Advertisement

شان صدیقِ اکبر(رضي اللّٰه تعالیٰ عنه) بزبان محبوبِ داور(صلى الله تعالى عليه وسلم) از مولانا قاسم مصباحی ادروی

شان صدیقِ اکبر(رضي اللّٰه تعالیٰ عنه) بزبان محبوبِ داور(صلى الله تعالى عليه وسلم) از مولانا قاسم مصباحی ادروی

باسمهٖ تعالیٰ 


شان صدیقِ اکبر(رضي اللّٰه تعالیٰ عنه) بزبان محبوبِ داور(صلى الله تعالى عليه وسلم) 



از: مولانا محمد قاسم مصباحی ادروی
استاذ: جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔


ولادت: واقعۂ فیل کے ڈھائی سال بعد ٥٧٣ء
شہادت: ٢٢/جمادَی الآخرہ سنہ ١٣ھ بروز دوشنبہ 

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل و خصائص کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی شان کو تمام شانوں سے جدا و ممتاز کردیا اور انھیں خاص اپنی ذات با برکات کے لیے چن لیا چنان چہ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنھم اجمعين سے ارشاد فرمایا:
هلْ أنتُمْ تارِكُونَ لي صاحِبِي، هلْ أنتُمْ تارِكُونَ لي صاحِبِي. (صحیح بخارى) 
کیا تم سے یہ ہوسکتا ہے کہ میرے یار کو میرے لیے چھوڑ دو، کیا تم سے یہ ہوسکتا ہے کہ میرے یار کو میرے لیے چھوڑ دو؟. 
 اللہ تعالیٰ نے انھیں ثَانِیَ ٱثۡنَیۡنِ کے خطاب سے نوازا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: 
 ما ظَنُّكَ يا أبا بكرٍ! باثنينِ اللهُ ثالثُهُما. (صحیح بخارى ،ج:١) 
اے ابو بکر! تمھارا کیا گمان ہے ان دو کے ساتھ جن کا تیسرا خدا ہے. 
سبحان اللہ! کن دو کے تیسرے، ایک رب العالمین جل جلاله، دوسرے افضل المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم. 

          ان تین کا چوتھا نظر آتا نہیں کوئی 
          واللہ  کہ  صدیق کا  ہمتا نہیں کوئی 

 (امام احمدرضا علیہ الرحمہ ) 

فضائل صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے تعلق سے سے چند ارشادات رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پیش ہیں. 
(١) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ نے فرمایا :
 إنَّ مِن أمَنِّ النّاسِ عَلَيَّ في صُحْبَتِهِ ومالِهِ أبا بَكْرٍ، ولو كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا مِن أُمَّتي لاتَّخَذْتُ أبا بَكْرٍ، إلّا خُلَّةَ الإسْلامِ، لا يَبْقَيَنَّ في المَسْجِدِ خَوْخَةٌ إلّا خَوْخَةُ أبِي بَكْرٍ.(متفق علیہ)
سارے انسانوں میں اپنی صحبت اور اپنے مال سے مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے ابو بکر ہیں، اگر اپنی امت میں کسی کو اپنا دلی دوست بناتا تو ابوبکر کو بناتا، لیکن (ان کے ساتھ) اسلامی اخوت و محبت باقی ہے اور مسجد میں ان کی کھڑکی کے سوا کوئی دوسری کھڑکی نہ رکھی جائے. 
تشریح: "خلیل" خُلة (بضم خا ) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ایسی دوستی اور محبت جو محب کے دل کی گہرائی میں سرایت کر جاۓ کہ محبوب، محب کے راز سے آگاہ ہو جائے، مطلب یہ ہے کہ اگر میرے لیے یہ روا ہوتا کہ میں مخلوق میں ایسا دوست اختیار کروں جس کی محبت میرے دل کے اندر اتر جائے اور وہ میرے راز سے آگاہ ہو جائے تو ابو بکر کو ایسا دوست بناتا، کیوں کہ وہ اس صفت کے حامل ہیں، لیکن میرا محبوب صرف اللّٰہ تعالیٰ ہے، مخلوق سے میری محبت ایسی ہے جو میرے دل کے ظاہر پر ہے اور میرے راز سے آگاہ صرف اللہ تعالیٰ ہے. یا تو خَلة  (بفتح خا) بمعنی حاجت سے مشتق ہے، اب مطلب یہ ہوگا کہ اگر میں کوئی ایسا دوست بناتا جس کی طرف میں اپنی حاجتوں میں رجوع کرتا اور اپنے مقاصد میں اس پر اعتماد کرتا تو ابوبکر کو ایسا دوست بناتا، لیکن میں تمام امور میں اللّٰہ تعالیٰ پر اعتماد اور ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں. مطلقاً محبت کی نفی نہیں ہے کیوں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے بہت ہی محبت فرماتے تھے.
(٢ ) حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے : 
 أنَّ رسولَ اللهِ ﷺ بعَثه على جيشِ ذاتِ السَّلاسلِ قال: فأتَيْتُه فقُلْتُ: أيُّ النّاسِ أحَبُّ إليك؟ قال:عائشةُ. قُلْتُ: مِن الرِّجالِ؟ قال : أبوها. قُلْتُ: ثمَّ مَن؟ قال:  عُمَرُ فَعَدَّ رِجالًا فَسَکَتُّ مَخَافَةَ أنْ يَّجْعَلَني في آخِرِهِم. (متفق عليه) 
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے انھیں ذات السلاسل کے لشکر پر امیر بناکر بھیجا. فرماتے ہیں : میں نے حضور (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی: آپ کو سب سے زیادہ پیارا کون ہے؟ فرمایا : عائشہ. میں نے عرض کی : مردوں میں؟ فرمایا : ان کے والد. میں نے کہا : پھر کون؟ فرمایا : عمر. پھر حضور (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) نے اور چند حضرات شمار کراۓ تو میں اس ڈر سے خاموش ہوگیا کہیں مجھے ان سب کے آخر میں نہ کردیں. 
(٣ ) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے :
 قالَ لي رَسولُ اللهِ ﷺ: في مَرَضِهِ ادْعِي لي أَبا بَكْرٍ، أَباكِ، وَأَخاكِ، حتّى أَكْتُبَ كِتابًا، فإنِّي أَخافُ أَنْ يَتَمَنّى مُتَمَنٍّ ويقولُ قائِلٌ: أَنا و لَا، وَيَأْبى اللَّهُ والْمُؤْمِنُونَ إلّا أَبا بَكْرٍ. (صحیح مسلم) 
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں مجھ سے فرمایا: اپنے والد ابو بکر اور اور اپنے بھائی کو میرے پاس بلاؤ تاکہ میں ایک تحریر لکھ دوں؛ کیوں کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے اور کوئی کہنے والا کہے کہ میں (خلافت کا مستحق ہوں، دوسرا نہیں) حالاں کہ اللہ تعالیٰ اور مومنین سواے ابو بکر کے کسی کو نہ چاہیں گے . 
(٤) حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا :
أَتَتِ النبيَّ ﷺ امْرَأَةٌ، فَكَلَّمَتْهُ في شيءٍ، فأمَرَها أنْ تَرْجِعَ إلَيْهِ، قالَتْ: يا رَسولَ اللَّهِ، أرَأَيْتَ إنْ جِئْتُ ولَمْ أجِدْكَ كَأنَّها تُرِيدُ المَوْتَ، قالَ: فَإنْ لَمْ تَجِدِينِي، فَأْتي أبا بَكْرٍ.( متفق علیہ) 
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایک عورت آئی، اس نے کسی چیز کے متعلق حضور علیہ الصلاۃ و السلام سے بات کی تو حضور علیہ الصلاۃ و السلام نے دوبارہ حاضر ہونے کا حکم دیا، اس نے عرض کی : یا رسول اللہ! فرمائیے اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں - شاید اس کی مراد موت تھی-، تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تو مجھے نہ پاۓ تو ابو بكر کے پاس آجانا. 
(٥) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا لأحدٍ عندَنا يدٌ إلا وقد كافيناه ما خلا أبا بكرٍ فإن له عندنا يدًا يكافئُه اللهُ بها يومَ القيامةِ وما نفعَني مالُ أحدٍ قطُّ ما نفعَني مالُ أبي بكرٍ ولو كنت متخذًا خليلًا لاتخذتُ أبا بكرٍ خليلًا ألا وإن صاحبَكم خليلُ اللهِ. (ترمذی، ج:٢ مناقب ابی بکر )
ہمارے ساتھ جس نے بھی احسان کیا ہم نے اس کا بدلہ دے دیا سواے ابو بکر کے، کیوں کہ انھوں نے میرے ساتھ اتنی بھلائی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی انھیں قیامت کے دن اس کی جزا دے گا، مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہ دیا جتنا ابو بکر کے مال نے. اگر میں کسی کو دلی دوست بناتا تا تو ابو بکر کو بناتا، سن لو! تمھارے صاحب اللّٰہ تعالیٰ کے خلیل ہیں.
(٦) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ عنھما سے روایت ہے :
أن رسولَ اللهِ ﷺ قال لأبي بكرٍ:  أنت صاحِبِي على الحَوْضِ وأنت صاحِبِي في الغارِ. (ترمذی) 
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر (رضی اللہ تعالی عنہ) سے فرمایا : تم میرے یارِ غار اور حوض کوثر پر میرے ساتھی ہو. یعنی تم دنیا و آخرت میں میرے ساتھی ہو. 
(٧) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ، وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا ينبغي لقومٍ فيهم أبو بكرٍ أنْ يَّؤُمَّهُم غيرُهٗ. (ترمذی)
جس قوم میں ابو بکر (رضی اللہ تعالی عنہ) موجود ہوں اسے یہ زیب نہیں دیتا کہ ابو بکر کے سوا کوئی ان کی امامت کرے. 
(٨) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے :
 أنَّ أبا بكْرٍ دخَل على رسولِ اللهِ صلّى اللهُ عليه وسلَّم فقال أنتَ عَتِيقُ اللهِ منَ النّارِ فيومَئِذٍ سُمِّيَ عَتِيقًا. (ترمذی) 
حضرت ابو بکر (رضی اللہ تعالی عنہ) رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو حضور (علیہ الصلاۃ و السلام ) نے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ کی جانب سے جہنم سے آزاد ہو، اس دن سے آپ کا نام عتیق رکھا گیا. 
(٩) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنا أولُ مَن تنشقُّ عنه الأرضُ، ثم أبو بكرٍ، ثم عمرُ، ثم آتي أهلَ البقيعِ فيُحشَرون معي، ثم أنتظرُ أهلَ مكةَ حتى أُحشَرَ بين الحرمَينِ. (ترمذی) 
میں پہلا شخص ہوں جس سے زمین کھولی جائے گی یعنی سب سے پہلے مجھے قبر سے نکالا جائے گا پھر ابو بکر کو پھر عمر کو پھر میں بقیع والوں کے پاس آؤں گا تو انھیں میرے ساتھ جمع کیا جائے گا پھر میں اہل مکہ کا انتظار کروں گا یہاں تک کہ مجھے ان کے ساتھ حرم مکہ اور حرم مدینہ کے درمیان جمع کیا جائے گا. 
(١٠) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
أتاني جبرئيل فأخذ بيدي فأراني باب الجنة الذي تدخل منه أمتي فقال أبو بكر يا رسول اللهِ ودِدتُّ أني كنت معك حتى أنظرَ إليه فقال رسول اللهِ ﷺ أما إنك يا أبا بكر أولُ مَن يدخل الجنةَ مِن أمتي. (سنن ابی داؤد) 
میرے پاس جبرئیل امین آۓ، انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری امت (جنت میں) داخل ہوگی، تو حضرت ابو بکر (رضی اللہ تعالی عنہ) نے عرض کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) میری آرزو ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ ہوتا، تاکہ میں بھی وہ دروازہ دیکھتا،تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو بكر! تم میری امت میں سب سے پہلے جنت میں جاؤگے.  
(١١) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن أهلَ الجنةِ ليتراءونَ أهلَ علِّيينَ كما ترونَ الكوكبَ الدريَّ في أفقِ السماءِ وإن أبا بكرٍ وعمرَ مِنهم وأنعَما. (ابو داؤد و ترمذی و ابن ماجہ)
بے شک جنت والے علیین والوں کو اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح تم نہایت روشن ستارے کو آسمان کے کنارے دیکھتے ہو اور ابو بکر و عمر بھی علیین والوں میں سے ہیں اور یہ دونوں  بہتر اور افضل ہیں. 
یعنی دونوں فضیلت و شرافت کی نعمت میں بلند رتبہ ہیں یا یہ مطلب ہے کہ یہ علیین والوں میں بلند مرتبہ اور فضیلت و شرافت میں انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں. 
(١٢) حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے مروی ہے :
كنت مع رسولِ اللهِ ﷺ إذْ طلعَ أبو بكرٍ وعمرَ فقال رسولُ اللهِ ﷺ هذان سيِّدا كُهُولِ أهلِ الجنةِ من الأولينَ والآخرينَ، إلا النبيينَ والمرسلينَ، يا عليّ ! لا تخبرهما. (ترمذی، و ابن ماجہ) 
میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بارگاہ میں موجود تھا کہ ابو بکر و عمر (رضی اللہ تعالی عنھما) تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں انبیا و مرسلين (علیھم السلام) کے سوا تمام اگلے، پچھلے جنتی بزرگوں کے سردار ہیں. اے علی! انھیں مت بتانا.
فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردارِ دوجہاں
اے مرتضیٰ! عتیق و عمر کو خبر نہ ہو

(١٣) حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
 إنِّي لا أدري ما بقائي فيكُم، فاقتَدوا باللَّذينِ مِن بعدي  أبي بكرٍ وعمرَ. (مشکاۃ) 
میں نہیں جانتا کہ میں تمھارے درمیان کب تک رہوں گا، تم میرے بعد ابو بکر و عمر (رضی اللہ تعالی عنھما) کی پیروی کرنا. 
(١٤) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے :
 أنَّ رسولَ اللهِ ﷺ، خرجَ ذاتَ يومٍ، فَدَخلَ المسجدَ، وأبو بَكْرٍ وعمرُ، أحدُهُما عن يمينِهِ والآخرُ عن شمالِهِ وَهوَ آخذٌ بأيديهِما، فَقالَ: هَكَذا نُبعَثُ يومَ القيامةِ. (ترمذی)
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ایک دن کاشانۂ اقدس سے نکل کر مسجد میں اس طرح تشریف لائے کہ ابو بکر و عمر (رضی اللہ تعالی عنھما) سے ایک داہنی طرف اور دوسرے بائیں طرف تھے اور حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے پھر فرمایا: ہم قیامت کے دن ایسے ہی (ایک ساتھ) اٹھیں گے. 
(١٥) حضرت عبداللہ بن حنطب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے :
أنَّ رسولَ اللهِ ﷺ رأى أبا بكرٍ وعمرَ فقال: هذانِ السمعُ والبصر. (ترمذى)
(١٦) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما مِن نبيٍّ إلّا ولهُ وزيرانِ مِن أهلِ السَّماءِ، ووزيرانِ مِن أهلِ الأرضِ، فأمّا وزيرايَ مِن أهلِ السَّماءِ: فجبرئيلُ وميكائيلُ، وأمّا وزيرايَ مِن أهلِ الأرضِ: فأبو بكرٍ وعمرَ. (ترمذى)
ہر نبی کے آسمان والوں میں سے دو وزیر ہوتے ہیں، میرے دو آسمانی وزیر جبرئیل و میکائیل (علیھما السلام) ہیں اور زمین والوں میں سے دو وزیر ابو بکر و عمر (رضی اللہ تعالی عنھما) ہیں. 
(١٧) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
يَطَّلِعُ عليكم رجلٌ مِن أهلِ الجَنةِ، فاطَّلع أبو بكرٍ، ثم قال: يَطَّلِعُ عليكم رجلٌ من أهل الجنةِ، فاطَّلع عمرُ. (ترمذى)
تم پر ایک جنتی شخص نمودار ہوگا تو ابو بکر (رضی اللہ تعالی عنہ) تشریف لائے پھر فرمایا: تمھارے پاس ایک اور جنتی شخص آنے والا ہے تو عمر (رضی اللہ تعالی عنہ) حاضر ہوۓ. 
(١٨) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں :
بينا رأسُ رسولِ اللهِ - ﷺ - في حَِجري في ليلةٍ ضاحيةٍ؛ إذ قلتُ: يا رسولَ اللهِ ! هل يكون لأحدٍ من الحسنات عددُ نجومِ السماءِ؟ ! قال: نعم، عمرُ، قلت: فأين حسناتُ أبي بكرٍ؟ ! قال: إنَّما جميعُ حسناتِ عمرَ كحسنةٍ واحدةٍ من حسناتِ أبي بكرٍ. (مشکاۃ )
ایک روشن اور چاندنی رات میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا سرِ اقدس میری آغوش میں تھا کہ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں؟ فرمایا: ہاں! عمر کی. میں نے عرض کی: ابو بکر کی نیکیاں کتنی ہیں؟ فرمایا: عمر کی تمام نیکیاں ابو بکر کی ایک نیکی کی طرح ہے.   
(١٩) حضرت سعد بن زرارہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنَّ رُوحَ القُدُسِ جبريلَ عليه السَّلامُ أخبَرني آنفًا أنَّ خيرَ أمَّتِك بعدَك أبو بكرٍ الصِّدِّيقُ. (المعجم الأوسط للطبرانی) 
بے شک روح القدس جبریل نے ابھی مجھے خبر دی کہ آپ کی امت میں آپ کے بعد سب سے بہتر ابو بکر صدیق ہیں. 
(٢٠) حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:
رآني النَّبيُّ ﷺ وأنا أمشي أمام أبي بكرٍ فقال: أتمشي أمامَ أبي بكرٍ؟ ما طلعت الشَّمسُ ولا غربت بعد النَّبيِّين والمرسلين على أحدٍ أفضلَ من أبي بكرٍ. (حلیۃ الاولیا)
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ نے مجھے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے آگے چلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: کیا تم ابو بکر کے آگے آگے چل رہے ہو؟  انبیا و مرسلین (علیھم الصلاۃ والسلام) کے بعد کسی ایسے شخص پر سورج طلوع  اور غروب نہ ہواجو ابو بکر سے افضل ہو. یعنی انبیا و مرسلین علیہم السلام کے بعد سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بہتر کوئی بشر پیدا نہیں ہوا. 
اللہ رب العزت ہمارے دلوں میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی سچی محبت پیدا فرمائے اور ان کے طریقے پر چلنے کی توفیق بخشے. آمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے