Advertisement

دسویں محرم کو سبیل لگانا، کھانا کھلانا اور لنگر لٹانا کیسا ہے اور مجلس محرم میں ذکر شہادت اور مرثیہ سننا کیسا ہے ؟

دسویں محرم کو سبیل لگانا، کھانا کھلانا اور لنگر لٹانا کیسا ہے اور مجلس محرم میں ذکر شہادت اور مرثیہ سننا کیسا ہے ؟

مسئلہ :


 کیا فرماتے ہیں علماۓ دین اس مسئلہ میں کہ یوم عشرہ میں سبیل لگانا اور کھانا کھلانے اور لنگر لٹانے کے بارے میں دیو بند کے علماء ممانعت کرتے ہیں و نیز کتب شہادت کو بھی ، جوامر صحیح ہو عند الشرع ارقام فرمایئے اور مجلس محرم میں ذکر شہادت اور مرثیہ سننا کیسا ہے ؟ بینوا توجروا ( بیان فرماؤ تا کہ اجر پاؤ۔ت )

 الجواب : 


 پانی یا شربت کی سبیل لگانا جبکہ بہ نیت محمود اور خالصا لوجہ اللہ ثواب رسانی ارواح طیبہ ائمہ اطہار مقصود ہو بلاشبہ بہتر و مستحب  کار ثواب ہے ، حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں : 
اذا كثرت ذنوبك فاسق الماء علی الماء تتناثر کما یتناثر الورق من الشجر فی الریح العاصف۔ رواہ الخطیب عن انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ۔
جب تیرے گناہ زیادہ ہو جائیں تو پانی پر پانی پلا گناہ جھڑ جائیں گے جیسے آندھی میں پیڑ کے۔ ( اس کو خطیب نے انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا۔ ت ) اسی طرح کھانا کھلانا لنگر بانٹنا بھی مندوب و باعث اجر ہے ، حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
 ان الله عزوجل يباهي ملئكته بالذين يطعمون الطعام من عبیدہ۔ رواہ ابو الشیخ فی الثواب عن الحسن مرسلا۔ 
اللہ تعالی اپنے ان بندوں سے جو لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں فرشتوں کے ساتھ مباہات فرماتا ہے کہ دیکھو یہ کیسا اچھا کام کر رہے ہیں ( اس کو ابوالشیخ نے ثواب میں حسن سے مرسلا روایت کیا ( ت )۔ مگر لنگر لٹانا جسے کہتے ہیں کہ لوگ چھتوں پر بیٹھ کر روٹیاں پھینکتے ہیں ، کچھ  ہاتھوں میں جاتی ہیں کچھ زمین پر گرتی ہیں ، کچھ پاؤں کے نیچے ہیں ، یہ منع ہے کہ اس میں رزق الہی کی بے تعظیمی ہے ، بہت علماء نے تو روپوں پیسوں کا لٹانا جس طرح دلہن دولہا کی نچھاور میں معمول ہے منع فرمایا کہ روپے پیسے کو اللہ عزوجل نے خلق کی حاجت روائی کے لئے بنایا ہے تو اسے پھینکنا نہ چاہئے ، روٹی کا پھینکنا تو سخت بیہودہ ہے ، بزازیہ کتاب الکراہیۃ ، النوع الرابع فی البدیۃ والمیراث میں ہے :
هل يباح نثر الدراهم قيل لا و قيل لاباس بہ وعلی هذا الدنانير والفلوس وقد يستدل من کرہ بقولہ صلى الله تعالى عليه وسلم الدراهم والدنانير خاتمان من خواتیم اللہ تعالى  فمن ذهب بخاتم من خواتیم اللہ تعالی قضیت حاجته۔
کیادراہم لٹانا مباح ہے ، بعض نے کہا مباح نہیں اور بعض نے کہا کوئی حرج نہیں ہے ، اسی حکم میں دنانیر اور پیسے ہیں ، نا پسند کہنے والوں نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کہ " دراھم  و دنانیر اللہ تعالی کی مہروں سے مہریں ہیں تو جس نے کوئی مہر پائی اس نے اللہ تعالی کی مہر سے حاجت پائی “ سے استدلال کیا ۔ ( ت )۔ 
 کتب شہادت جو آج کل رائج ہیں اکثر حکایات موضوعہ وروایات باطلہ پر مشتمل ہیں ، یوہیں مرثیے ایسی چیزوں کا پڑھنا سننا سب گناہ و حرام ہے ۔ حدیث میں ہے : 
نهی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عن المراثی ۔ رواه ابوداؤد والحاكم عن عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالی عنہ ۔  
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے مرثیوں سے منع فرمایا ( اسے ابوداؤد اور حاکم نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا۔ ت )۔ 
 ایسے ہی ذکر شہادت کو امام حجۃ الاسلام وغیرہ علماۓ کرام منع فرماتے ہیں کما ذکرہ امام ابن حجر المكي في الصواعق المحرقة ( جیسا کہ امام ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں اسے روایت کیا ہے ۔ ت )  ہاں اگر صحیح روایات بیان کی جائیں اور کوئی کلمہ کسی نبی یا ملک یااہلبیت یا صحابی کی توہین شان کا مبالغہ مدح وغیرہ میں مذکور نہ ہو ، نہ وہاں بین یا نوحہ یا سینہ کوبی یا گریبان دری یا ماتم یا تصنع یا تجدید غم وغیرہ ممنوعات شرعیہ نہ ہوں تو ذکر شریف فضائل و مناقب حضرت سید نا امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ کا بلاشبہ موجب ثواب و نزول رحمت ہے عند ذكر الصالحين تنزل الرحمة   ( صالحین کے ذکر پر رحمت الہیہ نازل ہوتی ہے ۔ ت ) ولہذا امام ابن حجر مکی بعد بیان مذ کور کے فرماتے ہیں : 
ماذكر من حرمة رواية قتل الحسين ومابعده لا ينافي ماذكرته في هذا الكتاب لان هذا البيان الحق ا لذي يحب اعتقاده من جلالة الصحابة وبرائتھم من كل نقص ، بخلاف مايفعله الوعاظ الجهلة ، فأنهم يأتون بالاخبار الكاذبة الموضوعة ونحوها ولا یبینون المحامل و الحق الذی یجب اعتقادہ و اللہ سبحانہ و تعالی اعلم ۔  
شہادت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بیان کی حرمت اور اس  کے بعد جو کچھ ذکر کیا وہ میری اس کتاب میں ذکر کردہ روایات  کے منافی نہیں ہے کیونکہ یہ صحابہ کرام کی جلالت اور ہر نقص سے ان کی برات پر مشتمل حق کا بیان ہے بخلاف جاہل واعظین  کے کہ وہ جھوٹ اور موضوع قسم کی خبریں سناتے ہیں اور صحیح محمل اور قابل اعتقاد الموضوعة  کو بیان نہیں کرتے ۔ واللہ سبحانہ و تعالی اعلم ( ت )۔ 


حوالہ : 

فتاوی رضویہ ، جلد : 24 ، صفحہ : 521  ، 522 ، 523 و 524 ، مطبوعہ : رضا فاؤنڈیشن ، جامعہ نظامیہ رضویہ ، لاہور ، پاکستان۔ 

نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔


مزید پڑھیں : 



ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے