Advertisement

کورونا ویکسین کے شرعی احکام تیسری اور آخری قسط از سراج الفقہاء مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی


"کورونا ویکسین" کے شرعی احکام

---------------------------------------------------

ویکسین میں ناپاک اجزا کا شمول تحقیق کے ساتھ معلوم نہ ہو تو 

حکومت کی عام منظوری کے بعد لگوا سکتے ہیں.


جس چیز کی نجاست معلوم نہ ہو پاک ہے کہ اصل اشیا میں طہارت و

 پاکی ہے.

---------------------------------------------------

             تیسری اور آخری قسط


از : سراج الفقہاء مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی، شیخ الحدیث و صدر شعبۂ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔



(2) ویکسین کا حکم منفی اثرات کے لحاظ سے:

     کوئی نئی ویکسین ہو یا دوا، تیار ہونے کے بعد اسے تجربات کے مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے، اسے کلینیکل ٹرائل کہتے ہیں، ان تجربات کے ذریعہ یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ ویکسین سے بدن کے دفاعی نظام میں مثبت رد عمل پیدا ہوتا ہے یا ناخوش گوار منفی اثرات پیدا ہوتے ہیں، آخری مرحلے کا تجربہ بھی کامیاب ہوتا ہے تو حکومت اس کے استعمال کی عام منظوری دے دیتی ہے، اس لیے جب آخری دور کے تجربے کے بعد حکومت ویکسین لگانے کی عام منظوری دے دے تو کورونا ویکسین لگوانے کی اجازت ہوگی. کوئی تقوی کے لیے بچے تو اس کی مرضی. ہاں اِلرجی والے اور حاملہ وغیرہا کو ویکسین لگوانا ممنوع ہے، لہٰذا وہ ضرور بچیں کہ جو چیز از روے طب مضر ہے وہ شرعًا ممنوع ہے.
     یہی حکم ان تمام ممالک کا ہے جہاں حکومت نے ویکسین لگوانے کا اذن عام دے دیا ہے اور اس میں ناپاک اجزا کا شمول تحقیق کے ساتھ معلوم نہیں ہے. یہ حق ہے کہ کورونا وائرس کے مرض نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، دنیا بھر میں اس موذی مرض سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد بائیس لاکھ سے متجاوز ہو چکی ہے جب کہ اس کے متاثرین کی تعداد دس کروڑ، بیس لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے. ظاہر ہے کہ اس کے باعث لاکھوں عورتیں بیوہ اور لاکھوں بچے یتیم و بے سہارا ہو چکے ہیں، مگر ان سب کے باوجود کورونا ویکسین ایسے بیماروں کا علاج نہیں ہے جو کورونا وائرس کے جان لیوا حملے سے موت و حیات کی کشمکش اور اضطرار کے نازک ترین حال میں ہوں، بلکہ ویکسین عمومًا نارمل انسانوں کو لگائی جاتی ہے جس کا مقصد موذی وائرس کے ممکنہ خطرات سے تحفظ و بچاو ہے. اس لیے ویکسین لگانے کے وقت اضطرار و ضرورت شرعی کا تحقق قطعًا نہیں ہوتا، بلکہ عمومًا یہ درجۂ منفعت میں ہوتا ہے اور مخصوص حالات میں مخصوص لوگوں کے لیے درجۂ حاجت میں بھی ہو سکتا ہے، مثلاً: کورونا کی وبا عام ہو تو مریضوں کا علاج اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے ڈاکٹروں، نرسوں، تیمارداروں، نیز کھانسی، شوگر، کِڈنی اور سانس کے مریضوں اور کمزور بوڑھے اور بچوں کے لیے ویکسین کی حاجت شرعی ہوگی، ورنہ عام حالات میں عام انسانوں کے لیے شرعی اصطلاح کے مطابق یہ ویکسین منفعت کے درجے میں ہوگی جس کے لیے کوئی محظور شرعی یا حرام لعینہ حلال نہیں ہوتا. ضرورت، اضطرار، حاجت، منفعت، زینت وغیرہ کا تعارف راقم کی کتاب "فقہ اسلامی کے سات بنیادی اصول" میں ہے. اس لیے ضرورت شرعی یا اضطرار کا سہارا لے کر کسی حرام لعینہ اور ناپاک چیز کو حلال نہیں قرار دینا چاہیے.


     خلاصۂ کلام:

     (1) کورونا ویکسین نارمل انسانوں کو مہلک وائرس کے ممکنہ خطرات سے تحفظ کے لیے لگائی جاتی ہے، ایسا نہیں کہ اس وقت وہ کورونا کے جان لیوا حملے سے مغلوب و مضطر ہو چکے ہوں اور ویکسین لگانے سے بچ جائیں.
     (2) کسی ملک کے ویکسین میں ناپاک جز کا شمول تحقیق کے ساتھ معلوم ہو تو وہاں کے لوگ ایسی ویکسین سے بچیں اور وقت حاجت پاک ویکسین تلاش کر کے لگوائیں. اور پاک ویکسین تو عام حالات میں بھی لگوانے کی اجازت ہے. یوں ہی جن ویکسینوں میں کسی ناپاک چیز کی آمیزش کی تحقیق اور جزم نہ ہو اسے بھی لگوا سکتے ہیں. یہ حکم تمام ممالک کے لئے ہے.
     (3) ہندوستان میں دو کمپنیوں نے "کوویکسین" اور "کووی شیلڈ" نام سے ویکسین تیار کی ہے، ان میں ناپاک اجزا کے شمول کی تحقیق نہیں ہے، لہٰذا لگوا سکتے ہیں، البتہ جن لوگوں کو ویکسین لگوانا طِباً ممنوع ہے وہ بچیں.
     (4) یہ اجازت حکومت کی طرف سے عام منظوری ملنے کے بعد دی جاتی ہے تاکہ یہ اطمینان ہو کہ یہ ویکسین کسی سنگین منفی اثر سے محفوظ ہے. هذا ما عندي والعلم بالحق عند ربي، وهو تعالى أعلم و علمه جل مجده أتم و أحكم.



ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ٹائپنگ: مولانا محمد کلیم مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے