Advertisement

بچوں کی بے راہ روی میں بڑوں کا کردار مولانا حسان رضا برکاتی مصباحی

بچوں کی بے راہ روی میں بڑوں کا کردار 


از: محمد حسان رضا برکاتی مصباحی

بازار باغ دھانے پور ضلع گونڈہ یوپی


کسی بھی عمل کی طرف لوگوں کو راغب کرنا اور اس پر ان کو ابھارنا اس وقت آسان ہوتا ہے جب کہ پہلے خود عمل کر کے دکھایا جائے ورنہ آواز صدا بصحرا ہو کر رہ جاتی ہے.
 کہتے ہیں کہ گفتار کی بنسبت کردار زیادہ اثر انداز ہوا کرتا ہے. بچے خالی الذہن پیدا ہوتے ہیں، والدین ان کے ذہنوں میں جو چاہیں ڈال دیں ؛ خواہ بری باتیں یا اچھی باتیں نیز بچے وہی کرتے اور کہتے ہیں جو اپنے بڑوں کو کرتا ہوا اور کہتا ہوا پاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جن کے گھروں میں دینی ماحول ہے، نماز کی پابندی ہورہی ہے، ان کے گھروں کے بچے بھی مصلے پر گرتے پڑتے رہتے ہیں، ابھی الفاظ ادا نہیں کر پاتے پھر بھی اذان ہوتے ہی اذان کے کلمات بولنے کی کوشش کرتے ہیں دعاؤں کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں، نعت شریف سن کر جھومنے لگتے ہیں، اذان سن کر انگوٹھا چومنے لگتے ہیں اور دوسروں سے مصافحہ کرتے ہیں اس لیے کہ انھوں نے اپنے بڑوں کو ایسا کرتے دیکھا ہے. یہ طرزِ عمل رہا دینی ماحول میں پرورش پانے والے بچوں کا۔

رہا ان بچوں کا طرزِ عمل جو دنیاوی ماحول میں پروان چڑھتے ہیں، جن کے شب و روز دنیا داری میں گزرتے ہیں تو ان کی طرزِ زندگی دینی ماحول میں پرورش پانے والے بچوں کی طرز حیات سے بالکل برعکس اور ناگفتہ بہ ہوتی ہے ، ان کے شب و روز دیکھ کر صدہا افسوس ہوتا ہے کہ یہ مسلمان کے بچے ہیں جو میوزک سنتے ہی اپنے انداز میں تھرکنے لگتے ہیں، بات بات پر گالیاں بکتے ہیں حالانکہ ابھی الفاظ ادا نہیں کر پاتے، موبائل میں جب تک گانے نہ سناۓ جائیں اس وقت تک نیند نہیں آتی ان کی بے راہ روی اور بد تمیزی کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے اپنے بڑوں کے شب و روز دیکھے ہیں اور ان کے معمولات زندگی سے باخبر ہیں چنانچہ خود بھی انھیں کی طرزِ حیات پر عمل پیرا ہیں۔
یہی بچے جب آگے چل کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں اور والدین کے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں تو وہ بچوں کے  ہمراہ علماے کرام کے پاس آتے ہیں اور لمبی چوڑی داستانیں سناتے ہیں، کف افسوس ملتے ہیں اور اپنے کیے پر پچھتاتے ہیں حالانکہ جب مٹی نرم تھی تب شکل دینے سے باز رہے اب جب کہ اس میں کسی قدر سختی آگئی تب شکل دینے کو سوجھی ہے، نتیجہ مخفی نہیں ۔

جب بچے ماؤں کے پیٹ میں ہوتے ہیں تو اکثر مائیں بے راہ روی کا شکار ہوا کرتی ہیں، اناپ شناپ جو چاہتی ہیں بکتی ہیں جس کا اثر بچوں پر پڑتا ہے اس کے باوجود فرشتہ صفت بچے کی امید رکھتی ہیں ۔
جب ہم اولیا و صالحین کے والدین کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح آشکار ہو جاتی ہے کہ ان کی تربیت میں کلیدی کردار ان کے والدین کا ہے جنھوں نے ان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی ان کی تربیت شروع کردی تھی اور وہ یہ کہ خود کو اکل حرام سے باز رکھا، اللّٰہ کی نافرمانی اور معصیت سے دور رہے، اپنے روز و شب اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبردار میں گزارے جس کا اثر ان کے بچوں پر پڑا اور وہ اپنے وقت کے غوث و قطب اور امام بنے۔
عزیز ساتھیو ! اگر ہم بھی اپنے بچوں کو نیک سیرت اور عشقِ مصطفیٰ علیہ التحیۃ و الثناء میں سرشار دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنی اصلاح کرنی ہوگی اپنے کردار پر عشقِ مصطفیٰ علیہ التحیۃ و الثناء کا رنگ چڑھانا ہوگا جس کے نتیجے میں ہمارے بچے بھی نیک سیرت اور منفرد المثال ہونگے۔


مزید پڑھیں :



ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے