Advertisement

اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمہ تاریخ ہند کا منصف حکمراں از امان مصباحی


 اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمہ 

 تاریخ ہند کا منصف حکمراں



تحریر : امان مصباحی 

متعلم : الجامعة الأشرفية ، مبارکپور ، اعظم گڑھ ، یو پی۔ 


سرزمین ہند پر تقریبا گیارہ سو سال مسلمانوں نے حکمرانی کی ، ان کا دور حکومت امن و سلامتی ، مسلم و غیر مسلم کے درمیان انصاف پسندی اور رواداری کا آئینہ تھا ، انہیں میں سے سلطنت مغلیہ کا دور حکومت ہندوستان کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے لیکن مغل حکمرانوں میں سے خاص طور سے شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمہ  کا دور حکومت ہند کی تعمیر وترقی اور خوش حالی میں بلند مقام رکھتا ہے ، انہوں نے ہندوستان کو امن وسلامتی اور انصاف پروری کا پیش خیمہ بنا دیا ، انہوں نے اپنے دور حکومت میں ایسے ایسے کارنامے انجام دیے جو ہندوستان کی تاریخ میں آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔
 آپ کا نام "محی الدین ابو المظفر محمد اورنگزیب" ہے ، آپ کی ولادت ١٥/ ذی القعدہ 1027ھ  کو گجرات میں ہوئی ، آپ کی تعلیم و تربیت اس دور کے مشہور علما و فضلا کی زیرنگرانی رہی ، آپ کلام اللہ کے حافظ ہونے کے ساتھ  بے مثال عالم اور با کمال فقیہ بھی تھے ، ۵۰ سال ایک ماہ ۱۵ دن حکومت کرنے کے بعد ۸ /ذی القعدہ ١١١٨ھ کو آپ کا انتقال ہوا آپ صوبہ مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد کے خلد آباد میں مدفون ہوئے۔
اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمہ تاریخ ہند کا ایک ایسا بادشاہ ہے جس پر اسلام دشمن ، متعصب اور حاسد مؤرخین نے بے بنیاد اور بے جا الزامات عائد کیے ہیں ، اور ان کو ایک ظالم ، متعصب اور مذہب پرست بادشاہ ثابت کرنے کی خوب مذموم کوشش کی ہے  جبکہ فوج میں غیر مسلموں کے شمولیت اور بڑے بڑے عہدوں پر تقرری اس بات کی شاہد ہیں کہ ان پر لگے الزامات کی تردید خود تاریخ پیش کرتی ہے اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ اگر ہندو مخالف بادشاہ ہوتے تو ان کی فوج میں نہ ہندو فوجی ہوتے اور نہ ہی اعلی عہدوں  پر مامور ہندو عہدے دار ، ایک ہندو مصنف اس تعلق سے  لکھتا ہے کہ " شہنشاہ اورنگ زیب کی سلطنت کے اندر بڑی بڑی ذمہ داری کے عہدے ان کو ملے ہوئے تھے " ۔
اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمہ پر ایک بے بنیاد الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ اورنگزیب علیہ الرحمہ  نے اپنے دور حکومت میں مندروں کو توڑ کر مسجدیں تعمیر کروائیں حالانکہ تاریخ میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے، تاریخ میں ملتا ہے کہ جہاں اورنگزیب علیہ الرحمہ نے مسجدیں تعمیر کروائیں وہیں مندروں اور دوسری عبادت گاہوں کے لیے بھی جگہیں وقف کیں اور پنڈتوں کا سرکاری خزانے سے وظیفہ مقرر کیا ، اس الزام کی تردید کرتے ہوئے ایک ہندو مؤرخ نے "تاریخ ہند" میں لکھا ہے کہ  "کاشی اور دوسری عبادت گاہوں کے لیے اس نے جو جاگیریں وقف کیں اور ہندو پیشواؤں کے ساتھ جو رعایتیں برتیں ، ان سب سے  اس کی انصاف پسندی ثابت ہوتی ہے". 
اورنگزیب علیہ الرحمہ کے خطوط ان کی مہربانی ، رعایا پرور اور انصاف پسند حاکم کی حیثیت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں ، انہوں نے بنارس کے حاکم "ابو الحسن" کے نام ایک فرمان جاری کرتے ہوئے جو لکھا ہے وہ ایک تاریخی شہادت ہونے کے ساتھ انصاف و مساوات پر مبنی نظام حکومت کا منہ بولتا ثبوت ہے ، وہ لکھتے ہیں کہ "ہماری پاک شریعت  اور سچے مذہب کی رو سے یہ  ناجائز ہے کہ غیر مذہب کے قدیم مندروں کو گرایا جائے ، یہ حکم دیا جاتا ہے کہ آئندہ سے کوئی شخص ہندوؤں اور برہمنوں کو کسی وجہ سے بھی تنگ نہ کرے اور نہ ان پر کسی طرح کا ظلم کرے" ۔
اورنگ زیب علیہ الرحمہ کے بارے میں "جادو ناتھ سرکار" جیسی   تنگ نظر اور حقیقت بیزار مصنف کو بھی یہ کہنا پڑا کہ "اورنگزیب کے اقتدار نے مغل حکومت کے ہلال کو بدر کامل بنا دیا".
مسلم حکمرانوں نے ہندوستان پر ایک طویل مدت تک حکمرانی کی اور ہندوستان کو خوب ترقی دی ، انہوں نے اپنی رعایا کے ساتھ کبھی ہندو مسلم کا امتیاز نہ برتا ، ہندوؤں پر کبھی ظلم نہ کیا ، ان پر کبھی جبری ٹیکس کا بوجھ نہ ڈالا ، ان کو وہی سہولیات مہیا کیں جو مسلمانوں کو حاصل تھیں ، ان کی جان و مال کو تحفظ فراہم کیا اور ملک میں بھائی چارگی اور مساوات کو پروان چڑھایا ۔
لیکن آج فرقہ پرست طاقتیں اور موجودہ حکومت ملک کی تاریخ سے مسلمانوں کے اہم کرداروں کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہی ہے ، ان کی تعمیراتی عمارتوں کو دیوی،  دیوتاؤں  کے نام سے جوڑتی ہے ، مسلم حکمرانوں کے نام سے موسوم شہر ، بستی ، روڈ اور اسٹیشنوں کے نام  تبدیل کیے جا رہے ہیں ، وہیں مسلم حکمرانوں کے خلاف غلط پروپیگنڈے پھیلائے جا رہے ہیں ، اس ملک کے مسلم بادشاہوں ، حکمرانوں کو ہندو  مخالف ثابت کیا جا رہا ہے ، لہذا ایسے حالات میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اصل تاریخ کو پڑھیں اور قوم کے سامنے لائیں تاکہ ہماری آنے والی نسلوں تک صحیح تاریخ پہنچ سکے اور مسلم بادشاہوں ، حکمرانوں کے کارناموں سے روشناس ہو سکیں ، یاد رہے جو قوم اپنا ماضی بھول جاتی ہے وہ دوسری قوموں کے مستقبل پر پر منحصر ہو جاتی ہے ۔
ڈاکٹر اقبال لکھتے ہیں ۔
نشان یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا 
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں

کمالِ صدق و مروّت ہے زندگی ان کی 
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں

قلندرانہ ادائیں ، سکندرانہ جلال 
یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں


مزید پڑھیں : 


ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے