Advertisement

لاک ڈاؤن_5 میں کورونا کے بڑھتے خطرات سے تحفظ کے لیے زیادہ لوگوں کے مساجد میں نماز پڑھنے کے شرائط، شرعی احکام اور مشورے (دوسری قسط) از مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی

 

لاک ڈاؤن_5 میں کورونا کے بڑھتے خطرات سے تحفظ کے لیے

 زیادہ لوگوں کے مساجد میں نماز پڑھنے کے شرائط

شرعی احکام اور مشورے

(قسط دوم)


از : حضور سراج الفقہاء مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی سابق صدرالمدرسین و شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ مبارک پور۔


صفوں میں فاصلہ رکھنا کب جائز، کب ناجائز ؟

     اس بارے میں ہم امام اہل سنت، اعلی حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمۃ و الرضوان کے ایک فتوے کے دو، تین اقتباسات پیش کرتے ہیں جو بجاے خود دونوں سوالوں کے جواب ہیں:
     پہلے آپ نے یہ وضاحت فرمائی کہ:
     صفوں کے بارے میں تین باتوں کی بڑی تاکید ہے، پہلی بات:    تَسوِيه: کہ صف برابر ہو، خم نہ ہو، کج نہ ہو، مقتدی آگے، پیچھے نہ ہوں. دوسری بات:   إتمام: کہ جب تک ایک صف پوری نہ ہو دوسری صف نہ لگائیں. تیسری بات:    تراصّ: یعنی خوب مل کر کھڑا ہونا کہ شانہ شانہ سے چھلے. یہ تینوں امر شرعاً واجب ہیں.
     (فتاوی رضویہ- التقاط و تسہیل کے ساتھ- ج:3،ص:387،386،385، سنی دارالاشاعت، مبارک پور)
      اس کے بعد آپ یہ فیصلہ کن فرمان رقم فرماتے ہیں:
     "صف میں کچھ مقتدی کھڑے، کچھ بیٹھے ہوں تو اس سے امر اول یعنی تسویۂ صف پر تو کچھ اثر نہیں پڑتا...ہاں جبکہ بیٹھنے والے محض کسل و کاہلی کے سبب بے معذوریِ شرعی بیٹھیں گے تو فرائض و واجبات مثل عیدین و وتر میں امر دوم (اتمام صف) و سوم (تراصّ) کا خلاف لازم آئے گا کہ جب بلا عذر بیٹھے تو ان کی نماز نہ ہوئی اور قطع صف لازم آیا کہ نمازیوں میں غیر نمازی دخیل ہیں، ان بیٹھنے والوں کو خود فسادِ نماز ہی کا گناہ کیا کم تھا، مگر انھیں یہاں جگہ دینا اور اگر قدرت ہو تو صف سے نکال نہ دینا یہ باقی نمازیوں کا گناہ ہوگا کہ وہ خود اپنی صف کی قطع پر راضی ہوئے اور جو صف کو قطع کرے اللّٰہ اسے قطع کر دے، ان پر لازم تھا کہ انھیں کھڑے ہونے پر مجبور کریں اور اگر نہ مانیں تو صفوں سے نکال کر دور کریں، ہاں نمازی اس پر قادر نہ ہوں تو معذور ہیں اور قطعِ صف کے وبال عظیم میں یہی بیٹھنے والے ماخوذ ہیں. (فتاوی رضویہ، ج:3،ص:387، سنی دارالاشاعت، مبارک پور)
      اسی فتوے کا آخری جملہ یہ ہے: "ورنہ بحالِ فتنہ قدر میسور پر عمل چاہیے." (ایضا, ص:388)

     ان دونوں اقتباسات کا حاصل یہ ہوا کہ:
     (الف) صفوں کے درمیان جگہ خالی چھوڑنا جائز نہیں، جو نمازی خالی جگہ بھرنے پر قادر ہوں اور نہ بھریں تو گنہ گار ہوں گے.
     (ب) ہاں کسی وجہ سے انھیں وہ خالی جگہ بھرنے پر قدرت نہ ہو تو معذور ہوں گے، انھیں بقدر میسور پر عمل چاہیے.
     لہذا جہاں انتظامیہ سخت ہو، مثلاً جماعت اور صفوں پر نظر رکھے. خلاف ورزی پر قانونی کار روائی کرے اور یہ عموماً وہاں ہوتا ہے جہاں کثیر لوگوں کو جماعت و جمعہ کی اجازت ہو، یا وہاں کورونا کے مریض زیادہ پائے جاتے ہوں تو وہاں نمازی معذور ہیں. صف میں فاصلہ رکھ کر کھڑے ہو سکتے ہیں.
     اور جہاں انتظامیہ نرم ہو، رعایت سے کام لے، صرف نظر کرے اور یہ وہاں ہوتا ہے جہاں کورونا کے مریض نہ ہوں، یا تھے مگر اب صحت مند ہو چکے ہوں، یا براے نام ہوں وہاں آپ اپنے دل سے فتوی لیں، کبھی کبھی اپنے دل سے بھی فتوی لینے کی اجازت ہوتی ہے. حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "استفتِ قلبَك وإن افتَاكَ النّاس." (سنن الدارمی، ج:3،ص:1649،باب:دع ما يريبك،دار المغنى) اپنے دل سے فتوی پوچھو، اگرچہ علما نے تجھے فتوی دیا ہو. اور بہر حال کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا حکومت کے قانون کے خلاف ہے اس لیے اس خلاف ورزی میں بہر حال خطرہ ہے جو حرج و ضرر کا باعث ہے، لہذا آپ خطرے اور ضرر سے بچیں.
     واضح ہو کہ صفوں کے اتمام اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کے احکام واجباتِ نماز سے نہیں، بلکہ واجباتِ صفوف سے ہیں، چناں چہ عمدۃ القاری میں ہے:
     "التَّسْوِيَة وَاجِبَة بِمُقْتَضى الْأَمر، وَلكنّهَا لَيست من وَاجِبَات الصَّلاَة بِحَيْثُ أَنه إِذا تَركهَا فَسدتْ صلَاته أَو نقصتها." (عمدۃ القاری، ج:5، ص:371، دار الکتب العلمیۃ) 
     ترجمہ: فرمان رسالت کے مطابق صفوں کو سیدھی رکھنا واجب ہے، لیکن یہ واجباتِ نماز سے نہیں کہ چھوڑ دے تو نماز فاسد یا ناقص ہو جائے.
     یوں بھی کتبِ فقہ میں فرائض اور واجباتِ نماز میں کہیں اس کا ذکر نہیں جو اس کے واجباتِ نماز سے نہ ہونے کی کھلی دلیل ہے، یہی حال اِتمام اور تراصّ کا بھی ہے کہ یہ بھی واجباتِ نماز سے نہیں، نہ ہی کتب فقہ میں واجباتِ نماز میں کہیں ان کا ذکر ہے.
     ایسے واجبات کا ترک قصداً، بلا عذر ہو تو گناہ ہوتا ہے مگر نماز بلا کراہت صحیح ہوتی ہے اور اگر ترک، عذر کی وجہ سے ہو تو قطعِ صف کا گناہ بھی نہیں ہوتا اور نماز صحیح ہوتی ہے. اس کی دلیل حضرت ابو بکرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کو رکوع میں پایا تو صف کے پیچھے ہی تحریمہ کہہ کر رکوع میں چلے گئے تو سرکار علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: "زادك اللّٰه حرصا ولا تعد" اللّٰہ تجھے اور زیادہ نماز کا شوق بخشے، دوبارہ ایسا نہ کرنا. (صحیح البخاری، کتاب الاذان/ باب إذا رکع دون الصّف) ظاہر یہ ہے کہ اگلی صف میں گنجائش تھی تو ان پر اتمام واجب تھا اس لیے سرکار علیہ الصلاۃ والسلام نے لازمی طور پر انھیں دوبارہ ایسا کرنے سے ممانعت فرمادی مگر نماز کے اعادہ کا حکم نہ دیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اتمام صف واجبات نماز سے نہیں. فتاوی رضویہ میں ہے کہ:
     "زید نے در میں نماز ناجائز بتائی، یہ زیادت ہے، ناجائز نہیں، ہاں امام کو مکروہ ہے." (ج:3، ص:43، باب اماکن الصلاۃ، سنی دارالاشاعت، مبارک پور) "نماز ناجائز نہیں" یعنی مکروہ تحریمی نہیں، ہاں امام کا فعل مکروہ ہے.

     دوسری دلیل یہ ہے کہ قراءتِ قرآن ترتیب کے موافق واجب ہے، قصداً کسی نے اس کے خلاف کیا تو گنہ گار ہوگا، مگر نماز صحیح ہوگی اور بھول کر ہو تو گناہ نہ ہوگا اور نماز صحیح ہوگی.
     ردالمحتار میں ہے: قالوا: يجب الترتيبُ في سُوَرِ القراٰن، فلو قرأ منكوسا اثم، لكن لايلزمه سجودالسّهو؛ لأنّ ذلك مِن واجبات القراءة، لا من واجبات الصلاة كما ذكره في البحر، في باب السّهو.
     (ردالمحتار، ج:١، ص:١٤٨، باب صفة الصلاة، زكريا)
     ترجمہ: فقہا فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کی سورتوں میں ترتیب واجب ہے، لہذا اگر کسی نے الٹا پڑھا تو گنہ گار ہوگا، لیکن اس پر سجدۂ سہو نہیں واجب ہوگا، اس لیے کہ یہ قراءت کے واجبات سے ہے، نہ کہ نماز کے واجبات سے. ایسا ہی بحرالرائق کے بابُ السّہو میں ہے.
     ردالمحتار میں ہے: لأن ترتيب السُّور في القراءة من واجباتِ التلاوة، فإنما جوّز للِصِّغَار تَسهِيلاً لضرورة التعليم.* (ردالمحتار، ج:٢، ص:٢٦٩، فصل في القراءة خارج الصلاة، زكريا)
     ترجمہ: قراءت میں سورتوں کی ترتیب واجباتِ تلاوت سے ہے اور بچوں کے لیے خلاف ترتیب قراءت کی اجازت تعلیم کی ضرورت کی وجہ سے تیسیراً ہے. بہار شریعت میں ہے:
     "بچوں کی آسانی کے لیے پارۂ عم خلافِ ترتیب قرآن مجید پڑھنا جائز ہے." (بہار شریعت، حصہ:3، ص:550، مکتبۃ المینہ) یہاں بچوں کی آسانی کی ضرورت کے پیش نظر قرآن کریم الٹا پڑھنا، پڑھانا جائز ہوا. اس سے مسئلۂ دائرہ میں روشنی حاصل کی جا سکتی ہے.
     لہذا جن مقامات یا بلاد یا ممالک میں صفوف میں سوشل ڈسٹینسنگ سے چارہ نہ ہو وہاں کے مسلمان اس حکم شرعی کو اختیار کر سکتے ہیں.

نوٹ : 

یہ شرعی احکام اور مشورے سراج الفقہاء علامہ مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی کی جانب سے یکبارگی شائع ہوئے ہیں لیکن ہم یہاں انہیں تین قسطوں میں شائع کریں گے تاکہ قاری اکتاہٹ کا شکار نہ ہو۔

جاری


ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ٹائپنگ : مولانا محمد کلیم مصباحی مرزاپوری





ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے