Advertisement

معترضہ آیاتِ جہاد، معنیٰ و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر ( گیارہویں قسط ) از مولانا بدر الدجیٰ مصباحی



معترضہ آیات جہاد

 (معنی و مفہوم، شان نزول، پس منظر)

ماقبل سے پیوستہ

گیارہویں قسط


تحریر : مولانا بدر الدجیٰ رضوی مصباحی

پرنسپل : مدرسہ عربیہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد، ضلع مئو، یوپی، الہند۔




(1) سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَاۤ اَشْرَكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًاۚ-وَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُؕ-وَ بِئْسَ مَثْوَى الظّٰلِمِیْنَ۔
(آل عمران ۱۵۱)
کوئی دم جاتا ہے کہ ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈالیں گے کہ انہوں نے اللہ کا شریک ٹھہرایا جس پر اس نے کوئی سمجھ نہ اتاری اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کیا برا ٹھکانا ناانصافوں کا۔ (کنزالایمان)۔


(2) وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هٰذِهٖ وَ كَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْكُمْۚ-وَ لِتَكُوْنَ اٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَ یَهْدِیَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
(الفتح۲۰)
اور اللہ نے تم سے وعدہ کیا ہے بہت سی غنیمتوں کا کہ تم لو گے تو تمہیں یہ جلد عطا فرمادی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دئیے اور اس لیے کہ ایمان والوں کے لیے نشانی ہو اور تمہیں سیدھی راہ دکھادے۔ (کنزالایمان)۔

اس قسط کی پہلی آیت میں اللہ تبارک و تعالی نے مسلمانوں کی استقامت اور تسکین خاطر کے لیے فرمایا ہے کہ تم کفار و مشرکین کی عارضی فتح اور کامیابی سے کبیدہ خاطر نہ رہو ہم جلد ہی ان کے دلوں میں تمہارا رعب اور ہیبت ڈال دیں گے جس سے وہ میدان چھوڑ بھاگ کھڑے ہوں گے۔

        غزوات کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ غزوہ احد میں اولا مسلمان کفار و مشرکین مکہ پر غالب آ گئے تھے اور وہ فاتحانہ شان کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے لیکن تیر اندازوں کی غفلت اور مورچہ چھوڑ دینے کی وجہ سے ان کی فتح شکست سے بدل گئی نتیجہ یہ ہوا کہ باختلاف روایت 108 یا 74 کی تعداد میں انصار و مہاجرین صحابہ شہید ہو گیے خود حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با برکات لہو لہان ہو گئی آپ کے نیچے کا دانت شہید ہو گیا لبہاے مبارک پر بھی زخم آئے عمرو بن قمیہ نے ایک پتھر اس زور سے مارا کہ خود کی دو کڑیاں رخسار مبارک میں دھنس گئیں دشمن کے کھودے ہوے خفیہ گڑھوں میں سے ایک گڑھے میں آپ گر گیے حضرت علی اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہما نے سہارا دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑا کیا حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے اپنے دانتوں سے خود کی کڑیاں یکے بعد دیگرے نکالیں جس سے خود ان کے دو دانت گر گیے حضرت ابو سعید خدری کے والد حضرت مالک بن سنان نے چہرہ مبارک سے خون چوس کر نکالا حالت یہ ہوئی کہ حضرت خالد بن ولید (جو اس وقت اسلام نہیں لاے تھے) کے حملے سے اسلامی لشکر میں افراتفری مچ گئی اور کفار و مشرکین دوبارہ منظم ہو کر حملوں پر حملے کرنے لگے ابوسفیان (اس وقت اسلام نہیں لاے تھے) اور ان کے ساتھی میدان میں گھوم گھوم کر حضور سید عالم ﷺ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی نعشیں تلاشتے پھر رہے تھے  ابوسفیان نے پہاڑ پر چڑھ کر مسلمانوں سے پوچھا: أین ابن ابی کبشہ، أین ابن قحافہ، أین ابن الخطاب لیکن حکم رسالت سے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا ابو سفیان نے کہا سب مارے گیے اگر زندہ ہوتے تو ضرور جواب دیتے حضرت عمر کہاں برداشت کرنے والے تھے بول پڑے، دشمن خدا! تو جھوٹ بولتا ہے ہم سب یہیں پر ہیں پھر کچھ دیر تک دونوں کے مابین مکالمہ جاری رہا پھر ایسے وقت میں جب کہ مسلمان ہزیمت سے دوچار تھے احد کے دامن میں ان کی نعشیں بکھری ہوئی تھیں اور کچھ زخموں سے چور تڑپ رہے تھے کفار و مشرکین بغیر کسی وجہ اور سبب کے بھاگ کھڑے ہوے کفار میدان چھوڑ کر کیوں بھاگ کھڑے ہوے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے یکایک کفار و مشرکین کے دلوں میں مسلمانوں کا ایسا رعب اور ایسی ہیبت پیدا فرمادی کہ ان کے قدم میدان جنگ سے اکھڑ گیے اور انہوں نے مکہ کی راہ لی جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے: سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ الی آخرہ (آل عمران 151) 

        اب مفسرین کے مابین اس میں اختلاف ہے کہ اللہ تعالی کا یہ وعدہ (کافروں کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب پیدا کرنا) یوم احد کے ساتھ مختص ہے یا یہ جمیع اوقات میں عام ہے؟ اکثر مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ وعدہ یوم احد کے ساتھ خاص ہے اس لیے کہ ماقبل کی آیات غزوہ احد کے بارے میں ہی نازل ہوئی ہیں پھر اس قول کے قائلین نے احد کے دن مشرکین کے دلوں میں مسلمانوں کے رعب کے القا کی کیفیت بیان فرمائی ہے اور اس کی دو وجہیں بیان کی ہیں اول یہ کہ کفار جب مسلمانوں پر غالب آگیے اور انہیں شکست سے دوچار کردیا تو اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب و جلال پیدا کردیا اور وہ بغیر کسی وجہ اور سبب کے وہاں سے بھاگ کھڑے ہوے جیسا کہ ابھی بتایا گیا کہ ابوسفیان پہاڑ پر چڑھے اور کہا: أین ابن ابی کبشہ (حضور علیہ الصلوۃ والسلام) أین ابن ابی قحافہ، أین ابن الخطاب؟ حضرت عمر نے ابو سفیان کی باتوں کا جواب دیا جس سے ابو سفیان پر لرزہ طاری ہوگیا اور ابو سفیان کو پہاڑ سے اترنے اور مسلمانوں کی طرف مزید پیش قدمی کی جرات نہیں ہوسکی اور وہ مکہ کی طرف یہ کہہ کر بھاگ کھڑے ہوے کہ آئندہ سال یہاں پھر آئیں گے۔

        دوسری وجہ یہ ہے کہ کفار و مشرکین نے جب مکہ کی راہ لی تو راستے میں ایک مقام پر یہ لوگ ٹھہر گیے اور ان میں دوبارہ پلٹ کر فیصلہ کن حملہ کرنے کے موضوع پر بحث ہورہی تھی یہ اس پر برہم تھے کہ غالب آنے کے باوجود ہم نے مسلمانوں کو چھوڑ دیا یہاں تک کہ جب ان لوگوں نے پلٹ کر دوباره حملہ کرنے اور مسلمانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا پختہ عزم و ارادہ کرلیا تو اللہ تبارک و تعالی نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب و جلال پیدا کردیا اور وہ دوبارہ حملہ کرنے کے بجاے مکہ واپس ہوگیے۔ 
        بعض مفسرین نے یہ فرمایا ہے کہ یہ وعدہ یوم احد کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ عام ہے ان حضرات کا موقف یہ ہے کہ اگر چہ یہ واقعہ یوم احد کو پیش آیا لیکن اللہ تعالی عن قریب مسلمانوں کی ہیبت کفار و مشرکین کے دلوں میں پیدا فرمادے گا یہاں تک کہ وہ مغلوب اور مقہور ہوں گے اور دین اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ حاصل ہو جاے گا اور اللہ تعالی نے اپنا یہ وعدہ پورا کر دکھایا صدیوں تک مسلمان اس دنیا کے حکمراں رہے اور دین اسلام کو تمام ادیان و مذاہب پر غلبہ حاصل رہا۔ (1)تفسیر کبیر ما تحت الآیۃ (2) تفسیر ابی سعود ما تحت الآیۃ۔
      اس آیت کے تحت مفسرین نے دوسری بحث یہ کی ہے کہ کیا جمیع کفار کے دلوں میں اللہ تعالی مسلمانوں کا رعب پیدا فرمادے گا؟ یا خاص ان کفار و مشرکین کے دلوں میں جو احد کے دن مسلمانوں سے بر سر پیکار رہے بعض علما اس کی طرف گئے ہیں کہ یہ آیت اپنے ظاہر پر محمول ہے اور اس سے عام کفار و مشرکین مراد ہیں اور جمیع مفسرین کا موقف یہ ہے کہ اس سے صرف وہ کفار مراد ہیں جنہوں نے احد کے دن بڑی بے دردی کے ساتھ مسلمانوں کا خون بہایا (تفسیر کبیر ما تحت الآیۃ)۔

جمیع مفسرین کے اس قول سے یہ صاف ظاہر ہے کہ "سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ" سے ہمارے ملک یا روۓ زمین کے موجودہ کفار و مشرکین مراد نہیں ہیں۔
      اس آیت کے دوسرے جز: بِمَاۤ اَشْرَكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًاۚ. سے اللہ عز و جل نے کفار و مشرکین کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈالنے کی علت بیان فرمائی ہے کہ یہ شرک کی دلدادہ قوم ہے اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے فاضل مفضول کی پرستش کرے نہ تو عقل اسے قبول کرتی ہے اور نہ فطرت اس کی اجازت دیتی ہے اللہ تعالی نے تمام تر قوت و عظمت انسان کی فطرت میں پیدا کر رکھا ہے اس کے باوجود وہ اپنے سے فروتر مخلوق کی پرستش و عبادت کرے اسے اپنا رزاق اور حاکم تصور کرے یہ ایسے ہی ہے جیسے شاہین ہوکر کنجشک فرومایہ کی غلامی اختیار کرے۔ حاصل یہ ہے کہ خدا کی عبادت میں کسی اور کو شریک کرنا یہ سب سے بڑا ظلم ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سب بڑا جرم ہے اور جب جرم بڑا ہے تو سزا بھی بڑی ہونی چاہیے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی نے اس آیت کے اخیر میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔

(2) وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هٰذِهٖ وَ كَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْكُمْۚ-وَ لِتَكُوْنَ اٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَ یَهْدِیَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ ( الفتح ۲۰)
سورہ فتح کی اس آیت میں اللہ تبارک و تعالی نے مسلمانوں کو غنائم کثیرہ کے عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ بہت سی غنیمتوں کو ہم نے تمہیں جلد عطا کردی ہے اس سے وہ مال غنیمت مراد ہے جو فتح خیبر کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا جس کا تذکرہ اللہ تعالی نے سورہ توبہ کی آیت 19 میں کیا ہے فرماتا ہے: وَّ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً یَّاْخُذُوْنَهَاؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا اور بہت سی غنیمتیں جن کو لیں اور اللہ عزت و حکمت والا ہے۔(کنزالایمان)

      سورہ فتح کی اس آیت (20) میں "مغانم کثیرہ" سے وہ غنائم مراد ہیں جو اللہ تبارک و تعالی نے قیامت تک مسلمانوں کے حق میں مخصوص اوقات میں مقدر کر رکھا ہے اور "کف ایدی الناس عنکم" سے وہ کون لوگ مراد ہیں جن کے ہاتھوں کو اللہ نے مسلمانوں تک پہونچنے سے روک دیا ہے اور مسلمانوں کی جان و مال عزت و آبرو کی ان سے حفاظت کی ہے؟ اس میں دو قول ہے پہلا یہ ہے کہ اس سے اہل خیبر اور ان کے حلیف بنو اسد اور بنو غطفان مراد ہیں جن میں اہل خیبر ہی کی تعداد ستر ہزار کی ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو حدیبیہ سے مراجعت کیے ہوے ایک ماہ کا بھی عرصہ نہیں ہوا تھا کہ آپ کو خیبر کے یہودیوں کی نقل و حرکت کی خبر ملی انہوں نے بالخصوص قبیلہ بنو غطفان کے چار ہزار جنگجو بہادروں کو بھی اپنے ساتھ یہ کہہ کر ملا لیا تھا کہ اگر مدینہ فتح ہوگیا تو خیبر کی پیداوار کا نصف حصہ ہمیشہ بنو غطفان کو دیتے رہیں گے لیکن اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب پیدا فرما دیا اور انہوں نے معاہدہ توڑ دیا۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے اہل مکہ کے ہاتھ مراد ہیں (1)  تفسیر روح البیان ما تحت الآیۃ.(2)  تفسیر ابی سعود ما تحت الآیۃ )۔
 صلح حدیبیہ کی دفعات کی رو سے دونوں فریق اس کے پابند تھے کہ دس سال تک ایک دوسرے کے خلاف کوئی جنگی اقدام نہیں کریں گے اس سے مسلمانوں کو یہ فائدہ حاصل ہوا کہ انہیں یہودیوں کے خلاف اقدام کرنے کیلیے ایک اچھا موقع ہاتھ آگیا یہود خیبر اس تصور سے کہ اب انہیں اہل مکہ کی پشت پناہی حاصل نہیں ہوسکے گی بہت جلدی حوصلہ ہار بیٹھے اور مسلمانوں کے مقابلے کی تاب نہ لا کر شکست سے دوچار ہوے اس طرح معاہدہ حدیبیہ کے نتیجے میں مسلمانوں کیلیے آسانی کے ساتھ فتح خیبر کی راہ ہموار ہوگئی اور یہ حقیقت مبرہن ہوگئی کہ صلح حدیبیہ مسلمانوں کی شکست نہیں بلکہ عظیم فتوحات کا دیباچہ اور پیش خیمہ ہے.

وَلِتَكُونَ آيَةً لِّلۡمُؤۡمِنِينَ وَيَهۡدِيَكُمۡ صِرَاطًا مُّسۡتَقِيمًا : اس آیت مبارکہ کا مدلول و منطوق تعجیل اور کف ہے یعنی حدیبیہ سے مراجعت کے فورا بعد اللہ تبارک و تعالی نے جو تمہیں خیبر کی فتح عطا فرمائی اور اس کے نتیجے میں جو تمہیں کثیر غنیمتیں عطا کیں اور دشمن کی دست رس کو تم سے روک کر تمہاری حفاظت فرمائی اس میں مومنین کیلیے نشانی ہے اس نشانی سے مسلمانوں کو اس کی معرفت ہوجاے گی کہ صلح حدیبیہ کی دفعات بظاہر مسلمانوں کی کمزوری کی طرف مشعر ہیں لیکن وہ در پردہ بڑی بڑی فتوحات کا پیش خیمہ ہیں خیبر کی فتح جس کا ایک شان دار نمونہ ہے اور ابھی مکہ بھی فتح ہوگا حرم کے دروازے مسلمانوں کیلیے کھل جائیں گے عرب و عجم اسلام کے زیر نگیں ہوں گے اس طرح حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حدیبیہ سے مراجعت کے وقت صحابہ سے جو وعدہ فرمایا تھا کہ یہ صلح تمہارے لیے فتح مبین ہے اس کی صداقت مسلمانوں پر رفتہ رفتہ واضح سے واضح تر ہوتی چلی جاے گی اور یہ آیت مبارکہ مسلمانوں کو صراط مستقیم یعنی ہر حال میں اللہ پر توکل اور اس پر اعتماد کی راہ دکھاے گی.

جاری



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے