Advertisement

عید قرباں کی فضیلت و اہمیت اور چند مخصوص مسائل از مولانا عبد السبحان مصباحی

 

عید قرباں کی فضیلت و اہمیت اور چند مخصوص مسائل


اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات

اس وقت عید قرباں کی آمد آمد ہے، ہر چہار سو قوم مسلم عید قرباں کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ افادۂ عام کی خاطر بہار شریعت و فتاوی رضویہ وغیرہ سے قربانی کی فضیلت و اہمیت پر چند حدیثیں اور مخصوص مسائل تحریر کیے جاتے ہیں.

از: مولانا عبد السبحان مصباحی، رامپوری۔

استاذ :جامعہ صمدیہ دار الخیر پھپھوند شریف.

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

قربانی کی تعریف:

مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیتِ تقرب ذبح کرنا قربانی ہے۔
     قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی اور نبی کریم ﷺ کو قربانی کرنے کا حکم دیا گیا، ارشاد فرمایا:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْؕ
(پارہ:۳۰، الکوثر: ۲) 
تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔

قربانی کس پر واجب ہے؟:

قربانی کرنا ہر عاقل، بالغ، مقیم مسلمان مالک نصاب پر واجب ہے۔ مالکِ نصاب ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کے پاس ساڑھے سات تولے سونا، یا ساڑھے باون تولے چاندی، یا اتنی مالیت کی رقم، یا اتنی مالیت کا مالِ تجارت یا اتنی مالیت کا حاجاتِ اصلیہ (یعنی ضروریاتِ زندگی) سے زائد سامان ہو۔
یعنی جو شخص موجودہ دور کے حساب سے 653/گرام، 184/ملی گرام چاندی، یا 93/گرام، 312/ملی گرام سونے کا مالک ہو یا حاجت سے زائد اتنے مال کا مالک ہو جس کی قیمت اتنی ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔


قربانی کی فضیلت و اہمیت:

ام المومنین عائشہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا  سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ’’ یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) میں ابن آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں  اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کھروں  کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل، خدا کے نزدیک مقامِ قبول میں  پہنچ جاتا ہے لہٰذا اس کو خوش دلی سے کرو۔ ‘‘
{جامع الترمذي، کتاب الأضاحی،باب ماجاء في فضل الأضحیۃ،حدیث نمبر : 1498}

حضور اقدس ﷺ نے فرمایا:’’ جس میں  وسعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔ ‘‘
{سنن ابن ماجۃ ،کتاب الأضاحی، باب الأضاحی واجبۃ ھی أم لا، حدیث نمبر : 3123}
حضرت زید بن أرقم سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی یارسول ﷲ! ﷺ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا کہ ’’ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے‘‘ لوگوں  نے عرض کی یارسول ﷲ! ﷺ ہمارے لیے اس میں کیا ثواب ہے؟ فرمایا:’’ ہر بال کے مقابل نیکی ہے، عرض کی اُون کا کیا حکم ہے؟ فرمایا:’’ اُون کے ہر بال کے بدلے میں  نیکی ہے۔ ‘‘
{ایضاً، باب ثواب الأضحیۃ، 3127} 

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’سب سے پہلے جو کام آج ہم کریں گے وہ یہ ہے کہ نماز پڑھیں پھر اس کے بعد قربانی کریں گے، جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت (طریقہ) کو پالیا اور جس نے پہلے ذبح کر لیا وہ گوشت ہے جو اس نے پہلے سے اپنے گھر والوں  کے لیے تیار کر لیا قربانی سے اسے کچھ تعلق نہیں ۔‘‘
 ابوبردہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ  کھڑے ہوئے اور یہ پہلے ہی ذبح کرچکے تھے(اس خیال سے کہ پڑوس کے لوگ غریب تھے انھوں  نے چاہا کہ ان کو گوشت مل جائے) اور عرض کی یارسول  ﷲ! ﷺمیرے پاس بکری کا چھ ماہہ ایک بچہ ہے فرمایا:’’ تم اسے ذبح کر لو اور تمہارے سوا کسی کے لیے چھ ماہہ بچہ کفایت نہیں کرے گا۔ ‘‘
{صحیح البخاري، کتاب الأضاحی، باب سنۃ الأضحیۃ، :5545}


رسول ﷲ ﷺنے فرمایا:’’ مجھے یوم اضحی کا حکم دیا گیا اس دن کو خدا نے اس امت کے لیے عید بنایا، ایک شخص نے عرض کی یارسول ﷲ! ﷺ یہ بتایے اگر میرے پاس منیحہ(یعنی” منیحہ“ اس جانور کو کہتے ہیں  جو دوسرے نے اسے اس لیے دیا ہے کہ یہ کچھ دنوں اس کے دودھ وغیرہ سے فائدہ اٹھائے پھر مالک کو واپس کردے ) کے سوا کوئی جانور نہ ہو تو کیا اسی کی قربانی کر دوں؟ فرمایا:’’ نہیں۔ ہاں تم اپنے بال اور ناخن ترشواؤ اور مونچھیں  ترشواؤ اور موئے زیر ناف کو مونڈو اسی میں تمہاری قربانی خدا کے نزدیک پوری ہو جائے گی ‘‘
{مرجع سابق، کتاب الضحایا،باب ماجاء في إیجاب الأضاحی،حدیث: ۲۷۸۹}
  یعنی جس کو قربانی کی توفیق نہ ہو اسے ان چیزوں  کے کرنے سے قربانی کا ثواب حاصل ہو جائے گا۔

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :’’جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھ لیا اور اس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے تو جب تک قربانی نہ کر لے بال اور ناخنوں  سے نہ لے یعنی نہ ترشوائے۔ 
{جامع الترمذي، کتاب الأضاحی، باب ترک أخذ الشعر لمن أراد أن یضحّي، حدیث نمبر : 1528}

رسول ﷲ ﷺنے فرمایا کہ’’ ہم جانوروں کے کان اور آنکھیں  غور سے دیکھ لیں اور اس کی قربانی نہ کریں جس کے کان کا اگلا حصہ کٹا ہو اور نہ اس کی جس کے کان کا پچھلا حصہ کٹا ہو نہ اس کی جس کا کان پھٹا ہو یا کان میں سوراخ ہو۔‘‘
{ایضاً، باب مایکرہ من الأضاحی، حدیث نمبر : 1503}

 قربانی کے جانور:

            قربانی کے جانور تین قسم کے ہیں۔ 1- اونٹؔ، 2- ،گائےؔ، 3- بکریؔ ہرقسم میں اس کی جتنی نوعیں ہیں  سب داخل ہیں  نراور مادہ ،خصی اور غیر خصی سب کا ایک حکم ہے یعنی سب کی قربانی ہوسکتی ہے۔ بھینس گائے میں  شمار ہے اس کی بھی قربانی ہوسکتی ہے۔ بھیڑ اور دنبہ بکری میں  داخل ہیں ان کی بھی قربانی ہوسکتی ہے۔

قربانی کے جانور کی عمر :

 قربانی کے جانور کی عمر یہ ہونی چاہیے اونٹ پانچ سال کا گائے/بھینس دو سال کی، بکری ایک سال کی، اس سے عمر کم ہو تو قربانی جائز نہیں، زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے۔ ہاں  دنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہہ بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔


 قربانی کا وقت:

 دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے یعنی تین دن، دوراتیں اور ان دنوں  کو ایام نحر کہتے ہیں۔
{الدرالمختار، کتاب الأضحیۃ،ج:9}

قربانی کرنے کا طریقہ اور دعا:

جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ قبلہ کو اس کا مونھ ہو اور اپنا داہنا پاؤں اس کے پہلو پر رکھ کر تیز چھری سے جلد ذبح کر دیا جائے اور ذبح سے پہلے یہ دُعا پڑھی جائے۔
              اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ وَ إن صَلوٰتِي و نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْكَ لَهٗۚ-وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ ۔
                اسے پڑھ کر ذبح کر دے۔ قربانی اپنی طرف سے ہو تو ذبح کے بعد یہ دُعا پڑھے۔
                 اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلَ مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السلام افضل ، وہ یہ ہے:
             اللہ اَکْبَرْ اللہ اَکْبَرْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ وَاللہ اَکْبَرْ اللہ اَکْبَرْ وَللہ الْحَمْدُ 
 {تنویر الأبصار،کتاب الصلاۃ، باب العیدین، ج:3}

اجتِماعی قُربانی کا گوشت وَزن کر کے تقسیم کرنا ہوگا:

شرکت میں  گائے(بڑے جانور) کی قربانی ہوئی تو ضرور ہے کہ گوشت وزن کر کے تقسیم کیا جائے اندازہ سے تقسیم نہ ہو
کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کسی کو زائد یا کم ملے اور یہ ناجائز ہے یہاں یہ خیال نہ کیا جائے کہ کم و بیش ہوگا تو ہر ایک اس کو دوسرے کے لیے جائز کر دے گا کہہ دے گا کہ اگر کسی کو زائد پہنچ گیا ہے تو معاف کیا کہ یہاں عدم جواز حق شرع ہے اور ان کو اس کے معاف کرنے کا حق نہیں ۔
(درمختار، ردالمحتار)

 اندازے سے گوشت تقسیم کرنے کے دو آسان حِیلے:

            اگرشرکاء اور حصہ دار اپنا اپنا حصّہ الگ لینا چاہتے ہوں تو وزن کرنے کی مَشَقَّت سے بچنے کے لیے دو حیلے کر سکتے ہیں:
       {۱} ذَبْح کے بعد تمام گوشت ایک ایسے بالِغ مسلمان کو ہِبہ (یعنی تحفۃً مالِک)کردیں جو ان کی قربانی میں شریک نہ ہو اوراب وہ اندازے سے سب میں تقسیم کرسکتاہے۔
{۲} حیلہ یہ ہے کہ گوشْتْ تقسیم کرتے وَقْت اس میں کوئی دوسری جِنْس (مَثَلاً کلیجی، مغز، پایہ وغیرہ ) شامل کر لیا جائے تو بھی اندازے سے تقسیم کر سکتے ہیں ۔ (دُرِّمُختار ج:9،ص: 527)
قربانی کے گوشت کے تین حصّے کرنا مستحب ہے
          قربانی کا گوشْتْ خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسرے شخص غنی (یعنی مالدار)یا فقیر کو دے سکتا ہے کِھلا سکتا ہے بلکہ اس میں سے کچھ کھا لینا قربانی کرنے والے کے لیے مُستحب ہے۔ بہتر یہ ہے کہ گوشْتْ کے تین حصّے کرے ایک حصّہ فُقَراء کے لیے اور ایک حصّہ دوست و اَحباب کے لیے اور ایک حصّہ اپنے گھر والوں کے لیے۔
(عالمگیری، ج:5،ص:300)
اگر سارا گوشت خود ہی رکھ لیا تب بھی کوئی گناہ نہیں۔
امام احمد رضا خان محقق بریلی نَوَّرَ اللهُ مرقدہ فرماتے ہیں:
تین حصّے کرنا صرف اِسْتِحْبابِی اَمر ہے کچھ ضَروری نہیں، چا ہے  توسب اپنے صَرْف (یعنی استعمال )میں کر لے یا سب عزیزوں قریبوں کو دے دے ، یا سب مساکین کو بانٹ دے ۔
 (فتاوٰی رضویہ، ج:20، ص:253).


حلال جانوَر کے 22 اجزاء حرام یا ممنوع یا مکروہ ہیں:

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محقق بریلی نَوَّرَ اللهُ مرقدہ فرماتے ہیں :حلال جانور کے سب اجزا حلال ہیں مگر بعض کہ حرام یا ممنوع یا مکروہ ہیں {1}رگوں کا خون {2}پِتّا {3}پُھکنا (یعنی مَثانہ) {4،5} علاماتِ مادہ ونَر {6} بَیضے (یعنی کپورے){7}غُدود {8}حرام مَغز {9}گردن کے دوپٹھے کہ شانوں تک کھنچے ہوتے ہیں {10}جگر (یعنی کلیجی) کا خون {11}تِلی کا خون {12} گوشْتْ کا خون کہ بعدِ ذَبْح گوشْتْ میں سے نکلتا ہے {13}دل کا خون {14}پِت یعنی وہ زَرد پانی کہ پِتّے میں ہوتاہے {15}ناک کی رَطُوبت کہ بَھیڑ میں اکثر ہوتی ہے {16} پاخانے کا مقام {17}اَوجھڑی {18}آنتیں {19}نُطْفہ([1]){20}وہ نُطْفہ کہ خون ہوگیا {21} وہ (نُطْفہ) کہ گوشْتْکا لوتھڑا ہوگیا {22}وہ کہ(نُطْفہ)پورا جانور بن گیا اور مردہ نکلا یا بے ذَبْح مرگیا۔ (فتاوٰی رضویہ ج:29،ص 240_ 241)
سمجھدار قَصاب بَعض ممنوعہ چیزیں نِکال دیاکرتے ہیں مگربَعض میں ان کو بھی معلومات نہیں ہوتیں یا بے اِحتِیاطی برتتے ہیں ۔ لہٰذا آج کل عُمُوماً لاعلمی کی وجہ سے جو چیزیں سالن میں پکائی اور کھائی جاتی ہیں جن سے بچنا بہر حال ضروری ہے ۔


ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے