Advertisement

معترضہ آیاتِ جہاد معنیٰ و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر ( دسویں قسط ) از مولانا بدر الدجیٰ مصباحی


معترضہ آیات جہاد


 (معنی و مفہوم، شان نزول، پس منظر)

ماقبل سے پیوستہ

دسویں قسط


تحریر : مولانا بدر الدجیٰ رضوی مصباحی

پرنسپل : مدرسہ عربیہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد، ضلع مئو، یوپی، الہند۔



(1) وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُكَ فِی الصَّدَقٰتِۚ-فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْهَاۤ اِذَا هُمْ یَسْخَطُوْنَ 
(التوبہ ۵۸)

اور ان میں کوئی وہ ہے کہ صدقے بانٹنے میں تم پر طعن کرتا ہے تو اگر ا ن میں سے کچھ ملے تو راضی ہوجائیں اور نہ ملے تو جبھی وہ ناراض ہیں۔ (کنز الایمان)
      اس آیت کے شان نزول ، معنی و مفہوم کے بیان کرنے سے پہلے آییے ایک نظر غزوہ حنین کی تاریخ پر ڈال لیتے ہیں
        ہر چند کہ فتح مکہ سے تمام قبائل عرب کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ چکی تھی اور وہ خود بڑھ بڑھ کر اسلام قبول کر رہے تھے لیکن ابھی بھی کچھ سرکش قبائل ایسے تھے جو اسلام قبول کرنے پر آمادہ نظر نہیں آ رہے تھے اور وہ مسلمانوں سے جنگ کیلئے بے تاب تھے جن میں ہوازن اور ثقیف کے بڑے ممتاز اور جنگجو قبیلے تھے اسلام کی مسلسل فتوحات اور قبضہ و اقتدار سے ان کا تشخص اور امتیاز ختم ہوتا دکھاٸی دے تھا اس لئے ان دونوں قبائل کے عمائدین و معززین نے اتفاق راۓ سے یہ طے کیا کہ مسلمانوں سے پوری قوت کے ساتھ جنگ کی جاے اور اب تک مسلمانوں کو جن قبائل سے سامنا پڑا تھا وہ اس میدان کے مرد نہ تھے اور قبل اس کے کہ وہ خود ہماری طرف پیش قدمی کریں ہمیں خود بڑھ کر ان پر پوری قوت سے حملہ کردینا چاہیے اس قرارداد پر اتفاق کے بعد وہ مقابلے کے لئے اٹھ کھڑے ہوۓ جوش و خروش کا عالم یہ تھا کہ یہ لوگ قبیلۂ ہوازن کے سردار مالک بن عوف النصری (انہوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا اور شرف صحابیت سے مشرف ہو ے) کے حکم سے اپنے مال و اسباب اور بال بچوں کو بھی اپنے ساتھ کر لیا تھا تاکہ جنگجو میدان میں ڈٹے رہیں اور ان کی پامردی کو تقویت پہونچے۔ حضور سید عالم ﷺ بھی ان کی طرف سے غافل نہیں تھے آپ نے حضرت عبد اللہ بن حدرد اسلمی کو ہوازن اور ثقیف کے عزائم اور جنگی تیاریوں اور ہر معاملے کے متعلق صحیح اور تفصیلی  معلومات حاصل کرنے کے لیے حنین روانہ فرمایا جس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اگر مناسب طریقے سے صلح و مصالحت کی کوئی صورت نکل آے تو اس سے فائدہ اٹھایا جاے تاکہ قتل و قتال کی نوبت نہ آنے پاے۔ حضرت عبد اللہ بن حدرد نے بطریقۂ احسن خفیہ تحقیقات حال کرکے آپ کی خدمت میں قبیلہ ہوازن اور ثقیف کی پر جوش جنگی تیاریوں کی خبروں کی تفصیل پیش کردی صورت حال کی تحقیق ہو جانے کے بعد آپ حرم مکہ میں بیٹھ کر حملے کا انتظار نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ اس سے حدود حرم کا تقدس پامال ہوتا اس لیے آپ نے قبل اس کے کہ وہ حملہ آور ہوں آگے بڑھ کر خود ان پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس کے لیے زور و شور سے تیاری شروع کردی۔ عبداللہ بن ربیعہ سے تیس ہزار درھم مصارف جنگ کے لیے قرض لیے صفوان بن امیہ (فتح حنین کے بعد اسلام لاے) جنھوں نے قبول اسلام کے لئے مہلت لے رکھی تھی ان سے ایک سو زرہیں مستعار لیں اور دس ہزار انصار و مہاجرین صحابہ اور ایک ہزار کی تعداد میں نو مسلم اور ایک ہزار کی تعداد میں غیر مسلم اہل مکہ کو بھی ساتھ لے کر آپ حنین کی طرف روانہ ہو گیے اس بھاری نفری کو دیکھ کر بعضوں کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا کہ آج ہم پر کون غالب آسکتا ہے؟ جو رب تبارک و تعالی کو پسند نہیں آیا۔ احادیث میں غزوۂ حنین کی جو روایات نقل کی گئی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دشمنوں کو یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ اسلامی افواج کس راستے سے آرہی ہیں اس لیے انہوں نے جنگی نقطہ نظر سے وادی حنین کے نشیب میں ادھر ادھر محفوظ مقامات پر کمین گاہیں بنا کر اپنے ماہر تیر انداز جوانوں کو ان میں بٹھا دیا تھا ابھی پوری طرح اجالا بھی نہیں پھیلا تھا کہ اسلامی فوج کا مقدمۃ الجیش وہاں پہونچ گیا پھر ہر سمت سے قبیلۂ ہوازن اور ثقیف کے جوانوں نے ان پر تیروں کی بوچھار کردی۔ علامہ ابن ھشام لکھتے ہیں: جب وادی حنین سامنے آئی تو ہم نے تہامہ کی طرف جانے والی  وادیوں میں سے ایک نشیبی ڈھلان اور وسیع وادی میں اترنا شروع کردیا ہم اترے جا رہے تھے رات کی تاریکی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی دشمن ہم سے پہلے وادی میں آگیے تھے انھوں نے ہر تنگ گھاٹی، ہر درے اور ہر خفیہ راستے سے ہم پر حملہ کردیا (ابن ھشام، القسم الثانی، ص 442) 

       پھر یہ ہوا کہ پہلے بنو سلیم پلٹے پھر اہل مکہ نے راہ فرار اختیار کی پھر پورے لشکر میں ابتری پھیل گئی جس کی سمجھ میں جدھر آیا وہ جان بچانے کے لیے ادھر بھاگ کھڑا ہوا کوٸی اس پوزیش میں بھی نہیں رہا کہ صورت حال کا صحیح اندازہ کر سکے اور بدحواسی کا عالم یہ تھا کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی بھی کسی میں تاب نہیں رہی۔ قرآن مقدس نے اس کی منظر کشی کی ہے:-
وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْــٴًـا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَۚ(۲۵)

 اور حنین کے دن جب تم اپنی کثرت پر اترا گئے تھے تو وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اتنی وسیع ہوکر تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ دے کر پھرگئے (کنز الایمان)
  لیکن اس ناگہانی افراتفری میں بھی حضور سید عالمﷺ اپنے چند فدا کاروں کے ساتھ میدان میں ڈٹے رہے جن کے نام یہ ہیں: حضرت ابوبکر، حضرت عمر فاروق، حضرت علی، حضرت عباس، حضرت فضل بن عباس، حضرت قثم بن عباس، حضرت اسامہ بن زید، حضرت ایمن بن عبید، حضرت مغیرہ بن حارث بن عبدالمطلب، ان کے فرزند حضرت جعفر و ربیعہ رضی اللہ عنھم۔ مشہور صحابی رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا بھی ثابت قدم اصحاب میں شامل تھیں انھوں نے اپنی چادر اپنی کمر سے کس کر باندھ رکھی تھی اور اونٹ کی نکیل کھینچ کر اس کے نتھنوں میں اپنے ہاتھ کی انگلیاں ڈال رکھی تھیں اور خنجر ہاتھ میں لیے ہوے تھیں کہ کوئی دشمن قریب آے تو اس کا پیٹ چاک کر دیں ایسے موقع پر حضور سید عالم ﷺ نے حضرت عباس کو حکم دیا کہ انصار و مہاجرین صحابہ کو بلند آواز سے پکارو۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے پکارنا شروع کیا "یا معاشر الانصار" "یا معاشر اصحاب السمرہ " اے گروہ انصار! اے حدیبیہ میں زیر سایۂ درخت بیعت کرنے والو! حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:  فواللہ لکان عطفتھم حین سمعوا صوتی عطفة البقر علی اولادھا فقالوا یا لبیک یا لبیک"     الی آخر الحدیث (مسلم، الجلد الثانی، کتاب الجھاد والسیر، باب غزوۃ حنین، ص 100) واللہ یہ پکار سنتے ہی وہ اس طرح پلٹے 
جیسے کہ گاے اپنے بچوں کی طرف پلٹتی ہے، وہ یا لبیک، یا لبیک، کی صدا بلند کرتے ہوے دوڑ پڑے اور دشمنوں سے بھڑ گیے ، اور  انصار کو یہ کہہ کر بلایا اے  گروہ انصار! اے گروہ انصار! پھر بنو حارث بن خزرج کو پکار لگاٸی اور کہا: اے بنو حارث بن خزرج! اے بنو حارث بن خزرج! پھر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں کہ آپ خچر پر سوار تھے ان کی طرف گردن اٹھا کر دیکھا ، آپ نے ان کی لڑائی کا منظر دیکھا اور فرمایا: اس وقت تنور گرم ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کنکریاں اٹھائیں اور کفار کے چہروں کی طرف پھینکیں اور فرمایا کہ رب محمد کی قسم یہ ہار گیے، حضرت عباس کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ لڑائی اسی تیزی کے ساتھ جاری تھی میں اسی طرح دیکھ رہا تھا کہ اچانک آپ نے کنکریاں پھینکیں بخدا! میں نے دیکھا کہ ان کا زور ٹوٹ گیا اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے۔

       پھر نتیجہ یہ ہوا کہ میدان میں صرف ان کے مال و اسباب، ساز و سامان، عورتیں اور بچے ہی رہ گیے اللہ فرماتا ہے:
ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ
(التوبہ 26)          

پھر اللہ نے اپنی تسکین اتاری اپنے رسول پر اور مسلمانوں پر اور وہ لشکر اتارے جو تم نے نہ دیکھے اور کافروں کو عذاب دیا اور منکروں کی یہی سزا ہے۔(کنزالایمان)
       اس جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ جو مال غنیمت آیا اس کی تفصیل یہ ہے۔ 6 ہزار عورتیں اور بچے، 24 ہزار اونٹ، 40 ہزار بھیڑ اور بکریاں، 4 ہزار اوقیہ چاندی
       حضور سید عالم  ﷺ نے یہ سارا مال غنیمت "جعرانہ"  بھجوا دیا جہاں سے بڑے عمرہ کے لیے احرام باندھا جاتا ہے۔
       یہاں پر اسیران حنین کی ایک قیدی کی واردات سے آپ کا دل بھر آے گا۔ اسیران حنین میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن "شیما بنت حارث" بھی تھیں (رضی اللہ تعالی عنھا) جن کے ساتھ حضور سید عالم ﷺ نے حضرت حلیمہ سعدیہ کے یہاں رضاعت کا زمانہ گزارا تھا جب یہ پکڑی گئیں تو انھوں نے آتے ہی کہا یا رسول اللہ! (ﷺ) میں آپ کی رضاعی بہن "شیما" ہوں اور اس کے ثبوت میں انھوں نے اپنی پیٹھ کھول کر دکھائی کہ بچپن میں آپ نے ایک دفعہ یہاں دانت سے کاٹا تھا اور وہ نشان باقی تھا فرط محبت سے آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آے آپ نے ان کے بیٹھنے کے لیے اپنی رداے مبارک بچھائی محبت کی باتیں کیں چند اونٹ اور بکریاں بھی عنایت فرمائیں اور ارشاد فرمایا: اگر جی چاہے تو میرے گھر میں چل کر رہو اور اگر اپنے گھر جانا چاہو تو وہاں پہونچا دیا جاے۔ حضرت شیما نے جو اس وقت ایمان سے مشرف نہیں تھیں گھر خاندان کی محبت میں گھر جانا چاہا آپ ﷺ نے عزت و احترام کے ساتھ انھیں ان کے گھر پہونچوا دیا (سیرت النبی، جلد نمبر 1، ص 490)
فتح حنین کے بعد آپ نے طاٸف کا محاصرہ کیا یہ محاصرہ 20 دن تک جاری رہا لیکن کامیابی نہیں ملی چوں کہ اس محاصرہ سے صرف مدافعت مقصود تھی اس لیے آپ نے 20 دن کے بعد محاصرہ اٹھا لیا اور مال غناٸم کی تقسیم کے لیے "جعرانہ" تشریف لاے جعرانہ میں آپ کو اسیران جنگ کی رہائی کے لیے وفد ہوازن کا انتظار تھا جس کی ایک شاخ بنو سعد سے آپ کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ بھی تھیں آپ کے پہونچنے کے بعد وہ وفد بھی آ گیا وفد کے رٸیس نے رضاعت کے رشتے کے حوالے سے کہا کہ اسیر عورتوں میں آپ کی پھوپھیاں اور خالاٸیں بھی ہیں اگر سلاطین عرب میں سے کسی نے ہمارے خاندان کا دودھ پیا ہوتا تو اس سے بھی بہت امیدیں ہوتیں اور آپ سے تو بہت زیادہ امیدیں ہیں۔ حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا: مجھے صرف اپنے خاندان پر اختیار ہے لیکن عام مسلمانوں سے میں اس کے لیے سفارش کرتا ہوں یہ سن کر مہاجرین و انصار نے اپنے اپنے حصے چھوڑ دیے یوں ساری عورتیں اور بچے رہا ہوگیے۔

 مال غنیمت کی تقسیم۔  مال غنیمت کی تقسیم میں حضور سید عالم ﷺ نے تالیف قلب کی غرض سے نو مسلموں کے ساتھ نہ صرف یہ کہ ترجیحی سلوک کیا بلکہ نسبتا انہیں زیادہ مال غنیمت عطا فرمایا جس کی تفصیل یہ ہے۔ ابو سفیان اور ان کی اولاد کو 300 اونٹ، حکیم بن حزام کو 200 اونٹ، ان کے علاوہ آٹھ افراد کو ایک ایک سو اونٹ، بہت سے لوگوں کو پچاس پچاس اونٹ دیے اور فوج میں سے ہر فرد کو فی کس چار اونٹ اور چالیس بکریاں دیں جس میں سواروں کا حصہ زیادہ تھا۔
اس تقسیم پر اوروں کے ساتھ انصار صحابہ کو بھی اعتراض ہوا جیسا کہ مسلم جلد ثانی میں روایات موجود ہیں لیکن ان کا اعتراض عاشقانہ اور محبت سے لبریز تھا اور ان کے اعتراض کا اصل محرک ان کے ذہن میں اس خدشے کا پیدا ہوجانا تھا کہ شاید اب حضور علیہ الصلوة والسلام ہمیں مدینے میں تنہا چھوڑ کر اپنے گھر خاندان کے ساتھ دوبارہ مکہ میں جا بسیں گے جس کا ازالہ حضور علیہ الصلوة والسلام نے انصار صحابہ کو یہ کہہ کر فرمادیا: کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ دیگر لوگ اونٹ اور بکریاں لے کر جاٸیں اور تم محمد (ﷺ) کو لے کر اپنے گھر جاٶ۔
         لیکن اس تقسیم پر کچھ منافقین نے نہایت سخت تکلیف دہ اور جارحانہ انداز میں آپ پر لب کشاٸی کی جس سے قلب مبارک ﷺ کو سخت صدمہ لاحق ہوا اس وقت اللہ تبارک و تعالی نے سورہ توبہ کی آیت 58,59,60 کا نزول فرمایا اور ان کی بد نیتی اور مال دنیا کی حرص و ہوس کو ظاہر کرتے ہوے فرمایا:
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُكَ فِی الصَّدَقٰتِۚ-فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْهَاۤ اِذَا هُمْ یَسْخَطُوْنَ
( التوبہ ۵۸)

اور ان میں کوئی وہ ہے کہ صدقے بانٹنے میں تم پر طعن کرتا ہے تو اگر ا ن میں سے کچھ ملے تو راضی ہوجائیں اور نہ ملے تو جبھی وہ ناراض ہیں۔ (کنزالایمان)

      یہ آیت مبارکہ کس کے بارے میں نازل ہوٸی اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں صاحب تفسیر ابی سعود نے اس آیت کی تفسیر کے تحت تین قول پیش کیے ہیں اور قول اول کو "ھو الاظھر" فرمایا ہے۔
(1)  یہ آیت ابو الجواظ منافق کے بارے میں نازل ہوٸی جس نے مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں صحابۂ کرام سے یہ کہا: کیا تم دیکھتے نہیں کہ تمہارے صاحب تمہارے صدقات کو بکریوں کے چرواہوں میں بانٹ رہے ہیں اور گمان یہ کرتے ہیں کہ وہ عدل سے کام لے رہے ہیں (2) یہ آیت ابن ذی الخویصرہ کے بارے میں نازل ہوٸی جس کا اصل نام حرقوص ابن زھیر تمیمی ہے جو خوارج کا رٸیس تھا اس نے حنین کے مال غنیمت کی تقسیم پر یہ کہا: اعدل یا رسول اللہ! فقال ﷺ ویلک ان لم اعدل فمن یعدل؟ اے اللہ کے رسول انصاف سے کام لیجیے آپ نے فرمایا: اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو پھر کون انصاف کرے گا؟ (3) اس کے قاٸل مؤلفة القلوب تھے (تفسیر ابی سعود ج 4 ص 75) 
       بخاری شریف میں پوری حدیث موجود ہے ذی الخویصرہ کی اس بات کو سن کر حضرت عمر نے عرض کیا: اٸذن لی فلأضرب عنقہ، قال: لا إن لہ أصحابا یحقر احدکم صلاتہ مع صلاتھم و صیامھم مع صیامھم یمرقون من الدین کمروق السھم من الرمیة۔ ( بخاری جلد ثانی؛کتاب الادب، باب ما جاء فی قول الرجل ویلک، ص 910 ، مطبع مجلس برکات الجامعة الاشرفیہ مبارک پور)
مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس کی گردن مار دوں حضور علیہ الصلاة والسلام نے فرمایا: نہیں، اس کے کچھ ایسے ساتھی ہوں گے کہ ان کی نماز اور روزے کے آگے تم اپنی نماز اور روزے کو حقیر سمجھوگے لیکن وہ دین سے اس طرح باہر ہوجاٸیں گے جیسے تیر شکار سے باہر نکل جاتا ہے۔ (پوری حدیث دیکھیں)

      یہاں پر یہ جان لینا ضروری ہے کہ حضور سید عالم ﷺ نے فتح حنین کے موقع پر زیادہ مال غنیمت دے کر جن لوگوں کی تالیف قلب کی وہ قریش کے معزز افرادتھے اور قبائل عرب میں ان کا بہت اچھا اثر تھا اور ابھی وہ نٸے نٸے اسلام میں داخل ہوے تھے ابھی اتنا وقفہ نہیں ہوا تھا کہ اسلام ان کے دل میں راسخ ہوتا اس لیے حضور سید عالم ﷺ نے مصالح کے پیش نظر مال غنیمت کی تقسیم میں ان کے ساتھ ترجیحی سلوک کیا تاکہ اسلام ان کے دل میں اچھی طرح بیٹھ جاے اور یہ حکومت کے مقتضیات میں سے بھی ہے بسا اوقات حکومت کا معاملہ ایسے با اثر لوگوں سے پڑتا ہے جو پوری طرح حکومت کی رعیت اور تابع دار نہیں ہوتے وہ ایسی پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ اگر انہیں بہ زور طاقت قابو میں رکھنے کی کوشش کی گٸی تو اندیشہ رہتا ہے کہ وہ کہیں دشمن سے مل کر بہت بڑے خطرے کا باعث نہ بن جاٸیں جیسا کہ سرحدی علاقے میں کبھی کبھی ایسا معاملہ سامنے آتا ہے ایسی صورت میں حکومت کا طرز عمل ان کے ساتھ ہمدردانہ ہوتا ہے حکومت  ان کی پوری ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اوروں کی بہ نسبت انہیں زیادہ مراعات دیتی ہے اور کبھی کبھی ان کی مالی سرپرستی بھی کرتی ہے تاکہ یہ دشمن کے قریب نہ ہوں اور حکومت کے وفادار بن کر رہیں۔ انہیں مصالح کے پیش نظر حضور سید عالم  ﷺ نے ان نو مسلم معززین قریش کے ساتھ ترجیحانہ سلوک کیا اور انہیں زیادہ مراعات دیں لیکن منافقین کو یہ سب کچھ برداشت نہ ہو سکا اور انہوں نے اپنا نفاق ظاہر کردیا جس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے سرکار علیہ الصلاة والسلام سے ان کی گردن اتارنے کی اجازت چاہی جس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی نے شان رسالت ﷺ میں گستاخی کی تو وہ قابل گردن زدنی مجرم ہے وہ اسی لاٸق ہے کہ اس کی گردن  سر سے اتار دی جاے۔

جاری


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے