Advertisement

زید حجاز مقدس عرب میں رہتا ہے وہاں قربانی کا وقت ختم ہوگیا لیکن ہندوستان میں باقی ہے تو کیا ہندوستان میں زید کی طرف سے قربانی ہوجائے گی؟



از: حضور سراج الفقہا مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی، شیخ الحدیث و صدر شعبۂ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔



سوال : 

زید حجاز مقدس عرب میں رہتا ہے اور اس کے گھر والے ہندوستان میں، حجاز مقدس میں قربانی کا وقت ختم ہوگیا لیکن ہندوستان میں باقی ہے تو کیا ہندوستان میں زید کی طرف سے قربانی ہوجائے گی؟ 
جیسے اگر کوئی شخص شہر میں ہو تو وہ گاؤں میں رہنے والے شخص سے اپنی قربانی کروا سکتا ہے جب کہ ابھی شہر میں عید کی نماز نہیں ہوئی ہے۔ 

دونوں کا حکم بیان کریں۔ 

جواب : 

سب سے پہلے آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ قربانی کا سبب و جوب کیا ہے ؟ 
جیسے نماز کا سبب وجوب وقت ہے، روزے کا سبب وجوب وقت ہے یوں ہی قربانی کا سبب وجوب بھی وقت ہے؛ اسی لیے اس میں اور وقت میں اضافت بھی پائی جاتی ہے ، 
 جیسے : "صلاۃ الظھر" یہ اضافت مسبب کی سبب کی طرف ہے۔ 
"صوم شھر رمضان" یہ اضافت بھی مسبب کی سبب کی طرف ہے۔
اور حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "أیام النحر ثلاثة" قربانی کے دن تین ہیں۔ 
اس حدیث پاک میں "أيام" کی اضافت"نحر" کی طرف ہے یعنی سبب کی مسبب کی طرف تو یہ ایام سبب وجوب ہیں۔ 
تو جیسے وقت نہ ہو تو ظہر آپ پر فرض نہیں، ماہ رمضان نہ ہو تو رمضان کا روزہ آپ پر فرض نہیں ایسے ہی اگر ایام النحر نہ ہوں یعنی دسویں، گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ ، تو مالک نصاب پر قربانی بھی واجب نہیں۔

اس تمہید کو ذہن میں رکھ کر جواب سنو! 

زید رہتا ہے سعودیہ میں ، وہاں عموماً ایک دن پہلے وقت ہوجاتا ہے، قربانی وہ یہاں کرنا چاہتا ہے تو وہاں جس دن دسویں تاریخ ہوگی یہاں نویں ذی الحجہ ہوگی اور نویں ذی الحجہ سبب وجوب نہیں لہذا نویں ذی الحجہ کو اس کی طرف سے قربانی بالاتفاق نہ ہوگی کہ سبب وجوب نہیں پایا گیا۔ 
ہاں! یہاں کی ۱۰/ذی الحجہ وہاں کی ۱۱/ذی الحجہ ہوگی اور یہاں کی ۱۱/ذی الحجہ وہاں کی ۱۲/ذی الحجہ ہوگی  تو یہاں کی دسویں اور گیارہویں ذی الحجہ کو اس کی طرف سے قربانی ہو سکتی ہے؛ کیوں کہ سبب وجوب "وقت" پایا گیا اور یہ سبب وجوب اس کے یہاں بھی موجود ہے اور ہندوستان میں جہاں قربانی ہورہی ہے وہاں بھی موجود ہے۔ 
سبب وجوب مالک نصاب کے حق میں بھی پایا جانا چاہیے اور جہاں قربانی ہورہی ہے وہاں بھی پایا جانا چاہیے۔ 
مالک نصاب پر قربانی واجب ہے اس لیے مالک نصاب کے حق میں بھی سبب وجوب "وقت" موجود ہونا ضروری ہے اور جہاں قربانی ہورہی ہے وہاں بھی سبب وجوب "وقت" موجود ہونا ضروری ہے (کہ وظیفہ وقت مقرر ہی میں ادا ہوتا ہے) ۔ 
اگر وہاں سبب وجوب نہیں پایا جارہا ہے تو وہاں کے رہنے والے کی طرف سے یہاں ہندوستان میں قربانی نہیں ہوگی اس لیے جب ہندوستان میں دسویں، گیارہویں ذی الحجہ ہوگی تو حجاز مقدس میں رہنے والے شخص کی طرف سے قربانی یہاں صحیح ہوگی لیکن جب یہاں ۱۲/ذی الحجہ ہوگی تو وہاں پر ۱۳/ذی الحجہ ہوگی تو اس کے حق میں وہاں سبب وجوب نہیں رہے گا لہذا اس کی طرف سے یہاں قربانی نہیں ہوسکتی۔

بتانا یہ چاہتا ہوں کہ جو آدمی سعودیہ میں رہتا ہو ، برطانیہ میں رہتا ہو ، ہالینڈ میں رہتا ہو ، امریکہ میں رہتا ہو اور وہ یہاں ہندوستان میں قربانی کرانا چاہتا ہو تو ضروری ہے کہ دونوں ملکوں میں قربانی کا وقت پایا جائے۔ 
جب دونوں ملکوں میں قربانی کا وقت پایا جائے گا تو وہ قربانی صحیح ہوگی ، ایک ملک میں پایا گیا اور دوسرے ملک میں نہیں پایا گیا تو قربانی صحیح نہیں ہوگی کہ سبب وجوب کا دونوں جگہ پایا جانا ضروری ہے اور ایک جگہ سبب وجوب "وقت" نہیں پایا گیا۔ اگر زید یہاں ہندوستان میں رہتا تو یہاں سبب وجوب مالک نصاب کے حق میں بھی متحقق تھا اور مکان کے لحاظ سے بھی متحقق تھا تو وہ یہاں اپنی طرف سے قربانی کرتا، مثلا ۱۰/ ذی الحجہ کو ہم مالک نصاب ہیں تو ہمارے حق میں بھی سبب وجوب متحقق ہے اور جس جگہ ہم رہتے ہیں اس جگہ کے حق میں بھی سبب وجوب متحقق ہے۔ 

لیکن کوئی مثلا برطانیہ یا ہالینڈ یا سعودیہ وغیرہ میں رہتا ہے تو مکان و زمان دونوں لحاظ سے سبب وجوب کب پایا جائے گا؟ دسویں اور گیارہویں ذی الحجہ کو۔ 
اس کے برخلاف یہاں کی نویں اور بارہویں ذی الحجہ کو برطانیہ یا سعودیہ والے کے حق میں زمان و مکان دونوں اعتبار سے سبب وجوب نہیں پایا گیا لہذا نویں اور بارہویں ذی الحجہ کو یہاں اس کی طرف سے قربانی صحیح نہ ہوگی۔ 
یہ بات تو واضح ہوگئی۔
جو مسئلہ آپ نے پیش کیا ہے کہ ایک ملک مثلا ہندوستان کا شہری چاہتا ہے کہ اس کی قربانی اسی ملک میں عید سے پہلے ہوجائے تو فقہا نے اس کا حیلہ یہ بتایا ہے کہ دیہات میں نماز عید سے پہلے اس کی قربانی صحیح ہوجائے گی۔ اگر دیہات میں کرے گا تو عید سے پہلے کر سکتا ہے اور اگر شہر میں کرے گا تو عید کے بعد کر سکتا ہے۔ 
ایسا کیوں ہے اس کو بھی ہم سمجھا دیتے ہیں۔ 
دیکھیے ! شہر ہو یا دیہات ، فرض کیجیے مبارک پور شہر ہے اور یہیں بغل میں دیولی ہے دیہات، وہاں عید کی نماز نہیں ہوتی تو وہاں فجر کے بعد ہی قربانی شروع ہوجائے گی اور مبارک پور میں عید کی نماز ہوتی ہے ، یہاں عید کی نماز ہونے کے بعد قربانی شروع ہوگی۔ ایسا کیوں؟ 
اس کی وجہ یہ ہے کہ "وقت" جو سبب وجوب ہے وہ دیولی میں بھی پالیا گیا اور مبارک پور میں بھی پالیا گیا؛ یعنی سبب وجوب "وقت" دونوں جگہ پایا جارہا ہے تو قربانی وہاں صحیح ہوجائے گی؛ کیوں کہ ہم اپنی قربانی وہاں کرائیں گے تو سبب وجوب مالک نصاب کے لحاظ سے بھی موجود ہے اور مکان کے لحاظ سے بھی موجود ہے۔ 

رہ گئی یہ بات کہ پھر مبارک پور میں قربانی کیوں نہیں درست ہوتی ہے؟ 
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شہر ہے اور شہر میں نماز عید پڑھنا واجب ہے تو شہروں میں نماز عید کے بعد قربانی ہونا یہ شرط صحت ہے، سبب نہیں ہے ، یہ شرط ہے صحت کے لیے ؛ وقت پایا جارہا ہے مگر شرط نہیں پائی جارہی ہے تو یہ قربانی صحیح نہیں اور وہاں دیولی میں عید کی شرط ہے نہیں ، صرف وہاں پر سبب ہی سبب درکار ہے لہذا وہاں پر قربانی ہوجارہی ہے۔ 
شرط یہاں اس لیے ہے کہ یہاں نماز عید واجب ہے ، اب اگر اجازت پہلے ہی دے دی جائے کہ تم قربانی کر سکتے ہو تو لوگ کھانے پکانے میں لگ جائیں گے اور بہت سے لوگ نماز عید سے غافل ہوجائیں گے۔ یہ شریعت طاہرہ کی مصلحت مہمہ ہے کہ شہروں میں جہاں اس نے عید کی نماز کو واجب قرار دیا تو وہاں قربانی کے صحیح ہونے کےلیے نماز عید کو شرط بھی قرار دیا کہ نماز عید کے بعد ہی تم قربانی کر سکتے ہو ، اس سے پہلے قربانی کروگے تو قربانی صحیح نہیں ہوگی ، اس لیے نہیں کہ سبب نہیں پایا گیا بلکہ اس لیے کہ اس کی شرط نہیں پائی گئی ورنہ سبب تو یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے۔ اور اسی لیے قربانی وہاں (مثلا دیولی میں)صحیح ہورہی ہے۔ 
تو دیولی اور مبارک پور والے مسئلے میں دونوں جگہ سبب وجوب پایا جارہا ہے اس لیے (دیولی میں) قربانی صحیح ہے ۔ 
اور مبارک پور اور سعودیہ والے مسئلے میں ۹/ذی الحجہ کو دونوں جگہ سبب وجوب نہیں ہے بلکہ سعودیہ میں ہے اور یہاں نہیں ہے ، یوں ہی بارہویں ذی الحجہ کو بھی دونوں جگہ سبب وجوب نہیں ہے بلکہ صرف ہندوستان میں ہے اور سعودیہ میں ختم ہوچکا ہے اس لیے نویں اور بارہویں ذی الحجہ کو سعودیہ والے کی طرف سے (یہاں)قربانی نہیں ہوگی۔ 
و اللہ تعالی أعلم.

حوالہ: 

ماہنامہ اشرفیہ، ستمبر 2018ء، صفحہ: 11 و 12۔



ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ٹائپنگ: مولانا محمد حسان نظامی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے