کیا گیا ہو۔
     مجاہدین اسلام کو جن امور کی حاجت درپیش ہوتی ہے ان میں سے ایک امر یہ ہے کہ وہ دشمن کے خوف اور اس سے جنگ کے وقت نماز کس طرح ادا کریں؟ اسی اہم مسئلہ کو اللہ تبارک و تعالی نے اس آیت سے بیان فرمایا ہے۔

     لفظِ "قصر" تخفیف کی طرف مشعر ہے اس لئے کہ اس آیت میں اس کی صراحت نہیں ہے کہ قصر سے کیا  مراد ہے؟ رکعتوں کی مقدار اور ان کی تعداد میں قصر  مثلاً چار رکعتوں والی نماز کو دو رکعت پڑھنا یا نماز کی ادائیگی کی کیفیت میں قصر مثلاً اشارے سے نماز پڑھنا اس لئے اس آیت میں مفسرین کے دو اقوال ہیں:
      (۱) اس آیت میں قصر سے مراد رکعات کی تعداد میں قصر ہے جمہور مفسرین کا یہی قول ہے پھر جمہور کے مابین اس میں اختلاف ہے کہ اس آیت میں صلاة سے صلاةِ سفر مراد ہے یا صلاةِ خوف مراد ہے بعض اس بات کے قائل ہیں کہ اس سے صلاةِ سفر مراد ہے اس تقدیر پر ہر وہ نماز جو حضر میں چار رکعت پڑھی جاتی ہے وہ سفر میں صرف دو رکعت پڑھی جائے گی مثلا ظہر، عصر اور عشاء کی نمازیں مغرب اور فجر کی نماز اس میں داخل نہیں ہے یعنی ان نمازوں میں قصر نہیں ہے۔ اور بعض کا قول یہ ہے کہ اس آیت میں صلاةِ سفر یعنی مسافر کی نماز مراد نہیں ہے بلکہ صلاة خوف مراد ہے حضرت ابن عباس، حضرت جابر بن عبد اللہ اور ایک جماعت کا یہی قول ہے  حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے تمہارے نبی محمدﷺ کی زبان پر نمازِ حضر کو چار رکعت نمازِ سفر کو دو رکعت اور نمازِ خوف کو ایک رکعت فرض قرار دیا ہے۔(مسلم جلد ۱ کتاب صلاة المسافر و قصرھا ص241) 
امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی رحمة اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ سلف کی ایک جماعت نے اس پر عمل کیا ہے کہ خوف کے وقت ایک رکعت نماز ادا کی جائے گی۔ امام حسن بصری اور اسحاق بن راہویہ کا یہی مذہب ہے لیکن امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور جمہور کا مذہب یہ ہے کہ نمازِ خوف نمازِ امن کی طرح ہے یعنی حضر میں چار رکعت اور سفر میں دو رکعت پڑھی جائے گی ایک رکعت ان کے نزدیک کسی بھی حال میں روا نہیں ہے ان ِحضرات نے اس حدیث کا یہ جواب دیا ہے کہ اس حدیث می  ایک رکعت سے مراد وہ رکعت ہے جو حالتِ خوف میں امام کے ساتھ ادا کی جاتی ہے اور دوسری الگ سے پڑھی جاتی ہے۔(شرح مسلم للنووی: کتاب صلاة المسافر و قصرھا ص 241) یہ دونوں قول اس پر متفرع ہیں جب کہ قصر سے مراد رکعتوں کی تعداد میں تقلیل ہو (کمی ہو)۔

      (۲)دوسرا قول یہ ہے کہ اس آیت میں قصر سے مراد اداے رکعات کی کیفیت میں تخفیف ہے اور تخفیف یہ ہے کہ نماز میں اشارے پر اقتصار کیا جائے یعنی رکوع اور سجدہ اشارے سے کیا جائے اور اختصار کے ساتھ نماز پڑھی جائے اس صورت میں چل چل کر نماز پڑھنا جائز ہے اور خون سے لت پت ہو کر بھی نماز پڑھنا جائز ہے یہ وہ نماز ہوتی ہے جو میدانِ جنگ میں تلواروں کے سائے میں ادا کی جاتی ہے جب معرکہ کارزار گرم ہوتا ہے ہر چہار جانب سے تلواریں لہرا رہی ہوتی ہیں دشمن کی ضربِ کاری سے کب جسم خون سے لت پت ہو جائے؟ یا کب جان چلی جائے؟ اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی ہے ایسے وقت میں یہ نماز پڑھی جاتی ہے
 صاحبِ تفسیر کبیر نے اس قول (رکعات کی ادائیگی میں تخفیف) کو ضعیف قرار دیا ہے۔
     اس آیت میں لفظ قصر کو مدت سفر میں چار رکعات کی نماز کو دو رکعت پڑھے جانے پر محمول کرنا ہی اولیٰ ہے اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو حضرت یعلی بن امیہ سے مروی ہے۔ حضرت یعلی بن امیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرتِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے عرض کیا کہ اللہ فرماتا ہے: 
"فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ﳓ اِنْ خِفْتُمْ... الی آخر الآیة
جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر گناہ نہیں ہے کہ تم بعض نمازیں قصر سے پڑھو اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ایذا دیں گے۔
اور اب تو لوگ امن میں ہیں (یعنی اب دشمن کا کوئی خوف نہیں ہے پھر قصر کیوں ضروری ہے؟) حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: اس حکم سے مجھے بھی اسی طرح تعجب ہوا جیسے تمہیں تعجب ہوا تو میں نے اللہ کے رسولﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: "صَدَقَة لَصَدّقَ اللہُ بِھا عَلیکُم فاقْبِلُوا صَدْقَتہ" یہ اللہ نے تمہیں صدقہ عطا فرمایا ہے لہذا اس کا صدقہ قبول کرو! (مسلم جلد اول صلاة المسافرین و قصرھا 241) صاحب تفسیر کبیر نے اس کی اور بھی دلیلیں دی ہیں فارجع (تفسیر کبیر ماتحت الآیة)

     نمازِ خوف کس طرح ادا کی جائے گی اس کے لئے فقہ کی کتابیں دیکھیں! (الرضوی) 
     اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا: یہ ماقبل کے مضمون کی علت ہے یعنی اس جز میں کفار و مشرکین کے متوقع فتنے کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ کفار و مشرکین تمہارے کھلے دشمن ہیں۔
     عہدِ رسالت میں کفار ہمیشہ مسلمانوں کے درپے آزار رہتے تھے اور مسلمانوں کی مشغولیت کا وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے حتی کی  نماز میں بھی وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے منصوبے بنایا کرتے تھے اس لئے اس آیت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا کہ ان سے ہمیشہ ہوشیار اور چوکنا رہنا! انہیں تم سے قلبی عداوت اور رنجش ہے یہ کسی بھی وقت تمہیں آزمائش سے دو چار کر سکتے ہیں۔
      یہ عداوت آج بھی ظاہر ہے غیر مسلم سپر طاقتیں آج بھی مسلمانوں کو اپنے تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں سوشل میڈیا پر کمزور اور بےدست و پا  مسلمانوں پر ایسے ایسے روح فرسا مظالم کے ویڈیو دیکھنے میں آ رہے ہیں جس سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جنونی بھیڑ جب چاہتی ہے راہ چلتے بےقصور مسلمانوں کو مار مار کر ہلاک کر ڈالتی ہے اور ان مجرمین کو قرارِ واقعی سزا کیا ان سے باز پرس بھی نہیں ہوتی کیا ان مظالم سے یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ دنیا مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھ رہی ہے۔
    (۲) فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠ (أنفال، 69)
اس آیت میں مسلمانوں کو مالِ غنیمت کے کھانے کا حکم دیا گیا ہے اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ صحابہ کرام مالِ غنیمت کے لینے سے باز آ گئے تھے تو اس وقت اللہ تبارک و تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی اور مسلمانوں کو بتایا کہ مالِ غنیمت تمہارے لئے مباح ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں "ما" سے مراد وہ فدیہ ہے جس کا تذکرہ ماقبل کی آیات میں ہے اس تقدیر پر آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ فدیہ جملہ غنائم میں سے ہے اور وہ بھی تمہارے لئے حلال اور مباح ہے۔(تفسیر ابن سعود الجزء الرابع ص 36)

     اسیرانِ بدر جب قیدی بنا کر بارگاہِ رسالت میں لائے گئے تو حضور علیہ الصلوة والسلام نے ان کے بارے میں صحابہ کرام سے مشورہ کیا بعض صحابہ جن میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سرِفہرست ہیں، نے یہ مشورہ دیا کہ یہ ہمارے گھر خاندان کے لوگ ہیں ان کے قتل سے کیا فائدہ؟ ہو سکتا ہے یہ آگے چل کر ایمان لے آئیں  لہذا ان سے فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے اور ان کی جان بخشی کی جائے اور بعض صحابہ جن میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سرفہرست تھے، نے یہ مشورہ دیا کہ انہیں قتل کر دیا جائے انہوں نے ہمیں بڑی تکلیفیں دی ہیں لہذا یہ اس کے مستحق ہیں  کہ ان کی گردنیں اڑا دی جائیں ان کے فدیہ کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم میں قرابت دار اپنے قرابت دار کو قتل کرے! علی عقیل کو، حمزہ عباس کو اور خود میں اپنے فلاں رشتہ دار کو قتل کروں لیکن حضور علیہ الصلوة والسلام نے حضرت ابو بکر کے مشورے پر عمل کیا اور ان سب کو جو ستر کی تعداد میں تھے اور اکثر معززین قریش میں سے تھے فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔ اسی فدیہ کے بارے میں اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ یہ بھی جملہ غنائم میں سے ہے اور تمہارے لئے مباح ہے۔۔
     بعد میں اللہ تبارک و تعالی نے آیت نازل فرما کر حضرت عمر فاروق اور ان کے موافقین کی راے کی تائید فرمائی ہے سورہ انفال کی آیت 67 اسی کی طرف مشعر ہے(الرضوی)

جاری


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے