Advertisement

معترضہ آیاتِ جہاد، معنیٰ و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر، بارہویں قسط از مولانا بدر الدجیٰ مصباحی


معترضہ آیاتِ جہاد

(معنی و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر)

ماقبل سے پیوستہ

بارہویں قسط

تحریر : مولانا بدر الدجیٰ رضوی مصباحی

پرنسپل : مدرسہ عربیہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد، ضلع مئو، یوپی، الہند۔



فَلَنُذِیْقَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا عَذَابًا شَدِیْدًاۙ-وَّ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۷) ذٰلِكَ جَزَآءُ اَعْدَآءِ اللّٰهِ النَّارُۚ-لَهُمْ فِیْهَا دَارُ الْخُلْدِؕ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ(۲۸)
     تو بےشک ضرور ہم کافروں کو سخت عذاب چکھائیں گے اور بےشک ہم ان کے برے سے برے کام کا بدلہ دیں گے(27) یہ ہے اللہ کے دشمنوں کا بدلہ آگ انہیں اس میں ہمیشہ رہنا ہے سزا اس کی کہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے(28) کنزالایمان۔
     سورۀ "حم السجدة" کی آیات 28،27،26 میں اللہ تبارک و تعالی نے جرم اور سزا دونوں کو آشکار فرمایا ہے لیکن معترضین نے مقصد برآری کے لئے صرف آیت 27 اور 28 کو پیش کیا ہے اور آیت 26 کو وہ گول کر گئے ہیں جس میں مجرمین کے جرم کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔ واقعہ ہے یہ کہ قرآن خدا کی نازل کردہ کتاب ہے جس میں دنیا بھر کے علوم کو اللہ تبارک و تعالی نے جمع کر دیا ہے جیسا کی ابن سراقہ کتاب الاعجاز میں حضرت ابوبکر بن مجاہد سے روایت کرتے ہیں: وہ فرماتے ہیں "ما من شئی فی العالم الا وھو فی کتاب اللہ" (الاتقان، الجزء الثانی ص 160) اور ابن برہان سے مروی ہے: حضور علیہ الصلوة والسلام ارشاد فرماتے ہیں: "ما من شئیً فھو فی القرآن أو فیہ اصلہ قرب او بعد" (الاتقان ص 160) کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو قرآن میں نہ ہو یا اس کی اصل قرآن میں نہ ہو خواہ وہ قریب ہو یا بعید۔ اس حدیث کا بھی حاصل یہی ہے کہ قرآن میں ہر شے کا علم موجود ہے اب اگر اللہ نے فہم و ادراک کی صلاحیت دی ہے تو طالب اپنی سمجھ کے مطابق قرآن سے کسی بھی شے کے علم کا استخراج کر سکتا ہے۔ حضرت امام شافعی رحمة اللہ نے ایک بار مکة المکرمة میں فرمایا: "سلونی عما شئتم أخبرکم عنہ فی کتاب اللہ" (الاتقان ص 160) تم مجھ سے جس چیز کے بھی بارے میں پوچھو گے میں تمہیں بتاؤں گا کہ وہ قرآن میں ہے یعنی قرآن پاک سے میں اس کا جواب دوں گا۔ اس قسم کے مزید شواہد آپ "الاتقان" میں دیکھ سکتے ہیں۔

     زبان و بیان کے اعتبار بھی قرآن ایک معجز کتاب اور کلامِ الہی ہے۔ فصاحت و بلاغت میں یکتاے زمانہ ہونے کے باوجود فصحائے عرب اس کا جواب نہیں پیش کر سکے اللہ تبارک و تعالی نے متعدد مقامات پر انہیں چیلینج کیا کہ اگر تم اپنے اس وعدے میں سچے ہو کہ قرآن آسمانی کتاب نہیں ہے تو تم اس جیسا کلام پیش کرو! اللہ فرماتا ہے:
فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِهِ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ (الطور، 34) 
تو اس جیسی ایک بات تو لے آئیں اگر سچے ہیں(کنز الایمان) .
پھر اللہ تبارک و تعالی نے انہیں چیلینج کیا کہ اگر تم پورے قرآن کا جواب نہیں لا سکتے تو اس کی کسی دس سورت کا ہی جواب لے آؤ! اللہ فرماتا ہے: 
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُؕ-قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ (ھود،13) 
کیا یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے جی سے بنا لیا؛ تم فرماؤ تم ایسی بنائی ہوئی دس سورتیں لے آؤ! (کنز الایمان)
 پھر علی سبیل التنزل اللہ تبارک و تعالی نے انہیں چیلینج دیا کہ دس سورت کا جواب تو بڑی بات ہے تم اس کی کسی ایک سورت کا ہی جواب پیش کر دو!! اللہ فرماتا ہے:
 اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُؕ-قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ (یونس، 38) 
کیا یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے بنا لیا ہے تم فرماؤ تو اس جیسی ایک سورت لے آؤ (کنز الایمان)۔
اس طرح حضور علیہ الصلوة والسلام حکم خداوندی سے اہلِ مکہ کو مختلف لب و لہجے میں برابر چیلینج کرتے رہے لیکن  وہ ایک سورت کیا اس کی ایک آیت کا بھی جواب نہیں لا سکے اور یہ چیلینج آج بھی برقرار ہے اگر وسیم رضوی یا اسلام دشمن عناصر کا یہ دعوی ہے کہ قرآن خدا کی کتاب نہیں ہے یا اس کی کچھ آیات میں انسانی کلام کی آمیزش ہو گئی ہے تو وہ پورے قرآن کا جواب نہیں بلکہ وہ صرف انہیں جیسی آیات پیش کریں جن کے بارے میں وہ یہ دعوی کرتے ہیں۔

    حاصل یہ ہے کہ فصحاے عرب قرآن کو درکنار کرنے اور اس کے نور کو بجھانے کے انتہائی حریص ہونے کے باوجود  قرآن کی کسی آیت کا جواب نہ لا سکے اگر ان کے اندر قرآن کا جواب لانے کی قدرت ہوتی تو ضرور اس کا جواب پیش کرتے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ خود در پردہ قرآنی تاثیرات سے متأثر تھے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ولید بن مغیرہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا آپ نے اسے قرآن کی آیات سنائیں جسے سن کر ولید بن مغیرہ پر رقت طاری ہو گئی اور وہ آبدیدہ ہو گیا شدہ شدہ یہ خبر ابو جہل تک پہونچی وہ ولید بن مغیرہ کے پاس آیا اور کہا: اے چچا! آپ کی قوم آپ کے لئے کچھ مال جمع کرنا چاہتی ہے۔ ولید نے پوچھا کس لئے؟ ابو جہل نے کہا: وہ تجھے دینا چاہتے ہیں کیوں کہ تم محمد کی خدمت میں جاتے ہو اس نے کہا قریش کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ان میں سب سے بڑا مالدار ہوں ابو جہل نے کہا: پھر آپ محمد کے بارے میں کوئی ایسی بات کہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ آپ اسے ناپسند کرتے ہیں۔ ولید نے حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "فواللہ ما فیکم رجل اعلم بالشعر منی و لا برجزہ و لا بقصیدہ و لا بأشعار الجن واللہ ما یشبہ الذی یقول شیئا من ھذا واللہ أن لقولہ الذی یقول حلاوة و أن علیہ لطلاوة و أنہ لمثمر أعلاہ مغدق أسفلہ و أنہ یعلو و لا یعلیٰ علیہ و أنہ یحطم ما تحتہ (الاتقان، الجزء الثانی ص 140، 150) ولید نے کہا: واللہ تمہیں خوب علم ہے کہ تم میں کوئی مجھ سے زیادہ  شعر کا جاننے والا نہیں ہے میں اشعار کی اقسام رزم اور قصیدے سے خوب واقف ہوں اسی طرح اجنہ کے اشعار کا بھی خوب علم رکھتا ہوں اللہ گواہ ہے کہ ان کا کلام ان سب سے نرالا ہے واللہ ان کے کلام میں شیرینی اور حسن و آرائش ہے اور بےشک ان کے کلام کا بالائی حصہ لذیذ پھلوں سے لدا ہوا ہے اور اس کا نچلا حصہ سوکھی پتیوں اور شاخوں سے دور ہے ان کا کلام بلند ہونے والا ہے اسے کوئی پست نہیں کر سکتا یہ جس پر پڑ جائے گا اسے روند کر ریزہ ریزہ کر دے گا۔

     حاصل یہ ہے کہ جب قریشِ مکہ قرآن کا جواب پیش کرنے سے عاجز آ گئے اور انہوں نے دیکھا کہ قرآنی تاثیرات کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور روساے قریش اور معززین مکہ بھی اسلام میں آتے جا رہے ہیں تو وہ عناد پر اتر آئے اور قرآن کا مزاق اڑانے لگے کبھی کہتے کہ یہ جادو ہے کبھی اسے شعر بتاتے اور کبھی کہتے کہ یہ پہلے والے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں اور جب اس سے بھی بات نہیں بنی تو وہ حرب و ضرب، قتل و قتال پر آمادہ ہو گئے۔ غرباے صحابہ پر ستم ڈھانے لگے اور انہیں قیدی بنانے لگے، ان کے جان و مال کو مباح کر لیا اور اس پر بھی جب بات نہیں بنی تو انہوں نے اپنے لوگوں کو ورغلانہ شروع کر دیا کہ جب محمدﷺ قرآن پڑھیں تو تم اس پر خاموش نہ رہو بلکہ تم زور زور سے  خوب شور اور ہنگامہ کرو، چیخو چلاؤ، تالیاں اور سیٹیاں بجاؤ تاکہ قرآن کے کلمات تمہارے کانوں سے نہ ٹکرائیں اور قرآن شور اور ہنگامے کی نذر ہو جائے جیسا کہ سورۀ " حم السجدة" کی آیت 26 اس پر شاہد ہے جسے معترضین نے چالاکی دکھاتے ہویے اپنے اعتراض سے حذف کر دیا ہے۔ "وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَا تَسْمَعُواْ لِهَٰذَا ٱلْقُرْءَانِ وَٱلْغَوْاْ فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ" اور کافر بولے یہ قرآن نہ سنو اور اس میں بےہودہ غل کرو شاید یوں ہی تم غالب آؤ. (کنز الایمان) 

     یہ ان کی جہالت اور خام خیالی تھی کہ اس طرح وہ بانیِ اسلامﷺ پر غالب آ جائیں گے اور اسلام کو مٹا دیں گے اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے محبوب کا مددگار ہے اور اس کی مدد کے آگے ساری رکاوٹیں ہیچ ہیں۔ پھر اللہ عز و جل نے اس سورہ کی آیت 28،27 میں ان کے اس بدترین جرم اور گھٹیا حرکت کی سزا کو بیان فرمایا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نادانو! جب اس کا انجام تمہارے سامنے آئے گا اور تمہیں اس کی سخت سزا دی جائے گی پھر تمہیں اندازہ ہوگا کہ ہم نے کون سی حرکت کی تھی۔ کما تدینُ تُدان الٰہی قانون ہے اور اسی روش پر دنیا کی حکومتیں بھی گامزن ہیں۔

جاری


ایڈیٹر مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے