Advertisement

عید الاضحی کے موقع پر جانوروں کو وزن کر کے خرید و فروخت کرنا کیسا ہے ؟ از مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی


 عید الاضحی کے موقع پر جانوروں کو وزن کر کے خرید و

 فروخت کرنا کیسا ہے

باسمہ سبحانہ و تعالی


السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالی و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں معزز علماے کرام و مفتیان عظام کہ عید الاضحی کے  موقع پر قربانی کے جانوروں بالخصوص بکروں کو وزن کے ساتھ خرید و فروخت کیا جا رہا ہے کیا اس طرح کے جانوروں کی قربانی درست ہوگی قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
المستفتی: محمد شرف الدین مصباحی


وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ برکاتہ

الجواب 


(۱) وزن سے جانوروں کی خرید و فروخت جائز ہے یا نہیں ، اس بارے میں کتاب و سنت اور کتب فقہ میں کوئی صراحت میری نگاہ میں نہیں ہے ، یوں میرا مطالعہ بھی بہت کم اور بہت محدود ہے۔
       ہاں کتب فقہ کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جانور مثلی اشیا سے  نہیں جن کی خرید و فروخت ناپ یا تول کر ہوتی ہے ، بلکہ قِیَمی اشیا سے ہیں جن کی خرید و فروخت ایک اندازے سے ہوتی ہے عہد رسالت ، عہد صحابہ ، عہد تابعین اور عہد فقہا میں جانوروں کی خرید و فروخت میری معلومات کی حد تک بغیر وزن کیے صرف اندازے سے ہوتی تھی اور ان  ادوار کے بعد بھی چند سال پیشتر تک عامہ مومنین صرف اندازے سے ہی خریدتے بیچتے رہے اور آج بھی چند بلاد کے سوا ہر جگہ ان کی خرید و فروخت اندازے سے ہی جاری ہے جب کہ وزن سے بیچنے خریدنے میں آسانی ہے اور فریقین کے لیے باعث اطمینان قلب بھی۔ اور وزن اور آلات وزن کسی نہ کسی شکل میں ہر دور میں رائج رہے پھر بھی اجماعی طور پر امت نے وزن سے جانوروں کی خرید و فروخت سے ہمیشہ گریز کیا، یہ بلاوجہ نہیں ہو سکتا ، یہ بھی  نہیں کہا جا سکتا کہ چودہ صدیوں تک امت کو اس طرف توجہ نہ ہوئی ،اس لیے اس کے سبب کی کھوج ہونی چاہیے ،میری نگاہ میں اس کے دو سبب ہو سکتے ہیں۔

پہلا سبب: یہ کہ وزن سے متعین طور پر یہ معلوم کرنا دشوار ہے کہ جانور کتنے کلو گرام کا ہے کیوں کہ جانور کے سانس لینے اور سانس چھوڑنے سے وزن گھٹتا بڑھتا رہتا ہے ہدایہ باب الربوا کے ایک جزیہ میں اس کی صراحت ہے ، کلمات یہ ہیں: 
لان الحیوان لا یوزن عادۃ ولا یمکن معرفۃ ثقلہ بالوزن لانہ یخفف نفسہ مرۃ و یثقل اخری۔(ہدایہ، ج:۳، ص:۶۷،باب الربوا ، مجلس البرکات ، مبارکفور)
ترجمہ: جانور عادتا تولا نہیں جاتا اور تول کے ذریعے اس کے وزن کا علم بھی ممکن نہیں کیوں کہ جانور اپنے سانس کو کبھی ہلکا اور کبھی بھاری کر لیتا ہے۔ شروح میں اس کی مزید وضاحت بھی ہے۔
عادۃ کا لفظ تعامل کا ہم معنی ہے جو مسلمانوں کے تعامل عام کا اشارہ دیتا ہے ۔

دوسرا سبب:  یہ ہے کہ جب کلو کے مقابل دام کی ایک مقدار مقرر ہوگی مثلا ۶۰۰ روپے کلو، تو جانور کے بدن میں پائے جانے والے خون اور غلاظت کی بھی قصدا بیع ہوگی اور یہ چیزیں بجاے خود مستقل مبیع قرار پائیں گی کیوں کہ خاص ان کےمقابل بھی مقررہ شرح ثمن کے مطابق کچھ حصۂ ثمن ہوگا مثلا خون اور غلاظت وغیرہ حرام فضلات و اجزا ڈھائی کلو ہوئے تو دام کے پندرہ سو روپے خاص ان کے مقابل ہوں گے حالاں کہ یہ چیزیں اس لائق نہیں کہ مستقل مبیع ہو سکیں اور ان کا دام دیا جائے ، ہدایہ وغیرہ اوائل  کتاب البیوع  کے فقہی جزئیات سے یہ سبب ماخوذ و مفہوم ہوتا ہے جیسا کہ نکتہ دان فقہ پر مخفی نہیں ، یہ دونوں سبب اس بات کی شرعی رہنمائی کرتے ہیں کہ زندہ جانور کی بیع ناجائز ہے ، مجھے اپنی رائے پر اصرار نہیں لیکن فی الحال میرے ذہن قاصر میں اس مسئلے کا جو حکم آیا وہ یہی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ  ان شاء اللہ یہ حق و صواب ہے۔
پے در پے حوادث کی وجہ سے میں ان دنوں کوئی باضابطہ تحقیق نہیں کر سکتا ، نہ ہی طبیعت اس مشکل وادی میں سفر کے لیے آمادہ۔ "دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
الغرض اس بندہ عاجز کے نزدیک جانوروں کی خرید و فروخت وزن کر کے جائز نہیں ، مسلمان اس سے احتراز کریں اور سلف و خلف اور عامہ مسلمین کی روش پر چلنے کی کوشش کریں کہ مسلمان جسے اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے جیسا کہ حدیث پاک میں وارد ہے ۔ واللہ تعالی اعلم۔

(۲) تول کر زندہ جانور  کی خرید و فروخت اگرچہ ناجائز ہے مگر قبضے کے بعد وہ خریدار کی ملک  ہو جاتا ہے اس لیے اس کی قربانی جائز و صحیح ہے قربانی صحیح ہونے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ جانور اپنی ملک ہو اور یہاں ملکیت ثابت ہو جاتی ہے اور جانور بجاے خود پاک و حلال ، اس لیے قربانی صحیح ہوگی مگر خریدنے بیچنے والے اپنے خلاف شرع عمل سے توبہ کریں جب کہ دونوں مسلم ہوں ورنہ صرف خریدار توبہ کرے کہ شریعت کا حکم اپنے ماننے والوں پر جاری و نافذ  ہوتا ہے ، کتب فقہ  کے "احکام بیع فاسد" میں ناجائز بیع کے احکام ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ واللہ تعالی اعلم۔

ایڈیٹنگ و ٹائپنگ: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی





ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے