Advertisement

لاک ڈاؤن_5 میں کورونا کے بڑھتے خطرات سے تحفظ کے لیے زیادہ لوگوں کے مساجد میں نماز پڑھنے کے شرائط، شرعی احکام اور مشورے (پہلی قسط) از مفتی نظام الدین رضوی مصباحی


لاک ڈاؤن_5 میں کورونا کے بڑھتے خطرات سے تحفظ کے لیے

 زیادہ لوگوں کے مساجد میں نماز پڑھنے کے شرائط


           شرعی احکام اور مشورے


قسط اول


از : حضور سراج الفقہاء مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی صاحب قبلہ سابق صدر المدرسین و شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ مبارکپور۔



     ہمارا ایمان ہے کہ کوئی بھی شخص کیسے ہی محفوظ محل یا مقام پر ہو، وباؤں سے دور اور ذہنی ٹینشن سے بے نیاز عیش کی زندگی گزار رہا ہو مگر جب اس کی موت کا وقت آ جائے گا تو اس کی روح فوراً قبض ہو جائے گی اور وہ ایک سیکنڈ بھی نہیں جی سکتا، تاہم ضرر اور ہلاکت کے اسباب سے بچنا اربابِ شریعت اور عقلا کے نزدیک مسلّم ہے.
   
       زہر مت کھا، پاس گر تریاق ہو
          آگ سے بچ، گرچہ پانی پاس ہو
 
    اس لیے آپ اللّٰہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھیے اور کورونا وائرس کے ضرر اور ہلاکت خیزیوں سے بچنے کی تدابیر اپنائیے.

     24/مارچ 2020ء سے لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوا تھا، اس وقت ملک میں صرف پانچ سو کے قریب مریض تھے، یکم جون 2020ء سے لاک ڈاؤن میں راحت دی گئی ہے اس کے بعد یومیہ دس ہزار کے قریب مریض سامنے آ رہے ہیں، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خلط ملط جب زیادہ بڑھ جائے گا تو حال کتنا برا ہوگا، اس لیے احتیاط برتیں.
     لاک ڈاؤن کے پہلے روز سے ہی جمعہ اور جماعت کے لیے پانچ نفر کو مسجد جانے کی اجازت دی گئی تھی، اب پانچ پانچ کرکے باری باری کثیر جماعتوں کی اجازت دی گئی ہے مگر ساتھ ہی اس کے لیے بہت سی شرطیں بھی رکھی گئی ہیں، مثلاً:
سینی ٹائزر، انفراریڈ تھرما میٹر، اور پلس آکسی میٹر کا انتظام رہنا چاہیے۔ 
حوض اور وضو خانے بند رہیں نمازی صفوں میں مناسب فاصلے پر کھڑے ہوں۔
 ماسک اور فیس کوَر کا استعمال لازمی ہے۔ عبادت خانے میں داخلے سے قبل اپنے ہاتھوں اور پیروں کو صابن یا سینی ٹائزر سے دھوئیں. روزانہ مسجد کی صفائی کی جائے. ہر نمازی اپنے ساتھ مصلیٰ لے کر آئے اور اسی پر نماز پڑھے، مساجد میں رکھی ہوئی مذہبی کتابوں کو ہاتھ نہ لگائے۔

     اب ہماری گزارش : کھلی ہوئی بات ہے کہ مسجد کی انتظامیہ ان تمام باتوں کا انتظام نہیں کر سکتی حکومت کر سکتی ہے مگر وہ کیا کیا کرے، اس سے بھی فی الحال ایسی کوئی توقع نہیں فرض کیجیے آپ کو ایک وقتِ نماز میں مثلاً دس جماعتوں کی اجازت دے دی جائے تو بھی پچاس آدمی نماز پڑھ سکیں گے جب کہ بڑی آبادیوں میں ایک ایک وقتِ نماز میں کچھ کم و بیش دو دو سو نمازی رہتے ہیں، باقی تو پھر بھی محروم رہےپہلے پابندی تھی تو سب کو صبر تھا, اب یک گونہ پابندی ہٹ گئی ہے تو سب مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے, مسجد کی انتظامیہ انھیں کنٹرول نہیں کر پائے گی, اور مسجد کو قابل اعتراض بھیڑ بھاڑ سے نہیں بچایا جا سکتا. روکنے پر شور و غوغا اور جھگڑا بھی ہو سکتا ہے جو ایک الگ فتنہ ہوگا. اور جمعہ کے روز جب بھیڑ امڈے گی تو اس کی روک تھام تو بہت ہی دشوار ہے.ایسے حالات میں ایک، دو میٹر یا کم زیادہ فاصلے پر ہر نمازی کو کھڑا کرنا بھی مشکل امر ہوگا، یہ انتظام امام اور انتظامیہ کے بس سے باہر ہے. پھر صفوں میں فاصلہ رکھنا اصالۃً ترک واجب ہے، یوں ہی سینی ٹائزر کا استعمال بھی اصالۃً ناجائز ہے ایک نمازی کے لیے یہ دونوں کام بھی مشکل ہیں. اور خدا نہ کرے کہیں کورونا وائرس پھیلتا ہے تو آپ الزام سے بچ نہیں سکتے جس کے باعث مساجد کا تقدس بھی پامال ہو سکتا ہے، اگرچہ یہ حکم شرعی میں تخفیف کا باعث نہیں، نہ اس کا کچھ اثر ہے، پھر بھی بدنامی مول لینا کوئی اچھا کام نہیں، اس سے تو بچنا ہی چاہیے. ارشاد نبوی ہے: "إياك وَمَا يسُوءُ الأُذنَ" (مسند الامام احمد بن حنبل,ص:1197). جو بات سننے میں بُری لگے اس سے بچو.
     اس لیے مسلمان بھائیو! آپ اپنے جذبات پر کنٹرول کریں، صبر سے کام لیں، مساجد کے تقدس کو بچائیں، اک ذرا بھول سے بڑا نقصان ہو سکتا ہے.

     ساتھ ہی آپ کو کئی ایک خلاف شرع کام بھی کرنے پڑ سکتے ہیں اس لیے آپ اپنے اس خیر خواہ کی بات گوشِ دل سے سنیں اور قبول فرمائیں:

     شرعی احکام :
      (1)-    جن علاقوں میں پانچ آدمیوں کو باری باری شریک جماعت ہونے کی اجازت ہے وہاں پانچ آدمی پہلے کی طرح مسجد میں جائیں، ایک امام اور چار مقتدی. اور جماعت قائم کریں. باقی لوگ اپنے گھروں میں رہ کر نمازیں ادا کریں، کوئی امام ملے تو جماعت سے ورنہ تنہا تنہا پڑھیں.

     (2)-    جمعہ کے روز بھی حسبِ معمولِ سابق جمعہ قائم کریں، اور بعد سلام اعلان کر دیں کہ لوگ اب اپنے گھروں میں تنہا تنہا ظہر کی نماز ادا کر لیں. جمعہ کی چار پانچ جماعتیں قائم کرنے میں شرعی اور انتظامی دشواریاں ہیں، پھر پانچ جماعتوں میں صرف 25 لوگ جمعہ پڑھ سکیں گے، باقی سیکڑوں، ہزاروں لوگ تو محروم ہی رہیں گے اس لیے ایک بار کی جماعت کو کافی سمجھیں.
     آپ چوں کہ قانون کی پابندی کی وجہ سے مسجد میں حاضر نہیں ہو رہے ہیں اس لیے آپ کو مسجد کی جماعت و جمعہ کا ثواب گھر میں ظہر پڑھ کر بھی ان شاءاللہ ملے گا. کھانسی، بخار، سانس کے مریض اور 65/سال یا زائد عمر کے لوگ اور دس سال تک کے بچے جماعت میں نہ جائیں، صرف صحت مند لوگ جائیں.

     (3)-     گھر سے اچھی طرح وضو بنا کر جائیں، اور فرض سے پہلے اور بعد کی سنتیں گھر پر پڑھیں، یہ سرکار علیہ السلام کی سنت کریمہ ہے، اسی پر صحابہ کرام کا عمل تھا، یہی اصل حکم شرع ہے، اس لیے اسے عجیب سا نہ محسوس کریں، بلکہ خوش دلی کے ساتھ سنت رسول اور سنت صحابہ پر عمل کی نیت سے پڑھیں.

     (4)-     جن آبادیوں میں پنج وقتہ نمازی دس بارہ ہوں وہ دو جماعت کر سکتے ہیں کہ اس طرح وہاں کے تمام نمازی جماعت میں شریک ہوں گے. اور یہ لحاظ وہ بھی رکھیں کہ فرض سے پہلے اور بعد کی سنتیں گھر میں ادا کریں اور دوسری جماعت کا وقت آنے سے پہلے یہ مسجد سے جا چکے ہوں۔

     (5)-     جن بلاد اور مقامات میں سب کو فاصلہ رکھ کر شریک جماعت ہونے کی اجازت ہے وہاں دو بار جمعہ کی جماعت قائم کرنے کی اجازت اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہاں کا قاضی اسلام یا مرجعِ فتوی سنی عالم دین کسی اہل کو دوسری جماعت کا امام مقرر کر دے، اس کے بعد دوسری جماعت کے وقت کا اعلان کر دیا جائے اور کوشش ہو کہ اس سے پیشتر ہی پہلی جماعت کے سارے لوگ مسجد خالی کر چکے ہوں تاکہ خلط ملط نہ ہو.

نوٹ : 

یہ شرعی احکام اور مشورے سراج الفقہاء علامہ مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی کی جانب سے یکبارگی شائع ہوئے ہیں لیکن ہم یہاں انہیں تین قسطوں میں شائع کریں گے تاکہ قاری اکتاہٹ کا شکار نہ ہو۔

جاری



ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ٹائپنگ : مولانا محمد کلیم مصباحی مرزاپوری






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے