Advertisement

حضور پر نور سرکار محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم_ایک مختصر تعارف از مولانا عبد السبحان مصباحی


  حضور پر نور سرکار محمد مصطفیٰ ﷺ ــــــــ ایک مختصر تعارف

 {١٢/ربیع الاول، عام الفیل، ٨/جون ٥٧١ء ــــــ ١٢/ ربیع الاول، ١١ھ، ١١/ جون ٦٣٢ء} 

پہلی قسط


مضمون نگار: مولانا عبد السبحان مصباحی، دھیرج نگر، رامپور، یوپی، انڈیا۔

استاذ: جامعہ صمدیہ دار الخیر، پھپھوند شریف، اوریا، یوپی، انڈیا۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب 
ہنوز نامِ تو گفتن کمالِ بے ادبی است 
بزمِ ثنائے زُلف میں میری عروسِ فکر کو
ساری بہارِ ہشت خلد چھوٹا سا عِطر دان ہے
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجہک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر.


           رسولِ کائنات، فخرِ موجودات،صاحب کمالات، سید افلاک، صاحبِ لولاک، نبی مکرم، رسول معظم، محمد رسول اللہ،ﷺ کا نسب نامہ شریف والد ماجد کی طرف سے یہ ہے :-
            1:حضرت محمد رسول اللہ، ﷺ 2: بن عبد اللہ، 3: بن عبد المطلب، 4: بن ھاشم، 5: بن عبد مناف،6:بن قصي،7: بن کلاب،8: بن مرة،9: بن کعب،10: بن لؤي،11: بن غالب،12: بن فھر،13: بن مالک،14: بن نضر،15:بن کنانہ،16:بن خزیمہ، 17: بن مدرکہ،18: بن إلیاس،19: بن مضر،20: بن نزار،21: بن معد،22: بن عدنان. 
{📚بخاری شریف: ج۱، بابُ مبعث النبی،ﷺ،ص:٥٤٣} 
            یہاں تک حضورِ اکرم ﷺ کے شجرۂ نسب اور سلسلۃ الذہب میں علما، مؤرخین، اربابِ سِیَر اور اصحابِ علم الأنساب سب کا اتفاق ہے اور یہ تمام کے نزدیک متفق علیہ اور مسلم ہے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔ 

والدۂ ماجدہ کی طرف سے آپ کا نسب نامہ یہ ہے :-
            1:حضرت محمد رسول اللہ، ﷺ، 2:بن آمنہ، 3:بنت وہب، 4:بن عبد مناف، 5: بن زہرہ، 6: بن کلاب، 7:بن مرہ۔
           رسول اللہ ﷺ کے والدَین کریمَین کا نسب نامہ شریف " کلاب بن مرہ" پر مل جاتا ہے اور آگے چل کر دونوں سلسلے ایک ہو جاتے ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ممتاز اسمائے مبارکہ جو قرآن وحدیث میں وارد ہوئے ہیں :-

        محمد ــــــــــــــ أحمد ــــــــــــــ حامد ــــــــــــ محمود ـــــــــــــــ مصطفیٰ ـــــــــ مجتبٰی ـــــــــ نورﷺ۔

ممتاز خطابات جن کا ذکر جمیل قرآن وحدیث میں آیا ہے :-

        رحمةٌ للعالمین ــــــــــ خاتمُ النبیین ــــــــــــ إمامُ الأنبياء ــــــــــ سید الثقلین ـــــــــــ سيد ولد آدم ــــــــــ شفیعُ المذنبين ـــــــــــ طٰہٰ ــــــــــ يٰسين ـــــــــــــــ مزمل ــــــــــ مدثر ــــــــــ سراج ــــــــــــــــ منير ﷺ

والد ماجد کا انتقال :

        قبل ولادت مبارکہ۔

ولادت طیبہ:

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا
بارہویں کے چاند کا مُجرا ہے سجدہ نور کا
بارہ بُرجوں سے جھکا ایک اِک سِتارہ نور کا
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل اَفروز ساعت پہ لاکھوں سلام. 
            ١٢/ربیع الاول موسم بہار، روز دو شنبہ، قبل طلوع آفتاب، عام الفیل، چالیس یا پچپن دن کے بعد ـــــــــــــــ ٢٠/اپریل ٥٧١ء، ـــــــــــ ١١/ماہ بیشنس ٢٦٧٥/طوفانِ نوح، ـــــــــــــــ یکم جیٹھ ٣٦٧٢/کل جگ، ـــــــــــــــ ٢٠/ماہ ہفتم ٢٥٨٥ ابراہیمی، ـــــــــــــــــ٢٠/نیساں ٨٨٢/سکندری، ــــــــــــــــــ یکم جیٹھ ٦٢٨/بکرمی شمسی۔
 {📚محمد عربی نمبر، ص:٤٢}

جنم بھومی:

 مکہ مکرمہ۔

رضاعت :

بھائیوں کے لئے ترک پِستاں کریں 
دودھ پیتوں کی نصفت پہ لاکھوں سلام. 
           سات دن اپنی والدۂ ماجدہ حضرت آمنہ کا دودھ نوش فرمایا، اس کے بعد چند دن ابو لہب کی لونڈی ثُوَیْبَہْ کا دودھ نوش فرمایا پھر حضرت حلیمہ سعدیہ کے سپرد کیے گئے ۔
 {📚مدارج النبوت ،ج،٢،ص :٣٥}

شق صدر شریف :

رفعِ ذکرِ جَلالت پہ اَرفع درود
شَرحِ صدرِ صدارت پہ لاکھوں سلام. 
           آپﷺ کا شق صدر شریف چار مرتبہ ہوا ہے۔ پہلی بار جب آپ دو ڈھائی سال کے تھے اور حضرت حلیمہ سعدیہ کے گھر تھے۔اس کی حکمت یہ تھی کہ آپ شیطانی وسوسوں اور خیالات سے محفوظ رہ کر  اخلاق حمیدہ پر پرورش پائیں ۔ دوسری مرتبہ دس سال کی عمر میں تاکہ پر آشوب شہوتوں کے خطرات سے محفوظ ہوکر کامل ترین أوصاف پر جوان ہوں، تیسری بار غار حراء میں بعثت کے وقت تاکہ آپ وحی الٰہی کے عظیم بوجھ کو برداشت کر سکیں، چوتھی مرتبہ شب معراج آپ کے سینۂ بے کینہ کو چاک کیا گیا تاکہ آپ دیدارِ الٰہی کی تجلیوں، مناجات الٰہی ، کلام ربانی کی ہیبتوں اور عظمتوں کے متحمل ہو سکیں۔ 
{📚المواھب اللدنیہ وشرح الزرقاني، ذکر رضاعہ وما معہ، ج، ١،ص:٢٨٨،ملخصاً، سیرتِ رسول عربی:٦٢، سیرتِ مصطفیٰ،ص:٦٦}

والدۂ ماجدہ کا انتقال :

           آپ کی عمر شریف چھ یا سات سال کی تھی کہ آپ کی والدۂ ماجدہ بھی خالق حقیقی سے جا ملیں۔ 
{📚مدارج النبوت ،ج،٢،ص:٤١}

جد امجد کا انتقال :

           آپ کی عمر شریف٨/سال،دو ماہ، دس دن کی تھی دادا جان بھی داعی أجل کو لبیک کہہ گئے ،دادا جان کے بعد چچا ابو طالب کے زیر کفالت رہے ۔ 
{📚مدارج النبوت ،ج،٢،ص:٤٢} 

آپ کا مشغلہ /پیشہ :

          بچپن شریف میں بکریاں چَرانا، پھر بحیثیت تاجر ـــــــــ خاتم الانبیاء، بانئ اسلام، سید الأولين والآخرين، تمام أولاد آدم کے سردار، قَالَ ﷺ : أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ.


پہلا سفرِ شام:

            بغرضِ تجارت ابو طالب کے ہمراہ،ملک شام کا پہلا سفر اس وقت کیا جب کہ آپ کی عمر شریف بارہ برس تھی، {بحیرہ راہب کا واقعہ اسی سفر سے متعلق فَیْمَسْ ہے}۔
{📚سیرتِ مصطفیٰ، ص:٧١}  دوسرا سفرِ شام تقریباً ٢٥/سال کی عمر میں کیا تھا 
{📚مصطفیٰ، ص:٧٥}

آپ ﷺ کی کنیت:

رسول اللہ ﷺ کی {دو کنیتیں ہیں} مشہور کنیت تو ابو القاسم ہے، اور حضرت جبریل علیہ السلام کے کنیت رکھنے سے ابو ابراہیم بھی آپ کی کنیت تھی ۔
{📚جواھر البحار... ج: ١،ص:٢١}

بحیثیت معمار تعمیرِ خانۂ کعبہ میں شرکت :

             ٣٥/سال کی عمر میں خانۂ کعبہ کی تعمیر میں بحیثیت معمار حصہ لیا اور حجرِ اسوَد کے مسئلے میں قبائل عرب کے اختلاف کا تاریخی فیصلہ کیا۔
{📚سیرتِ مصطفیٰ، ص:٨٠، مدارج النبوت ،ج،٢،ص:٤٦_٤٧} 

نور وحی کا ظہور:

جس کے گھیرے میں ہیں اَنبیا و مَلک
اس جہانگیر بِعثت پہ لاکھوں سلام

            حضور اکرم ﷺ کی عمر مبارک چالیس سال کی ہوئی تو وحی و بشارت کا ظہور ہوا جس سے آفاق عالم منور ہو گیا ۔اس نور وحی کا ظہور، دو شنبہ آٹھ یا تین ربیع الاول کو {آپ کی ولادت مبارکہ کے اکتالیسویں سال عام الفیل میں {بقولِ صحیح} ہوا۔
{📚مدارج النبوت ،ج،٢،ص:٤٩،جواہر البحار فی فضائل النبی المختار، ج:١،ص:١٠٤} 

نزولِ قرآن کی ابتدا:

بُجھ گئیں جس کے آگے سبھی مشعلیں 
شمع وہ لے کر آیا ہمَارا نبی. ﷺ 
           ١٨/رمضان المبارک، سال بعثت، یعنی نبوت کے پہلے سال، بروز جمعہ بوقت شب، مطابق ١٧/اگست ٦١٠ء نزولِ قرآن مجید کا آغاز ہوا۔
 {📚مدارج النبوت ،ج،٢،ص:٤٩،محمد عربی نمبر، ص:٤٣} 


واقعۂ معراج شریف :

شبِ اَسریٰ کے دولہا پہ دائم درود
نَوشۂ بزمِ جنت پہ لاکھوں سلام
تَبَارَکَ اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوشِ لَنْ تَرَانِی کہیں تقاضے وِصال کے تھے
حجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ہرایک پر دے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وصل و فرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے
وہی ہے اوّل وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اُسی کے جلوے اُسی سے ملنے اُسی سے اُس کی طرف گئے تھے

         نبوت کے دسویں یا گیارہویں سال،٥١/سال ٩/ماہ کی عمر مبارک میں، ٢٧/رجب المرجب،شب دو شنبہ، بحالت بیداری سر کی آنکھوں سے دیدارِ الٰہی کے انوار و تجلیات سے شاد کام ہوئے ۔ اسی شب نمازِ پنجگانہ فرض ہوئی.
 {📚فتاوی رضویہ،ج:12ص: 29، رضا اکیڈمی، ممبئی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختار، ج:١،ص:١٠٥ } 

ہجرت مدینہ منورہ :

        ٢٧/صفر المظفر،٢٢/جون ٦٢٢/ء، شب جمعہ کو سیدنا ابو بکر صدیق یار غار رحمه الله کو ہمراہ لے کر عازم سفر برائے مدینہ منورہ ہوئے ۔
یہ واقعہ ١٣/نبوی کا ہے {جو بعد میں پہلا ہجری سال کہلایا}. 

غارِ ثَور میں قیام :

     ٢٧__تا ٢٩/صفر یعنی جمعہ، ہفتہ اور اتوار تین دن۔
 {الرحیق المختوم، ص:٢٠٠}

مدینہ منورہ میں ورود مسعود :

        ٢٢/ربیع الاول بروز دو شنبہ، قبا میں چَودہ دن قیام کے بعد رَونَق افزائے مدینہ منورہ ہوئے اس کا نام پہلے "یثرب" تھا ۔ آپ کے قدموں کی برکت سے "مدینۃ الرسول" ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔
{📚سیرتِ رسول عربی، محمد عربی نمبر، ص:٤٤} 

غزوات کی تعداد :

            تاریخ اسلام میں وہ لڑائیاں اور جنگیں "غزوات" کہلاتی ہیں جن میں بنفس نفیس ہمارے آقا و مولا احمد مجتبٰی محمد مصطفیٰ ﷺ نے شرکت فرمائی۔
"غزوات " کی تعداد 27/ہے،9/غزوات میں قتال وقوع پذیر ہوا ۔
{📚مدارج النبوت، ج،2،ص:112،سیرت رسول عربی، ص'127،آئینۂ تاریخ، ص:155}
         اور جس جہاد اور معرکہ آرائی پر صحابۂ کرام کو مقرر فرمایا اسے "سَرِیَّہ" کہتے ہیں، اور "سرایا" کی تعداد 47/یا 56 ہے۔ 
{📚آئینۂ تاریخ، ص:155،سیرتِ رسولِ عربی،ص:127،مدارج النبوت ،ج ،2،ص:112}

تحويلِ قبلہ:

            نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ میں جلوہ گر ہونے کے بعد تقریباً سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی اس کے بعد تحويل قبلہ کا عمل وقوع پذیر ہوا ۔
           اس تحویل کی کیفیت یہ ہے کہ نصف رجب یوم دو شنبہ، یا نصف شعبان یوم سہ شنبہ {دو ہجری، مطابق 623ء} کو حضور اکرم ﷺ مسجد بنی سلمہ میں نماز ظہر پڑھا رہے تھے تیسری رکعت کے رکوع میں تھے کہ وحی الٰہی سے آپ نے نماز ہی میں کعبہ کی طرف رخ انوَر کر لیا اور مقتدیوں نے بھی آپ کا اتباع کیا۔ اس مسجد کو "مسجد قِبْلَتَیْن " کہتے ہیں۔ ایک نمازی جو شاملِ  جماعت تھا عصر کے وقت "مسجد بنی حارثہ" میں گیا اس نے دیکھا کہ وہاں انصار نماز عصر بیت المقدس کی طرف پڑھ رہے ہیں اس نے تحویلِ قبلہ کی خبر دی۔ وہ لوگ نماز ہی میں کعبہ رخ ہو گئے۔دوسرے روز قباء میں عین اس وقت خبر پہنچی جب کہ لوگ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے بھی اسی حال میں اپنا رخ بدل کر کعبہ کی طرف کر لیا ۔
{📚المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقاني، تحويل قبلہ وفرض رمضان وزکوۃ الفطر، ج، 2،ص:242__245، سیرت رسول عربی، ص:125__126}

جاری

یہ مضامین بھی پڑھیں



ایڈیٹر مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے