Advertisement

حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کی تصنیفی خدمات فہیم احسن جیلانی مصباحی


 حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کی تصنیفی خدمات


✍️ محمد فہیم جیلانی احسن مصباحی معصوم پوری 

جامعہ عربیہ اہلِ سنت نجیب الاسلام نجیب آباد 


 غور و فکر کی جائے تو انسانی زندگی چند پل کے سوا  کچھ بھی نہیں۔ بعدازاں مادی وجود خاک میں مل جانا ہے۔ پیچھے رہ جاتی ہے تو صرف گزاری ہوئی زندگی یعنی طرز حیات اور طرز عمل۔اگر آپ نے اچھے اخلاق اور اعلی میعار کے ساتھ ایک بہترین طرزِ حیات و طرزِ عمل پر مبنی زندگی گزار لی تو یقین کیجیے اس دنیا سے جا کر بھی زندہ و جاوید رہیں گے۔ دنیا میں بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو کامل طرز حیات و طرزِ عمل رکھتی ہیں۔ جن کا رہن سہن، ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا، بات چیت، لب و لہجہ، اخلاق و تمیز۔ الغرض شخصیت کا ہر زاویہ کامل اور بے مثال ہوتا ہے۔
حضرت صدر الشريعہ بدر الطریقہ مُحسنِ اَہلِ سنّت، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، مُصنِّفِ بہارِ شریعت حضرتِ علّامہ مولانا الحاج مفتى محمد امجد على اعظمى رضوی علیہ الرحمة و الرضوان بھی ایسی ہی چنیدہ شخصیات میں سے ایک تھے۔آپ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں،آپ جس علاقہ میں پیدا ہوئے یہ علاقہ زمانہٴ قدیم سے ہی مختلف علوم وفنون کا گہوارہ رہا ہے ، یہاں کے اہل علم حضرات نے الگ الگ دور میں الگ الگ علوم وفنون کو پروان چڑھایا اور فقہ،حکمت و فلسفہ ، فنونِ لطیفہ ، تاریخ وسیاست ، اور طب و ریاضیات میں ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے، جو آج بھی لوگوں کے لیے مشعل راہ بنے ہوئے ہیں۔

یوں تو حضرت صدر الشریعہ کی بے شمار دینی خدمات ہیں مگر حضرت صدر الشریعہ کی تصنیفی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو (۱) بہار شریعت سترہ جلدیں (۲) فتاویٰ امجدیہ چار جلدیں (۳) حاشیہ طحاوی شریف عربی (۴) قامع الواہیات من جامع الجزئیات عربی (۵) التحقیق الکامل فی حکم قنوت النوازل (۶) اتمامہ حجت تامہ (۷) اسلامی قاعدہ جیسی مستند و معتبر کتابیں شامل ہیں۔ 
(۱) بہار شریعت: یہ کتاب فقہی مسائل پر مشتمل سترہ جلدوں میں ہے، اس میں عقائد سے لے کر معاملات تک  کے ضروری مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔  یہ کتاب  اردو زبان میں ہے جس میں مفتیٰ بہ مسائل کو نہایت ہی سلیس اور آسان انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی یہ فقہی انسائیکلوپیڈیا اسلامی نظام کی ترجمان اور زندگی کے ہر شعبہ کی رہنمائی کے لیے کافی و وافی ہے۔ 
 مسائل ضروریہ کے استقصاء، مفتیٰ بہ صحیح اور راجح مسائل کے بیان، ترتیب مسائل، حسن اسلوب، ہر باب سے متعلق آیات و احادیث کے بیان، ماحول اور معاشرہ کے مطابق مسائل یہ کتاب ان مذکورہ اوصاف کی بیک وقت جامع ہے۔ اس کتاب کے معتبر اور مستند ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود امام اہل سنت مجدد اعظم الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلی علیہ الرحمة و الرضوان نے مہر تصدیق ثبت فرمائی۔ آپ فرماتے ہیں: "فقیر غفرلہ المولی القدیر نے یہ مبارک رسالہ بہارِ شریعت حصہ سوم تصنیف لطیف اخی فی اﷲ ذی المجد و الجاہ والطبع السلیم والفکر القویم والفضل والعلی مولانا ابو العلی مولوی حکیم محمد امجد علی قادری برکاتی اعظمی بالمذہب والمشرب والسکنی رزقہ اﷲ تعالیٰ فی الدارین الحسنی مطالعہ کیا الحمدﷲ مسائل صحیحہ رجیحہ محققہ منقحہ پر مشتمل پایا۔ آج کل ایسی کتاب کی ضرورت تھی کہ عوام بھائی سلیس اردو میں  صحیح مسئلے پائیں  اور گمراہی و اغلاط کے مصنوع و ملمع زیوروں  کی طرف آنکھ نہ اٹھائیں  مولیٰ عزوجل مصنف کی عمر و علم و فیض میں  برکت دے اور ہر باب میں  اس کتاب کے اور حصص کافی و شافی و وافی و صافی تالیف کرنے کی توفیق بخشے اور انھیں  اہل سنت میں  شائع و معمول اور دنیا و آخرت میں  نافع و مقبول فرمائے۔ آمین" (بہار شریعت حصہ سوم ، ص 655 ،مکتبہ دعوت اسلامی) 
اور صدر الشریعہ کے  قول سے اس کتاب کی اہمیت کو سمجھیں! آپ  فرماتے ہیں: "اگر اورنگزیب علیہ الرحمہ زندہ ہوتے اور میری یہ خدمت دیکھ پاتے تو مجھے سونے سے تولتے۔"
اس لیے کہ فتاویٰ عالمگیریہ پانچ سو منتخب اجلہ علمائے کرام نے مل کر مرتب کی پھر بھی اس میں بہت سے جزئیات میں راجح اورمفتیٰ بہ کی تعین نہیں۔ ان علمائے کرام کی عظمت یہ تھی کہ جب وہ دربار میں آتے تو حضرت عالمگیر کھڑے ہو جاتے۔ اور یہاں تو بہار شریعت حضرت صدر الشریعہ نے تن تنہا لکھی اورمفتیٰ بہ کی تعین کے ساتھ تمام امور کا لحاظ رکھتے ہوئے فقہ حنفی کو اردو زبان میں منتقل کیا۔ یہ کتاب بہار شریعت عوام و خواص خصوصاً ارباب افتاء کے لیے کسی بیش بہا خزانہ سے کم نہیں۔

(۲) فتاویٰ امجدیہ: چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں آپ علیہ الرحمہ کے ان فتاویٰ کا مجموعہ ہے جن فتاویٰ کو آپ نے 7 ربیع الاول 1340ھ سے لے کر 8 شوال 1367ھ؁ تک لکھا۔ آپ کے یہ فتاوے دلائل و ترجیحات و فقہی قواعد و اصول ،آیات قرآنیہ، احادیث کریمہ پر مشتمل ہیں۔ 
جب کہ زبانی طور پر بھی آپ نے بے شمارفتاویٰ دیے ان کا کوئی ریکارڈ محفوظ نہیں رکھاگیا۔ اور بذریعہ خط بھی آپ سے جو استفتے کیے گئے ان کے جوابات بھی محفوظ نہیں۔ اسی طرح امام اہلِ سنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے زمانہ میں آپ نے منصب افتاء پر رہ کر جوتحریری فتاویٰ دیئے جن میں بہت سے فتاویٰ پر اعلیٰ حضرت کے تائیدی دستخط تھے، وہ بھی محفوظ نہ رہے۔یہ بات واضح رہے کہ فتاویٰ امجدیہ کو حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کے تمام فتاویٰ کا مجموعہ نہیں کہا جاسکتا لیکن جو ہے وہ بھی ایک عظیم فقہی سرمایہ ہے۔ محدث کبیر حضرت علامہ مفتی ضیاء المصطفے صاحب قبلہ مدظلہ العالی فتاویٰ امجدیہ کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں: "زیادہ تر حضرت صدر الشریعہ کے فرصت کے اوقات سوال و جواب اور دینی تربیت ہی میں صرف ہوتے۔ روزانہ  زبانی طور پر پچاسوں مسائل آپ سے عوام و خواص معلوم کرتے تھے۔ لیکن کسی نے ان کو قلمبند کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی ورنہ ہمارے پاس دینی معلومات کا ایک شاندار ذخیرہ ہوتا۔"
لہٰذا فتاویٰ امجدیہ کے مطالعہ سے یہ بات بھی ہر شخص پر عیاں ہو جائے گی کہ یہ مجموعہ اپنی جامعیت اور ظاہری و معنوی خوبیوں کے لحاظ سے فتاویٰ رضویہ کے بعد ایک انفرادی و امتیازی مقام و مرتبہ رکھتا ہے۔ یعنی جسے دلائل و ابحاث کے لحاظ سے فتاویٰ رضویہ کا مثنیٰ اور نمونہ کہا جا سکتا ہے۔ اور یہ کیوں نہ ہو اس لیے کہ جس طرح آپ کے فتاویٰ پر مجدد اعظم امام اہلِ سنت کی نظر حیات ظاہری میں تھی۔ اسی طرح بعد وفات بھی امام اہلِ سنت کی عنایات شامل حال رہیں۔ 
(۳) حاشیہ طحاوی شریف عربی:شرح معانی الآثار المعروف طحاوی شریف یہ کتاب فن حدیث میں ہے۔اور اس کو امام ابو جعفر طحاوی نے لکھا ہے۔ امام طحاوی نے اس کتاب میں احناف پر اتباع حدیث کے بجائے اتباع قیاس کا الزام لگانے والوں کو بھرپور جواب دیا ہے۔حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے اس کتاب پر محرم الحرام ۱۳۶۲ھ؁ میں حاشیہ کا کام شروع کیا اور شعبان ۱۳۶۲ھ؁ تک یعنی سات ماہ کی مختصر مدت میں نصف اول پر مبسوط حاشیہ لکھ دیا ۔ جس کی تعداد فل اسکیپ سائز کے ساڑھے چار سو صفحات تک پہنچی۔ اس کام کے لیے جو وقت مقرر کیا وہ عشاء کے بعد ۲-۳ گھنٹے۔ اور جمعہ کو صبح سے گیارہ یا درمیان سال کی تعطیلات میں ۔  اس کام میں آپ کے پانچ شاگرد آپ کے ساتھ رہے اور ان کے اصرار پر ہی حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے اس کام کو شروع کیا۔ (۱) حضرت علامہ مبین الدین محدث امروہوی (۲) مولانا سید ظہیر احمد صاحب نگینوی (۳) مولانا محمد خلیل خاں صاحب مارہروی (۴) حافظ و قاری محبوب رضا خاں بریلوی(۵) حافظ غلام ربانی صاحب ساکن داروں۔  حضرت صدر الشریعہ کی کتاب (حاشیہ  طحاوی شریف)بے شمار خوبیوں پر مشتمل ہے۔ علم حدیث میں ایک بڑا علمی شاہکار ہے۔ لیکن کثرتِ کار کے سبب یہ کتاب صرف پہلی جلد تک پہنچی ۔ کاش!! یہ کتاب پایہء تکمیل کو پہنچ جاتی تو فن حدیث میں اہل علم کو ایک بہت بڑا علمی خزانہ حاصل ہو جاتا۔ 
یہ کتاب  صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کی حدیث دانی پر شاہد عدل ہے۔اس کتاب سے پڑھنے سے قاری کو یہ بھی اندازا ہو جائے گا  کہ حضرت صدر الشریعہ کو فن حدیث پر کس قدر عبور اور اسماء رجال میں مہارت تھی۔

(۴) قامع الواہیات من جامع الجزئیات:
یہ ایک رسالہ ہے جو پچپن صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کو حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے ۱۳۳۱ء؁ کو تحریر فرمایا ۔ جس وقت کانپور کی مچھلی بازار والی مسجد کے ایک  حصہ کو برٹش حکومت کے حکام نے منہدم کر ڈالا۔ اس پر اس قدر ہنگامہ برپا ہوا کہ اس میں بہت سے مسلمان شہید کئے گئے اور بہت سوں کو قید میں ڈال دیا گیا۔ انگریزی حکومت نے بعد میں مصلحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا چاہا کہ مسجد کے منہدم شدہ حصہ کو لوگوں کی راہ گزر بنا دیا جائے۔ اور اس پر چھت ڈال کر چھت کو مسلمانوں کے قبضہ میں دے دیا جائے۔ اس  فیصلہ کو مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی بھی منظوری مل گئی۔ یہ استفتاء امام احمد رضا خاں فاضل بریلی کے پاس آیا تو آپ علیہ الرحمہ نے مولانا موصوف کی مصالحت کے رد میں " ابانة  المتواری فی مصالحة عند الباری" تحریر فرمایا۔ بعدازاں مولانا عبد الباری نے چند فقہی جزئیات پر مشتمل اپنے دعویٰ کے اثبات کے لیے چھ ورقی عربی کتابچہ لکھا۔ پھر اس کے رد میں حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے پچپن صفحات پر مشتمل ایک عربی رسالہ " قامع الواہیات من جامع الجزئیات" تحریر فرمایا۔ آپ نے اس رسالہ میں بڑی محققانہ بحث فرمائی اور مولانا عبد الباری کے بیان کردہ جزئیات کا بھرپور تجزیہ کیا۔ اس کی رو سے آپ نے یہ ثابت کردیا مولانا عبد الباری نے مچھلی بازار والی مسجد کے متعلق جو فیصلہ کیا وہ خلافِ شرع ہے۔ مطلب یہ کہ مسجد توڑ کر راستہ بنانا جائز نہیں۔ 
(۵) التحقیق الکامل فی حکم قنوت النوازل: یہ ایک رسالہ ہے۔ جس کو آپ نے قنوت نازلہ کے تعلق سے ایک استفتے کے جواب میں لکھا۔ اس رسالہ میں مصنف علیہ الرحمہ نے قنوت نازلہ سے متعلق احادیث کریمہ اور اقوال فقہاء کی تحقیق و تنقیح کی ہے۔اور قوی دلائل سے حنفی مذہب کو ثابت کیا۔اس کو پڑھنے کے بعد وفور علم ، فہم و دانش، حدیث دانی اور فقہی بصیرت کا پہلو نمایا ہو کر سامنے آتا ہے۔

(۶) اتمام حجت تامہ: حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے ستر سوالات بعنوان اتمام حجت تامہ ۱۳۳۹ء؁ میں تحریر  فرمائی۔  واقعہ یہ ہوا کہ ۱۳۳۸ء؁ میں جب گاندھی جی اور ابوالکلام آزاد نے "تحریک خلافت " ، "تحریک ترک موالات"اور تحریک ہندو مسلم اتحاد جیسی تحریک چلائیں اور ان تحریکوں نے اس وقت اس قدر زور پکڑا کہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا لیڈر کہنے والے نیتا بھی ان تحریکوں سے جڑنے لگے اور نہ صرف جڑے بلکہ مسلمانوں کو بھی ان میں شمولیت کی دعوت دینے لگے۔ جن میں شوکت علی، محمد علی، مولانا عبد الباری فرنگی محلی وغیرھم۔  جب کہ امام احمد رضا خاں اور بعض علمائے کرام اور اثر و رسوخ  والے مسلمانوں نے ان تحریکوں کو خلافِ شرع سمجھ کر ان میں حصہ لینے سے منع کر دیا۔ اس پر تحریک چلانے والوں نے ان حضرات کے خلاف بائیکاٹ اور قطع تعلق کا اعلان کردیا۔ اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ مولانا عبد الباری فرنگی محلی نے امام احمد رضا خاں اور جو علما ان کے موافق تھے ان کے خلاف مضمون لکھ کر شائع کیا۔ تو اس کے جواب میں امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ نے "الطاری الداری لہفوات عبد الباری" (۱۳۳۹ء؁) لکھ کر مولانا عبد الباری کے ہفوات و لغویات کا رد بلیغ فرمایا۔ اور اس وقت تحریک خلافت والوں کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے گاندھی جی کو مذکر من اللہ، نبی بالقوہ تک کہ ڈالا تھا۔  اور تحریک خلافت والوں نے بریلی میں مولانا عبد الکلام آزاد کی صدارت میں ایک جلسہ اس ارادہ سے رکھا کہ مخالفین پر اتمام حجت قائم کی جا سکے۔  اس جلسہ میں گاندھی جی اور مولانا ابو الکلام آزاد نے حضرت علامہ مولانا سید سلمان اشرف علیہ الرحمہ پروفیسر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کو بھی مدعو کیا۔ تو آپ نے پہلے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہو کر جلسہ میں شرکت کی اجازت طلب کی تو اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے نہ صرف آپ کو اجازت دی بلکہ تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ساتھ میں حضرت صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی، علامہ مولانا نعیم الدین ، علامہ برہان الحق جبل پوری علیہم الرحمہ کو لے جائیں۔ تو اسی موقع پر حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے اس موقع پر یہ ستر سوالات مرتب فرمائے۔

آپ کے مرتب کردہ ستر سوالات کا مجموعہ بشکل اشتہار اسی وقت چھپا۔ اور وفد کے جلسہ میں شرکت سے پہلے ہی یہ اشتہار اجلاس کے منتظمین کو بھیج دیا گیا تاکہ وہ سوالات کے جوابات تیار رکھیں۔یہ ستر سوالات ابوالکلام آزاد سے کیے گئےہر ایک سوال اپنی جگہ پر اس قدر اہم  تھا کہ ابولکلام اور اس کےمتبعین سے ان کا جواب نہ بن سکا ۔ 
یہ تمام سوالات احوال و واقعات کی روشنی میں نہایت اہم تھے کہ ان کا اندازہ ابوالکلام کے اس قول سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ 
"بعض باتیں حقیقت ہیں، جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اب ہمیں آزادی کا جو مسئلہ حل کرنا ہے اس آگے اب تمام باتیں فی الحال زیادہ توجہ کے قابل نہیں مگر احتیاط ضروری ہے۔ "( اکرام امام احمد رضا ص۱۱۰) 
حضرت صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ نے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے نام ایک مکتوب لکھا جس میں حضرت صدر الشریعہ کے مرتب کردہ سوال نامے کی اہمیت کا ذکر  کرتے ہیں: " سیدی دامت برکاتہم العالیہ !  سلام نیاز کے بعد گزارش حضور سے رخصت ہو کر مکان پہنچا ۔ یہاں پہنچ کر اتمام حجت نامہ کا مطالعہ کیا۔ فی الواقع یہ سوالات  فیصلہ ناطقہ ہے۔اور یقیناً ان سوالات نے مخالف کو مجال گفتگو اور راہ جواب باقی نہیں چھوڑی ہے۔ ابوالکلام آزاد نے روانگی کے وقت بریلی کے اسٹیشن پر کہا ۔ "ان کے جس قدر اعتراضات ہیں حقیقت  میں سب درست ہیں۔ ایسی غلطیاں کیوں کی جاتی ہیں جن کا جواب نہ ہو سکے اور ان کو اس طرح گرفت کا موقع ملے۔" (مکتوب صدر الافاضل ص ۵۴، ۵۵) 
(۷) اسلامی قاعدہ:  حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے  بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لیے آسان اور سہل انداز میں غیر جاندار تصویروں کے ساتھ یہ اسلامی قاعدہ مرتب فرمایا۔ تاکہ تصویروں کی بنیاد پر بچوں کو سمجھانے میں آسانی رہے اور غیر شرعی امور سے  اجتناب بھی رہے۔اس لیےکہ حضرت صدر الشریعہ کے عہد میں جو قاعدہ رائج تھا اس میں جاندار کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ اور حدیث پاک میں جاندار تصویر کی حرمت اور تصویر بنانے والوں پر سخت وعیدیں وارد ہیں۔ پس یہ کتاب آپ کی جودت طبع  اور فکر و نظر کی آئینہ دار ہے۔

مذکورہ بالا تصانیف حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کے قلم سے معرضِ وجود میں آئیں۔ اور یہاں یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ اگر حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نہ ہوتے تو شاید یہ "کنز الایمان" ہمیں نہ ملتا۔ کیوں کہ اس کے ترجمہ کے اصل محرک حضرت صدر الشریعہ ہی ہیں کہ آپ نے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے  ترجمہء قرآن کی گزارش کی۔ اور نہ صرف یہ بلکہ آپ اپنا قلم اور دوات لے کر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اعلیٰ حضرت ترجمہ املا کراتے اور آپ املا کرتے۔ بعدازاں تفسیروں سے ملا لیتے۔
بہرحال حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کے یہ وہ عظیم کارنامے ہیں جن کو رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ 
اللہ رب العزت حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کے درجات بلند فرمایا اور ان کے فیوض و وبرکات سے ہم سبھوں کو مالا مال فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے