Advertisement

کورونا وائرس میں فوت ہونے والے شخص کے غسل اور نماز جنازہ کا حکم (تیسری قسط) از مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی


کتاب و سنت کی روشنی میں

کورونا وائرس میں فوت ہونے والے شخص کے غسل اور نماز جنازہ کا حکم


ماقبل سے پیوستہ

تیسری قسط


از : سراج الفقہاء مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی، صدر شعبۂ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔



غسل کی آخری اور امکانی راہ:

     اب میت کے غسل و طہارت کی آخری راہ یہ ہے کہ پلاسٹک کے اوپر سے ہی بھیگا ہوا ہاتھ پھیر دیا جائے کیوں کہ اعضاے غسل پر پانی بہانے سے عجز و بےبسی کی صورت میں یہ حکم ہے کہ پٹی باندھنا ممکن ہو تو ان پر پٹی باندھ کر تر ہاتھ سے مسح کر دیں. یہ مسح غسل اور پانی بہانے کے قائم مقام ہو جائےگا.
     کتب فقہ میں اس کے جزئیات مسح علی الخفین اور تیمم کے باب میں پائے جاتے ہیں. ہم یہاں وضاحت اور تائید کے لیے چند جزئیات نقل کرتے ہیں: درمختار و ردالمحتار میں ہے:
     وبعكسه (أى لو كان أكثر الأعضاء صحيحاً. شامى) يغسل الصحيح و يمسح الجريح. (أى إن لم يضره وإلّا عصبها بخرقة و مسح فوقها. خانية،وغيرها.شامى) اه
                   (ج١،ص١٨، باب التيمم، ماجدية)
     ترجمہ: اگر اکثر اعضاے وضو صحیح ہوں اور کچھ زخمی، تو صحیح اعضا کو دھوئے اور زخمی پر بھیگا ہاتھ پھیرنا ضرر نہ دے تو مسح کرے ورنہ پٹی باندھے اور اس کے اوپر سے مسح کرے.
     درمختار اور ردالمحتار میں اخیر باب تیمم میں ہے:
     وكذا يسقط غَسلُه (أى غسل الراس من الجنابة. شامى) فيمسحُه ولو على جبيرة إن لم يضره، وإلا (أى بأن ضره المسحُ عليها. شامى) سَقَط أصلاً، و جُعِلَ عادمًا لذٰلك العضو حكمًا كما فى المعدوم حقيقةً. اه
      (ج١، ص١٩١، قبل باب المسح على الخفين)
     ترجمہ: سر میں تکلیف ہو تو غسل جنابت میں سر پر پانی ڈالنا فرض نہ رہےگا. اب اگر سر پر مسح ضرر نہ کرے تو مسح کرے، ورنہ پٹی باندھ کر اس کے اوپر مسح کرے اور اگر یہ بھی مضر ہو تو فرض ہی ساقط ہو جائےگا اور مانا یہ جائےگا کہ وہ عضو حکمًا معدوم ہے، جیسا کہ حقیقۃً وہ عضو نہ ہوتا تو دھونا اور مسح کرنا فرض نہ ہوتا.
     درمختار، باب المسح على الخفين میں ہے:
     ويَترك المسح كالغَسل إن ضَرّ، وإلّا، لا يَترك وهو أى مَسحُها مشروط بالعجز عن مسح نفس الموضع، فإن قدر عليه فلا مسح عليها. والحاصلُ لزومُ غَسلِ المحَلّ ولو بماء حار، فإن ضَرّ مَسَحَه، فإن ضَرّ مَسَحَها، فإن ضَرّ سَقَط أصلًا. اه (الدرالمختار على هامش ردالمحتار، ج١، ص٢٠٥ ماجديه)
     ترجمہ: دھونا ضرر دے تو اسے چھوڑ دے اور مسح کرے. اگر یہ بھی ضرر دے تو اسے بھی چھوڑ دے اور پٹی پر مسح کرے اور پٹی پر مسح کی شرط یہ ہے کہ دھونے کی جگہ پر مسح سے عاجز ہو، اور اگر اس جگہ پر مسح کر سکتا ہو تو پٹی پر مسح نہ کرے. اس بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ ▪️دھونے کی جگہ کو دھونا فرض ہے، ٹھنڈا پانی تکلیف دے تو گرم پانی سے دھوئے ▪️اگر یہ بھی تکلیف دے تو مسح کرے ▪️اور اگر اس سے بھی تکلیف ہو تو پٹی پر مسح کرے ▪️اور اگر یہ بھی تکلیف دِہ ہو تو فرض ہی ساقط ہو جائےگا.
     اسی میں ہے: وحكمُ مسح جبيرة وخرقة قرحة و نحو ذلك كَغَسلِ لِمَا تحتها فيكونُ فرضًا عمليًّا لثبوته بِظنىّ وهٰذا قولهما وإليه رجع الإمام، خلاصة. وعليه الفتوىٰ شرح مجمع (علىٰ هامش ردالمحتار، ج١، ص٢٠٤، ماجديه)
     ترجمہ: پٹی اور اس کی مانند دوسری چیزوں کا حکم بدن کو دھونے کی طرح ہے تو یہ فرض عملی ہے کہ اس کا ثبوت دلیل ظنی سے ہے. یہ صاحبین کا مذہب کا ہے. بعد میں امام اعظم نے بھی رجوع فرماکر اسی کو اختیار کیا. (خلاصہ) اسی پر فتویٰ ہے. (شرح مجمع)
     وهو ما رواه ابن ماجة عن على رضى اللّٰه تعالىٰ عنه، قال: انكسرت إحدىٰ زندى فسألتُ رسولَ اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، فَأمَرَني أن اَمسحَ على الجبائر. وهو ضعيف ويتقوّى بعدّة طرقه. ويكفى ما صحّ عن ابن عمر رضى اللّٰه تعالىٰ عنهما: انّه مسح على العصابه. فانّه كالمرفوع لانّ الاَبدال لاتنصب بالرأي. بحر
     ترجمہ: دلیل ظنی سے مراد حدیث ہے جسے ابن ماجہ نے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کیا کہ آپ نے فرمایا میرے ہاتھ کا ایک گٹا ٹوٹ گیا تو میں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا (کہ وضو اور غسل کے لیے کیا کروں؟) تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ پٹی پر مسح کر لو.
     یہ حدیث ضعیف ہے اور متعدد طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے قوی ہے اور دلیل کے لیے یہ حدیث صحیح کافی ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما نے پٹی پر مسح کیا. یہ اثر حدیث مرفوع کے حکم میں ہے کیوں کہ احکام شرعی کے بدل، رائے و قیاس سے نہیں مقرر کیے جاتے. (بحرالرائق)

     ان جزئیات و نصوص سے یہ امور عیاں ہوئے:
     (الف) غسل کی جگہ پر پانی بہانا مضر ہو تو مسح کرے.
     (ب) مسح بھی مضر ہو تو اس پر پٹی یا اس کی مانند کچھ باندھے اور اس کے اوپر مسح کرے.
     (ج) اس سے بھی عجز ہو تو فرض ساقط ہے.
     (د) پٹی یا مثل پٹی پر مسح غسل کے حکم میں ہے.
     (ہ) پٹی پر مسح سے عجز کی صورت میں وہ عضو حکماً معدوم مانا جاتا ہے لہٰذا غسل ساقط ہو جاتا ہے.
     یہ ہمارے ائمہ ثلاثہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم کا مذہب ہے جو احادیث سے ثابت ہے.
     اس تفصیل کے پیش نظر "کرونا میت" کے مسئلے میں غور فرمائیے، ہمارے دیار ہند میں اس کے غسل و تیمم سے عجز ثابت ہے، یوں ہی اس کے بدن پر مسح سے بھی عجز ثابت ہے ورنہ 'کرونا' لگ سکتا ہے، پھیل سکتا ہے. ہاں میت کے فوت ہونے کے بعد ڈاکٹر اسے پلاسٹک میں اچھی طرح پیک کر دیتے ہیں تو یہ اس کے لیے "پٹی کے مثل" ہے لہٰذا اس پر مسح سے بھی غسل کا فرض ادا ہو جائےگا. یہاں یہ سوچا جا سکتا ہے کہ پٹی اور مثل پٹی کے مسائل کا تعلق متفرق اعضاے بدن سے ہے، پورے بدن سے نہیں، تو بعض اعضا کا حکم پورے بدن پر کیسے جاری کیا جا سکتا ہے تو عرض ہے کہ متفرق اعضاے بدن کی پٹی یا مثل پٹی پر مسح کی اجازت بوجہ ضرورت شرعی ہے کیوں کہ اصل حکم شرع تو غسل ہے یعنی پانی بہانا، اور پٹی پر مسح کی اجازت ضرورت شرعی کی بنا پر ہی ہوئی تو جہاں جیسی ضرورت ہوگی وہاں اسی کے لحاظ سے رخصت و اجازت ہوگی.
     فقہا مطلقاً فرماتے ہیں: الضَّرُورَاتُ تُبِيحُ المَحظُورَاتِ. الضَّرُورَةُ تُتَقَدَّرُ بِقَدرِهَا.
     ضرورت شرعی ممنوعات کو مباح کر دیتی ہے. ضرورت شرعی کا اعتبار بقدر ضرورت ہوتا ہے.

 یہاں پورے بدن پر پٹی بندھی ہے تو ضرورت شرعی پورے بدن پر مسح چاہتی ہے لہٰذا پلاسٹک کے اوپر سے مسح کرنا غسل کے قائم مقام ہوگا. ہاں پلاسٹک کے اکثر حصے پر مسح کافی ہوگا. استیعاب ضروری نہیں. درمختار میں ہے:
     ولا يشترط في مسحها استيعاب و تكرار في الاصحّ، فيكفى مسح اكثرِها مرّة. به يفتىٰ وكذا لايشترط فيها نية اتفاقًا. (على هامش ردالمحتار، ج١، ص٢٠٦، باب المسح على الخفين، ماجديه)
          ترجمہ: اصح یہ ہے کہ پوری پٹی پر مسح شرط نہیں اور نہ دو یا تین بار مسح شرط ہے لہٰذا اکثر پٹی پر ایک بار مسح کافی ہے، اسی پر فتوی ہے. یوں ہی اس میں بالاتفاق نیت بھی شرط نہیں.
     تطییب قلب (دل کی تسلی) کے لیے یہ بھی کر سکتے ہیں کہ ایک بار پورے بدن پر ہلکے ہاتھ سے پانی بہا دیں اور اکثر حصے پر تر ہاتھ پھیر دیں. اصل فرض تو تر ہاتھ پھیرنے سے ادا ہوگا مگر پورے بدن پر پانی بہانے سے اہل میت کو تسلی ہوگی کہ ایک طرح غسل ہو گیا، کنویں کی تطہیر کے باب میں اس طرح کے بھی نظائر ملتے ہیں. میت کے فوت ہوتے ہی ڈاکٹر اسے تین تہ کی پلاسٹک میں پیک کر دیتے ہیں، اس لیے میت کے بدن پر چپکے وائرس اندر رہ جاتے ہیں. اب وہ باہر نہیں آ سکتے لہٰذا پلاسٹک کے اوپر ایک بار مسح کر دینے یا ہلکے سے پانی بہا دینے میں از روئے طب کوئی حرج و ضرر نہیں، تاہم یہ کام بھی ڈاکٹروں کو اعتماد میں لے کر اور ان سے اجازت حاصل کر کے ہی کیا جائے، اپنی مرضی سے بلا اجازت ہرگز ایسا نہ کریں. اجازت مل جائے تو احتیاطی تدابیر کے ساتھ صرف ایک آدمی مسح کر کے فوراً اچھی طرح وضو کر لے.
     یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹروں سے گزارش کی جائے کہ وہ اپنے لباس میں ملبوس رہتے ہوئے پانی بہا کر ہاتھ پھیر دیں، اس کے بعد نماز جنازہ پڑھ کر دفن کریں.

جاری


ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ٹائپنگ: مولانا محمد کلیم مصباحی مرزاپوری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے