Advertisement

کورونا وائرس میں فوت ہونے والے شخص کے غسل اور نماز جنازہ کا حکم (پہلی قسط) از مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی


کتاب و سنت کی روشنی میں


     کورونا وائرس میں فوت ہونے والے شخص کے غسل اور نماز 

جنازہ کا حکم

پہلی قسط


از : سراج الفقہاء مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی، صدر شعبۂ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔


     سوال: 

یہ ایک بہت ہی اہم مسئلہ ہے کہ اگر کورونا وائرس سے کسی کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کی لاش نہ تو گھر والوں کو دی جاتی ہے اور نہ ہی غسل دلانے کی اجازت ہوتی ہے۔ لاش تین تہوں والی پالی تھین میں پیک ہوکر ملتی ہے۔ نہ دیکھ سکتے ہیں، نہ چھو سکتے ہیں، نہ کسی طرح اسے ہاتھ لگا سکتے ہیں. سوال یہ ہے کہ
     (1) خدا ناخواستہ اگر ایسے حالات سے کوئی مسلمان دوچار ہوتا ہے تو اس کے گھر والے کس طرح غسل دیں؟
     (2) کیا بغیر نماز جنازہ تدفین ہو سکتی ہے؟ غسل، کفن، دفن اور نماز جنازہ کی کیا صورت ہوگی؟ تفصیل سے رہنمائی فرمائیں
          مستفتی: اشتیاق احمد ایوبی
     گلی نمبر 5، سر سید روڈ، بٹلہ ہاؤس، جامعہ نگر اوکھلا، نئی دہلی۔

              بسم الله الرحمن الرحيم 

     مختصر جواب:

     (1) پلاسٹک میں پیک لاش کے اکثر حصے پر تر ہاتھ سے مسح کر دیں، یہ غسل کے قائم مقام ہوگا پھر نماز جنازہ پڑھ کر دفن کر دیں. واللّٰہ تعالیٰ اعلم
     (2) اگر پیک شدہ لاش پر مسح کی بھی اجازت نہ ملے تو صبر سے کام لیں اور مسح کیے بغیر ہی نماز جنازہ پڑھ کر دفن کریں. ان شاءاللّٰہ نماز جنازہ صحیح ہوگی. واللّٰہ تعالیٰ اعلم۔

     تفصیلی جواب:

بتایا جاتا ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد بھی کورونا وائرس بدن کے بالائی حصے پر رہتے اور زندہ رہتے ہیں اور آس پاس والوں کے جسم میں منتقل ہو سکتے ہیں، اس لیے ڈاکٹر اسے کئی تہہ کی پلاسٹک میں لپیٹ کر اچھی طرح پیک کر دیتے ہیں اور پھر غسل وغیرہ کے لیے کھولنے کی اجازت نہیں دیتے اور جو چیز از روئے طب ممنوع ہوتی ہے وہ شرعاً بھی ممنوع ہوتی ہے اور یہ ممانعت ضرر کی کمی بیشی کے لحاظ سے کبھی مکروہ اور کبھی حرام ہوتی ہے.
     حدیث میں ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
     لَاضَرَرَ وَلاَضِرَارَ. نہ اپنے آپ کو ضرر پہنچاؤ، نہ دوسروں کو ضرر دو. فقہ اسلامی کا ضابطہ ہے: اَلضَّرَرُ يُزَالُ. ضرر دور کیا جائے.

     کورونا وائرس سے فوت ہونے والے شخص کے جسم سے پلاسٹک ہٹائی جائے تو اس کے وائرس پانی کے چھینٹوں کے ذریعہ پہلے نہلانے والوں کو منتقل ہوں گے، پھر ان کے واسطے سے دوسروں کو منتقل ہوں گے. اس طرح یہاں از روئے طب "ضرر" کا بھی اندیشہ ہے اور "ضرار" کا بھی، جو شرعاً ممنوع ہے، اس لیے میت کو اس کے (پیک شدہ) حال پر باقی رکھا جائے اور اس بارے میں ڈاکٹر جو ہدایت دیتے ہیں اس کے خلاف نہ جائیں.
     کورونا وائرس ایک آسمانی بلا ہے جس کے پھیلاو اور ہلاکت خیزی سے تقریباً پوری دنیا خائف ہے. اب تک 30 لاکھ سے زیادہ لوگ اس وائرس کی زد میں آکر مشقتیں جھیل رہے ہیں اور تقریباً دو لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں. آج کا دور بلا شبہہ جدید طب و علاج کی حیرت انگیز ترقی کا دور ہے پھر بھی چار ماہ سے ڈاکٹر بے بس ہیں. کوئی متعین اور شافی علاج اب تک نہیں ڈھونڈھ سکے، اس لیے کم از کم جو حفاظتی تدابیر وہ بتا رہے ہیں ان کو اپنانا چاہیے. ان کا پلاسٹک کا پیک کھولنے اور میت کو نہلانے سے روکنا اسی آفت سماوی سے انسانی برادری کو بچانے کے لیے ہے. 

اب یہاں تین موانع ہیں:

     (1) آفت سماوی یعنی کرونا وائرس کے لگنے اور پھیلنے کا خوفناک اندیشہ.
     (2) بندش کھولنے اور میت کو نہلانے سے ڈاکٹروں کی ممانعت.
     (3) خلاف ورزی کی صورت میں پیک شدہ لاش بھی نہ ملے گی پھر وہ اپنے طور پر اس کی تدفین وغیرہ کا کوئی بھی طریقہ اپنا سکتے ہیں.
     اس طرح ہم اپنی میت کے غسل، کفن، دفن اور نماز جنازہ چاروں سے محروم ہوں گے، لہذا عافیت اسی میں ہے کہ کم از کم پیک شدہ لاش ہی مل جائے تاکہ نماز جنازہ پڑھ کر مسنون طریقے پر مقبرۂ مسلمین میں دفن کرکے اپنے فرائض سے ممکن حد تک سبک دوش ہو سکیں.
     انسان اسی کا مکلف ہے جو اس کے بس میں ہے، اس سے زیادہ کے لیے وہ عنداللّٰہ جواب دہ نہ ہوگا. ارشاد باری ہے:
لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّاوُسْعَهَا.
     اللّٰہ کسی جان کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتا مگر اس کی وسعت بھر.

     اب دیکھنا چاہیے کہ ہماری وسعت میں یہاں کیا ہے:

     (الف) کرونا وائرس لگ جائے تو اس کا علاج ہمارے بس میں نہیں. آج پوری دنیا بلکہ سپر پاور ممالک بھی اس کے خفیہ حملوں کے آگے عاجز ہیں.
     (ب) پلاسٹک کی بندش کھولنا اپنے بس میں نہیں کہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے اور ایسا کرنے سے ہم اپنی میت کی تدفین سے بھی محروم ہو سکتے ہیں.
     (ج) میت کا بدن طاہر ہونا، نماز جنازہ کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہے اور اس طہارت کے لیے اسے غسل دینا فرض کفایہ ہے مگر جو میت تین تہوں کی پلاسٹک میں اچھی طرح پیک کر دی گئی ہو، اور اس کا کھولنا ممنوع قرار دیا گیا ہو، اس میت کو غسل دینا ہمارے بس سے باہر ہے، اس لیے ہم اس فریضے کی ادائیگی سے عاجز ہیں.

     (د) کتاب و سنت میں غسل کا بدل تیمم کو بتایا گیا ہے مگر یہاں ہم میت کے چہرے اور ہاتھوں کو مس نہیں کر سکتے، میت کے ان اعضا پر بھی اپنے ہاتھ تیمم کی نیت سے پھیر نہیں سکتے کہ پلاسٹک کی بندش کھولے بغیر یہ ممکن نہیں، وہ ہمارے مقدور سے باہر ہے. تیمم انسانی اعضا، چہرے اور دونوں ہاتھوں پر خاص طریقے سے مسح کا نام ہے. تیمم کسی پٹی پر نہیں ہوتا، پٹی پر مسح در اصل "غسل" کے قائم مقام ہوتا ہے. خود مسح، کسی مسح کے قائم مقام نہیں ہوتا اور پلاسٹک کی بندش پورے بدن کی پٹی ہی کے حکم میں ہے، لہذا اس پر تیمم نہیں کر سکتے. جد الممتار میں ہے:
     وَلِأَنّ التيمّم مسح فلا يكون بدلا عن مسح وَإنما هو بدل عن غسل والرَّأسُ ممسوح ولهٰذا لم يكن التيمّم في الرّأس اه.
     (جدالممتار، ج2، ص297، باب التیمم، مکتبۃ المدینۃ)

     ترجمہ: تیمم نام ہے مسح کا، تو یہ زخمی اعضاے وضو پر مسح کا بدل نہیں ہو سکتا، یہ مسح تو صرف غسل کا بدل ہے اور سر پر مسح ہوتا ہے لہذا سر زخمی ہو تو اس پر مسح کے بدلے تیمم نہ ہوگا.

جاری


ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ٹائپنگ: مولانا محمد کلیم مصباحی مرزاپوری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے