Advertisement

"کورونا ویکسین" کے شرعی احکام دوسری قسط از: سراج الفقہاء مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی


"کورونا ویکسین" کے شرعی احکام

---------------------------------------------------

ویکسین میں ناپاک اجزا کا شمول تحقیق کے ساتھ معلوم نہ ہو تو 

حکومت کی عام منظوری کے بعد لگوا سکتے ہیں.


جس چیز کی نجاست معلوم نہ ہو پاک ہے کہ اصل اشیا میں طہارت و

 پاکی ہے.

---------------------------------------------------

             دوسری قسط


از : سراج الفقہاء مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی، شیخ الحدیث و صدر شعبۂ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔


          شرعی احکام

     
     "کورونا ویکسین" ہو یا کوئی بھی نئی دوا، اس کا حکم شرعی جاننے کے لیے بنیادی طور پر دو باتوں کا علم ضروری ہے:
     ایک: یہ کہ ویکسین کے سارے اجزاے ترکیبی پاک ہیں یا ان میں کچھ ناپاک و حرام لعینہ بھی ہیں.
     دوسرا: ویکسین کا ایڈورس ایفیکٹ یا منفی اثر ▪️معمولی ہے ▪️یا سنگین ▪️یا انتہائی سنگیین.
     معمولی اثر: جیسے ٹیکے کی جگہ پر سوجن، ہلکا بخار، جسم میں درد، گھبراہٹ.
     سنگین منفی اثر: جیسے شدید بخار، شدید الرجی، مگر ان کے دوررس اثرات نہیں ہوتے اور اسپتال جانے کی ضرورت نہیں پیش آتی.
     انتہائی سنگین منفی اثر: اس میں اسپتال جانے کی ضرورت پیش آتی ہے اور بعض کیسیز مایوس کن بھی ہو سکتے ہیں.

     (1) ویکسین کا حکم اجزاے ترکیبی کے لحاظ سے:

     پہلی بات کا علم کمپنی یا اس کے متعلقہ افراد کے بتانے سے ہوتا ہے اور دونوں کمپنیوں نے اپنے ویکسین کے اجزاے ترکیبی اپنے اپنے ویب سائٹ پر شائع کر دیے ہیں مگر ان سے جزم و یقین کے ساتھ یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ان میں کوئی چیز ناپاک یا حرام لعینہ ہے. اس لیے حکم جواز کا ہوگا.
     فتاوی ہندیہ میں ہے:
     قال الإمام محمد بن الحسن الشيبانى: و به ناخذ ما لم نعرف شيئا حرامًا بعينه، وهو قولُ أبي حنيفة رحمه اللّٰه تعالىٰ و أصحابه، كذا في الظهيرية. (الفتاوى الهندية، ج:٥، ٣٤٢، الباب الثانى عشر في الهدايا والضيافة، دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.)
     امام محمد بن حسن شیبانی فرماتے ہیں کہ جب تک کسی چیز کے بارے میں ہمیں یہ نہ معلوم ہو کہ وہ حرام لعینہ ہے، ہم اسے حلال مانتے ہیں، یہی قول امام اعظم ابو حنیفہ اور آپ کے اصحاب رحمہم اللّٰہ کا ہے.
     شریعت طاہرہ کا ضابطہ ہے کہ جس چیز کی نجاست و حرمت معلوم نہ ہو وہ پاک و حلال ہے؛ کیوں کہ مدارِ نجاست علم پر ہے اور مدارِ طہارت، نجاست سے لا علمی پر. یوں ہی مدارِ حرمت علم پر ہے اور مدارِ حلت، حرمت سے لا علمی پر. ماہر قانون اسلامی، امام احمد رضا رحمۃ اللّٰہ علیہ سے سوال ہوا:
     "ایام وبا میں گورنمنٹ کی طرف سے جو دوا کنوؤں میں واسطے اصلاح پانی کے ڈالی جاتی ہے اور رنگ پانی کا سرخ ہو جاتا ہے اور ذائقہ میں بھی فرق آ جاتا ہے وہ پانی طاہر اور قابل پینے اور وضو کے ہے یا نہیں."
     تو آپ نے اس کے جواب میں ارقام فرمایا:
     "جب تک نجاست کا علم نہیں پانی طاہر مطہر ہے کہ اصل اشیا میں طہارت ہے. یوں ہی جب تک حرمت کا علم نہیں پانی حلال و مشروب ہے کہ اصل اشیا میں اباحت ہے."
     (فتاوی رضویہ، ج:1، ص:549، باب المیاہ/فصل فی البئر، رضا اکیڈمی)
     ایک دوسرے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
     "حکم پاکی کا ہے جب تک نجاست یقیناً نہ معلوم ہو." (ایضاً، ص:568)

     ویکسین تین طرح کی ہو سکتی ہے:

     ایک: وہ ویکسین جس کے فارمولا کا اعلان دواساز کمپنی نے کر دیا ہے اور وہ سب اجزا پاک و حلال ہیں.
     دوسری: وہ ویکسین جس کا فارمولا کمپنی نے شائع نہیں کیا، نہ کسی اور ذریعہ سے جزم و یقین کے ساتھ یہ معلوم ہو سکا کہ اس کا کوئی جز ناپاک یا حرام ہے.
     تیسری: وہ ویکسین جس کے بارے میں کمپنی نے اعلان کر دیا ہے کہ اس میں مثلاً خنزیر کا کوئی جز شامل ہے. خنزیر کا جز تو بلا شبہہ مذہب اسلام میں ناپاک و حرام ہے مگر مجھے فی الحال کسی ایسی ویکسین اور کمپنی کا علم نہیں، اس لیے اس سے صرف نظر کرتے ہیں.
     پہلی قسم کی ویکسین کا استعمال جائز و درست ہے کہ کورونا وائرس کے ممکنہ خطرات سے تحفظ کے لیے مفید و مؤثر ہے جو شرعًا مطلوب و مباح ہے.
     دوسری قسم کی ویکسین کا استعمال بھی جائز و درست ہے کہ ویکسین کا تعلق باب علاج سے ہے جو شرعًا مباح ہے؛ اس لیے صرف ناپاک چیز کی آمیزش کے شبہہ سے اسے حرام نہیں قرار دیا جا سکتا کہ اصل حلت و طہارت ہے.
     ماہر قانون اسلامی امام احمد رضا قدس سرہ نے اپنی ایک کتاب "الأحلىٰ من السكر" میں چند شرعی ضوابط کے ذریعہ اس طرح کے مسائل کے احکام پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے. ہم یہاں اس کے چند اقتباس پیش کرتے ہیں:
     ▪️حضرت حق جلَّ و علا نے ہمیں یہ تکلیف نہ دی کہ ایسی ہی چیز کو استعمال کریں جو واقع و نفس الامر میں طاہر و حلال ہو کہ اس کا علم ہمارے حیطۂ قدرت سے ورا ہے۔
     قال اللّٰه تعالىٰ:       
لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا. (القرآن الحکیم، سورۃالبقرۃ:2، الآیۃ:286)
     ترجمہ: اللّٰہ کسی پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر۔
     نہ یہ تکلیف فرمائی کہ صرف وہی شے برتیں جسے ہم اپنے علم و یقین کی رُو سے طیب و طاہر جانتے ہیں کہ اس میں بھی حرج عظیم ہے اور حرج مدفوع بالنص، قال تعالىٰ:
وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِى الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ۔
(القرآن الحکیم، سورۃالحج:22، الآیۃ:78)
     ترجمہ: اللّٰہ نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی.
     وقال تعالىٰ:
يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۔
(القرآن الحکیم، سورۃالبقرۃ:2، الآیۃ:185)
     ترجمہ: اللّٰہ تمھارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمھارے ساتھ دشواری نہیں چاہتا.

     اے عزیز! یہ دین بحمداللّٰہ آسانی و سماحت کے ساتھ آیا جو اسے اس کے طور پر لے گا اس کے لیے ہمیشہ رفق و نرمی ہے اور جو تعمق و تشدد کو راہ دے گا یہ دین اس کے لیے سخت ہوتا جائے گا. یہاں تک کہ وہی تھک رہے گا اور اپنی سخت گیری کی آپ ندامت اٹھائے گا.
     نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
     ▪️إن الدين يسر ولن يشادّ الدين أحد إلا غلبه فسدّدوا و قارِبوا و ابشروا. أخرجه البخاري و النسائي عن أبي هريرة رضى اللّٰه تعالىٰ عنه. ▪️و صدره عند البيهقى في شعب الإيمان بلفظ: "الدين يسر ولن يغالب الدين أحد إلا غلبه". ▪️و أخرج أحمد و النسائي و ابن ماجة و الحاكم بإسناد صحيح عن ابن عباس رضى اللّٰه تعالىٰ عن النبي صلى اللّٰه تعالىٰ عليه وسلم إيّاكم و الغلو في الدين فإنما هلك من كان قبلكم بالغلو في الدين.
     [ ترجمہ: بے شک دین آسان ہے اور ہرگز کوئی شخص دین میں سختی نہ برتے گا مگر وہ اس پر غالب آ جائے گا تو درست روی اپناؤ اور درستگی کے قریب رہو اور خوش خبری دو. اسے بخاری اور نسائی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کیا. ▪️اور شعب الایمان میں امام بیہقی نے یہ الفاظ نقل کیے: "دین آسان ہے اور جو کوئی دین پر غالب ہونا چاہے (کہ شدت پر قائم رہے) تو دین اس پر غالب ہو جائے گا. ▪️امام احمد، نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نے سند صحیح کے ساتھ حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا، وہ نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ "دین میں غلو کرنے سے بچو؛ کیوں کہ تم سے پہلے لوگ دین میں غلو کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے". ن ]
     بلکہ صرف اس قدر حکم ہے کہ وہ چیز تصرف میں لائیں جو اپنی اصل میں حلال و طیب ہو اور اسے مانع و نجاست کا عارض ہونا ہمارے علم میں نہ ہو لہٰذا جب تک خاص اس شَے میں جسے استعمال کرنا چاہتا ہے کوئی مظنۂ قویہ حظر و ممانعت کا نہ پایا جائے تفتیش و تحقیقات کی بھی حاجت نہیں، مسلمان کو روا کہ اصل حل و طہارت پر عمل کرے اور يُمكن و يحتمل و شاید و لعلَّ کو جگہ نہ دے.
     في الحديقة: لا حرمة إلا مع العلم لأنَّ الأصل الحِلُّ ولا يلزمه السؤالُ عن شيء حتى يطلع على حرمته و يتحقّق بها فيحرم عليه. ح اھ ملخصا
     وفيها عن جامع الفتاوى: لا يلزمه السؤال عن طهارة الحوض ما لم يغلب على ظنه نجاسته و بمجرد الظن لا يمنع من التوضى؛ لأن الأصل في الأشياء الطهارة، اھ.

     امیر المومنین عمر رضی اللّٰہ عنہ ایک حوض پر گزرے، عمرو بن عاص رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ساتھ تھے، حوض والے سے پوچھنے لگے، کیا تیرے حوض میں درندے بھی پانی پیتے ہیں؟ امیر المومنین نے فرمایا: اے حوض والے: ہمیں نہ بتا.
     مالك في مؤطاه: عن يحيٰى بن عبدالرحمٰن أن عمر رضى اللّٰه تعالىٰ عنه خرج في رَكب فيهم عمرو بن العاص رضى اللّٰه تعالىٰ عنه حتى وردوا حوضا فقال عمرو: يا صاحب الحوض! هل ترد حوضك السباع؟ فقال عمر بن الخطاب: يا صاحب الحوض! لا تخبرنا، فإنا نرد على السباع و ترد علينا.
     قال سيدي عبدالغنى: ولعله كان حوضًا صغيرا وإلا لما سأل اھ ملخصًا. وقال تحت قوله: "لا تخبرنا" أى ولو كنت تعلم أنه ترد السباع، لأنا نحن لا نعلم ذلك، فالماء طاهر عندنا فلو استعملناه لاستعملنا ماءً طاهرا ولا يكلف اللّٰه نفسًا إلّا وسعها اھ.
     (الأحلىٰ من السّكر لطلبة سكر روسر، مشمولہ فتاوی رضویہ، ج:2، ص:106، 107، کتاب الطہارۃ/باب الأنجاس/مقدمہ عاشرہ، رضا اکیڈمی، ممبئی.)
     ▪️اس میں شک نہیں کہ شبہہ کی جگہ میں تفتیش و سوال بہتر ہے جب اس پر کوئی فائدہ مترتب ہوتا سمجھے، في البحر الرائق عن السراج الهندي عن الفقيه أبي الليث: ان عدم وجوب السؤال من طريق الحكم. وان سأل كان احوط لدينه. (ایضًا، ص:111)
     ▪️احتیاط اس میں نہیں کہ بے تحقیق بالغ و ثبوت کامل کسی شے کو حرام و مکروہ کہہ کر شریعتِ مطہرہ پر افترا کیجیے بلکہ احتیاط اباحت ماننے میں ہے کہ وہی اصل متیقن اور بے حاجت مُبین خود مُبَیَّن. سیدی عبدالغنی بن سیدی اسمٰعیل قدس سرہما الجلیل فرماتے ہیں:
     ليس الاحتياط في الافتراء على اللّٰه تعالىٰ باثبات الحرمة أو الكراهة اللذين لا بد لهما من دليل، بل في القول بالإباحة التى هى الأصل وقد توقف النبى صلى اللّٰه تعالىٰ عليه وسلم في تحريم الخمر أمّ الخبائث حتى نزل عليه النص القطعى اھ وآثره ابن عابدين في الأشربة مقرا.
     بازاری افواہ قابل اعتبار اور احکامِ شرع کی مناط و مدار نہیں ہو سکتی: بہت خبریں بے سر و پا ایسی مشتہر ہو جاتی ہیں جن کی کچھ اصل نہیں، یا ہے تو بہزار تفاوت، اکثر دیکھا ہے ایک خبر نے شہر میں شہرت پائی اور قائلوں سے تحقیق کیا تو یہی جواب ملا کہ سنا ہے، نہ کوئی اپنا دیکھا بیان کرے، نہ اس کی سند کا پتہ چلے کہ اصل قائل کون تھا جسے سن کر شدہ شدہ اس اشتہار کی نوبت آئی.
     (ایضًا، ص:90، 91، مقدمۂ ثالثہ و مقدمۂ رابعہ)

     فتاوی رضویہ کے یہ اقتباسات احادیث نبویہ اور فقہی تصریحات پر مبنی ہیں، ان سے یہ امر بخوبی منقح ہو جاتا ہے کہ:
     افواہ پر حکم شرعی کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی، یوں ہی کسی پاک و صاف چیز کو صرف شک کی بنا پر حرام نہیں قرار دیا جا سکتا. علاج اور دوا میں اصل حلت و طہارت ہے؛ لہٰذا جب تک یقین سے یہ نہ معلوم ہو جائے کہ فلاں دوا میں خنزیر کا جز یا کوئی ناپاک چیز شامل ہے اسے حرام و ناجائز نہیں کہا جا سکتا.
     بلکہ اسے پاک و حلال مانا جائے گا، لہٰذا اس کا استعمال جائز و درست ہوگا. واللّٰہ تعالیٰ اعلم.

جاری








ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ٹائپنگ: مولانا محمد کلیم مصباحی مرزاپوری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے