Advertisement

کورونا وائرس میں فوت ہونے والے شخص کے غسل اور نماز جنازہ کا حکم (دوسری قسط) از مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی


کتاب و سنت کی روشنی می


کورونا وائرس میں فوت ہونے والے شخص کے غسل اور نماز جنازہ کا حکم


ماقبل سے پیوستہ

دوسری قسط


از : سراج الفقہاء مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی، صدر شعبۂ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔


دو فقہی جزئیات کی تشریح و تفہیم:

     کتب فقہ میں دو جزئیات ایسے ملتے ہیں جن کے پیش نظر یہاں یہ خیال آ سکتا ہے کہ پلاسٹک میں ملفوف میت کو بھی تیمم کرانا چاہیے.
     بہار شریعت میں ان جزئیات کی ترجمانی ان الفاظ میں ہے:
     عورت کا انتقال ہوا، اور وہاں کوئی عورت نہیں کہ نہلا دے تو تیمم کرایا جائے پھر تیمم کرانے والا محرم ہو تو ہاتھ سے تیمم کرائے اور اجنبی ہو تو ہاتھ پر کپڑا لپیٹ کر جنس زمین پر ہاتھ مارے. (درمختار، عالمگیری وغیرہما)
     مرد کا انتقال ہوا، اور وہاں نہ کوئی مرد ہے، نہ اس کی بی بی، تو جو عورت وہاں ہے اسے تیمم کرائے پھر اگر عورت محرم ہے تو تیمم میں ہاتھ پر کپڑا لپیٹنے کی حاجت نہیں اور اجنبی ہو تو کپڑا لپیٹ کر تیمم کرائے. (عالمگیری)
     (بہار شریعت، حصہ 4، ص 813، مجلس المدینہ)

     دونوں جزئیات میں ہاتھ پر کپڑا لپیٹ کر تیمم کرانے کا حکم دیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ میت اور تیمم کرانے والے کے اعضا کے درمیان کپڑا وغیرہ حائل ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑا. لہذا اگر میت کے اعضا پر پلاسٹک لپیٹ دی گئی ہو تو بھی تیمم کرانے سے تیمم درست ہوگا اور حکم تیمم کا ہی ہے.
     اس بارے میں عرض ہے کہ
     (1) تیمم میں قیاس بجا نہیں کیوں کہ تیمم کی اجازت خلاف قیاس نص قطعی کی رو سے ہے اور جو حکم نص سے خلاف قیاس ثابت ہوتا ہے وہ نص کے معنی و مورد تک ہی محدود ہوتا ہے، یہ امر مسلّمات سے ہیں، نص یہ ہے:
فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُؕ-
(المائده:٦)
     ترجمہ: پاک مٹی سے تیمم کرو تو اپنے منہ اور ہاتھوں کا اس سے مسح کرو. اور پلاسٹک پر مسح منہ اور ہاتھوں پر مسح نہیں لہذا تیمم نہ ہوگا، اور میری نگاہ میں شریعت میں ایسے تیمم کی کوئی نظیر نہیں.
     اس آیۃ کریمہ میں تیمم کے لیے دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے: ایک صعيد طيب کا، دوسرے منہ اور ہاتھوں پر مسح کا. اور پلاسٹک پر تیمم میں پہلی بات تو پائی جاتی ہے مگر دوسری بالکل مفقود ہے.
     تیمم کے معنی "قصد " کے ہیں اور پاک مٹی پر ہاتھ مارنا "صعید طیب کا قصد "ہے، تیمم کرنے/کرانے والے کے ہاتھ پر دستانہ وغیرہ ہو تو بھی " قصد صعید "متحقق ہے اور نص قرآن سے وہی ضروری ہے لہذا مجبوری کی صورت میں ہاتھ پر کپڑا لپیٹنے یا دستانہ پہننے کی اجازت ہوئی مگر چہرے اور ہاتھ پر پلاسٹک کا غلاف لپٹا ہو تو اس پر مسح، چہرے اور ہاتھ پر مسح نہیں. یہاں 'مسح وجہ و ید' صادق نہیں، اس لیے پلاسٹک پر مسح سے تیمم درست نہ ہوگا.
     تو ایک تو یہ مسئلہ قیاسی نہیں، دوسرے مقیس اور مقیس علیہ کے درمیان فرق ہے. یکسانیت و اشتراک نہیں جیسا کہ واضح ہوا.
     تیسرے ہم جیسوں کو قیاس کی اجازت نہیں. فقہی بصیرت کے ساتھ منقولات سے استفادہ الگ ہے اور قیاس الگ ہے.

     (2) علاوہ ازیں تیمم کے لیے فرض ہے کہ پورے منہ اور دونوں ہاتھوں پر اس طرح ہاتھ پھیرا جائے کہ کوئی حصہ باقی نہ رہ جائے. اگر بال برابر بھی کوئی جگہ رہ گئی تو تیمم نہ ہوگا. درمختار اور ہندیہ وغیرہ میں یہ صراحت موجود ہے اور کھلی ہوئی بات ہے کہ پلاسٹک میں پیک میت سے ایسا تیمم کرانا ممکن نہیں. الغرض یہاں آیت کریمہ:
فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُؕ-
 پر عمل کسی طرح ممکن نہیں.
     اس طرح دیکھا جائے تو ہم میت کے غسل سے بھی عاجز ہیں اور غسل کے بدل تیمم سے بھی عاجز ہیں. شریعت میں طہارت کی یہ دو معروف و معہود صورتیں ہیں اور دونوں ہمارے بس سے باہر ہیں، اس لیے موجودہ حالات میں کورونا وائرس سے فوت ہونے والے مسلمان کو غسل دینا بھی ہمارے ذمہ فرض نہ رہا. تیمم کرانا بھی فرض نہ رہا، پھر کیا کریں.

جاری



ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ٹائپنگ: مولانا محمد کلیم مصباحی مرزاپوری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے