Advertisement

معترضہ آیاتِ جہاد، معنیٰ و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر، تیرہویں قسط از مولانا بدر الدجیٰ مصباحی

معترضہ آیاتِ جہاد

(معنی و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر)

ماقبل سے پیوستہ

تیرہویں قسط

تحریر : مولانا بدر الدجیٰ رضوی مصباحی

پرنسپل : مدرسہ عربیہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد، ضلع مئو، یوپی، الہند۔


     (۱) رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا ( الأحزاب۔68)
     اے ہمارے رب انہیں آگ کا دونا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر! (کنز الایمان)
     (۲) وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْهَاؕ-اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ۠ (السجدة22)۔
     اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جسے اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی گئی پھر اس نے ان سے منہ پھیر لیا بےشک ہم مجرموں سے بدلہ لینے والے ہیں۔(کنز الایمان)
     (۳) اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَؕ-اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ (الأنبیاء 98)
     بےشک تم اور جو کچھ اللہ کے سوا پوجتے ہو سب جہنم کے ایندھن ہیں تمہیں اس میں جانا ہے۔ (کنز الایمان)

     (۱)سورہ احزاب کی آیت 68 کا تعلق ماقبل کی آیات سے ہے لہذا ہم یہاں پر سورہ احزاب کی آیت 66،67 کے ساتھ اس کی تشریح کرتے ہیں۔
     جب بروز قیامت منکرین توحید و رسالت کو سخت عذاب سے دوچار کیا جائے گا اور جہنم میں ان کے اجسام الٹ پلٹ دئے جائیں گے یعنی انہیں جہنم کی آگ میں اوپر نیچے ہر طرف سے بھون دیا جائے گا جیسے کہ آگ یا ہانڈی میں گوشت الٹ پلٹ کر بھونا جاتا ہے اس وقت انہیں اپنے جرائم کا احساس ہوگا اور وہ انتہائی حسرت و افسوس سے کہیں گے اے کاش‌! کہ ہم نے اللہ و رسول کی اطاعت اور فرماں برداری کی ہوتی تو آج ہم اس عذاب میں مبتلا نہیں کئے جاتے اور ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے اور اپنے عذر کی تائید اور تقویت کے لیے وہ رب ذوالجلال سے فریاد کریں گے کہ ہمارے بڑوں نے جھوٹ پر سچ اور باطل پر حق کی ملمع سازی کر کے ہمیں گمراہ کر دیا اور ہم ان کے جھانسے میں آ گئے لہذا ہمارے گناہوں اور غلطیوں کے اصل ذمہ دار اے ہمارے رب! وہی لوگ ہیں۔ ہمارا قصور ضرور یہ ہے کہ ہم ان کی باتوں میں آ گئے اور ہم نے تیرے رسول کی اطاعت سے منہ موڑ لیا لیکن یہ سب انہیں کے کہنے پر ہوا لہذا ہم اگر اس سزا کے مستحق ہیں تو وہ اس لائق ہیں کہ انہیں دہری سزا دی جائے اس لئے کہ وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور ہمیں بھی گمراہی کی دلدل میں ڈھکیل دیا لہذا اے ہمارے رب! تو ان‌ پر شدید لعنت فرما!
     مذکورہ بالا وضاحت سے یہ صاف ہو گیا کہ سورہ احزاب کی آیت 68 میں اللہ تعالی سے جو فریاد کی گئی ہے اس میں فریادی مومنین نہیں ہوں گے بلکہ وہ منکرین و مشرکین ہوں گے جنہوں نے دنیا میں اپنے بڑوں کی فرماں برداری کی اور ان کے کہے پر چلے اور بار بار وعظ و تذکیر کے باوجود وہ توحید و رسالات پر ایمان نہیں لائے۔۔

     (۲)سورہ سجدہ کی آیت 22 سے پہلے کی آیات میں ایمان اور کفر کی جزا اور سزا کو بیان کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ہم عذابِ اکبر یعنی عذابِ آخرت سے پہلے دنیا ہی میں انہیں عذاب کا کچھ ذائقہ چکھائیں گے تاکہ یہ متنبہ ہو جائیں اور اپنی آنکھوں سے انجامِ بد دیکھ کر کفر و شرک سے توبہ کر لیں۔ اور ایسا ہی ہوا ہجرت سے قبل قریشِ مکہ امراض و مصائب میں گرفتار ہوئے اور ہجرت کے بعد بدر میں روساے قریش قتل کئے گئے اور سات سال تک قحط کی ایسی سخت مصیبت میں مبتلا رہے کہ ہڈیاں، مردار اور کتے تک کھا گئے (خزائن العرفان ما تحت الآیة) اور اب آیت 22 میں ماقبل کی آیات میں جو وعید کی گئی ہے اس کی علت بتائی جا رہی ہے کہ آخر ہم انہیں عذاب سے کیوں نہ دو چار کریں ان سے بڑھ کر ظالم اور مجرم کون ہو سکتا ہے؟ جن کو ہماری آیات کے ذریعہ بار بار وعظ و نصیحت کی گئی، بار بار انہیں راہِ حق دکھائی گئی، نئے نئے مؤثر انداز میں سمجھایا گیا کہ حق کیا ہے؟ اور باطل کیا ہے؟ پھر بھی انہوں نے روگردانی کی اور حق قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے لہذا مشیتِ الہیہ کے مطابق اب کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے اس کے کہ ان سے انتقام لیا جائے اور انہیں ان کے جرموں کی سزا دی جائے اس لئے کہ اب یہ یقینا مجرم ہیں، قابل گردن زدنی ہیں۔
     ان آیات میں اکثر الفاظ اگر چہ عام ہیں لیکن ان کے اولین مخاطب کفار و مشرکین مکہ ہی ہیں۔

     (۳)سورہ انبیاء کی آیت 98 کے مخاطب کفار و مشرکین مکہ ہیں۔ اس آیت میں مبالغہ فی الاِنذار کی غرض سے ان کا انجامِ بد  صراحت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے تاکہ ان کے لئے اب کوئی عذر باقی نہ رہے۔ اس آیت کے تحت مفسرین نے یہ روایت کی ہے کہ حضور علیہ الصلوة والسلام نے صنادید قریش کے روبرو کعبہ شریف کے پاس اس آیت (الأنبیاء 98)کی تلاوت فرمائی تو عبد اللہ بن زبعری نے کہا: رب کعبہ کی قسم! میں تمہارا مقابلہ کروں گا! کیا یہود نے عزیر، نصاری نے مسیح اور بنو ملیح نے ملائکہ کی عبادت نہیں کی؟
     ابن زبعری کے اعتراض کا مقصد یہ تھا کہ اس آیت کے مطابق ہم اور ہمارے معبود سب جہنم میں داخل ہوں گے اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت عزیر، حضرت عیسی، ملائکہ علیھم السلام بھی جہنم کا ایندھن ہوں اور یہ سب بھی ہمارے ساتھ جہنم میں داخل ہوں کیوں کہ ان کی بھی عبادت کی گئی ہے اور یہ نفس الامر کے خلاف ہے۔ حضور علیہ الصلاة و السلام نے ابن زبعری کے معارضہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: کیا تم اپنی قوم کی لغت سے ناواقف ہو؟ اور کیا تم نہیں جانتے ہو کہ "ما" غیر ذوی العقول(بے جان چیز) کے لئے آتا ہے (تفسیر ابن سعود، الجزء السادس 86,85) 
     بعض مفسرین نے ابن زبعری کے معارضہ کے جواب میں اور بھی روایتیں نقل کی ہیں لیکن صاحب تفسیر ابن سعود نے ان کی تردید کی ہے۔

     کفار و مشرکین مکہ غیرِ خدا کی پرستش کرتے تھے چاہے وہ انہیں لائق سجدہ گردانتے رہے ہوں یا تقرب کا ذریعہ جان کر ان کی عبادت کرتے رہے ہوں ہر حال میں یہ شرک ہے اس لئے اس آیت میں فرمایا گیا کہ مشرکین اور معبودانِ باطل سب جہنم کا ایندھن ہوں گے، سب کو جہنم میں داخل ہونا ہوگا۔
     اس آیت میں "ما تعبدون" سے مراد مفسرین کرام نے بتوں کو لیا ہے اس میں اللہ کے وہ نیک بندے (حضرت عیسی، حضرت عزیر، ملائکہ علیھم السلام) داخل نہیں ہیں جن کی پرستش شیطان کے ورغلانے سے کی گئی ہے اس لئے کہ "ما" اسم موصول ہے جو غیر ذوی العقول (بےجان چیز) کے لئے آتا ہے۔

جاری


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے