Advertisement

معترضہ آیاتِ جہاد معنیٰ و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر ( قسط ہشتم ) از مولانا بدر الدجیٰ مصباحی



معترضہ آیاتِ جہاد

(معنی و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر)


قسط ہشتم

تحریر : مولانا بدر الدجیٰ رضوی مصباحی

پرنسپل : مدرسہ عربیہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد، ضلع مئو، یوپی، الہند۔


(12) قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ لَا یَدِیۡنُوۡنَ دِیۡنَ الۡحَقِّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حَتّٰی یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ عَنۡ ‌یَّدٍ وَّ ھُمۡ صٰغِرُوۡنَ
[التوبہ،آیت:29]
 
    لڑو ان سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور قیامت پر اور حرام نہیں مانتے اس چیز کو جس کو حرام کیا اللہ اور اس کے رسول نے اور سچے دین کے تابع نہیں ہوتے یعنی وہ جو کتاب دیے گئے جب تک اپنے ہاتھ سے جزیہ نہ دیں ذلیل ہو کر۔(کنز الایمان)

      سورہ توبہ کی اس آیت میں اہل ایمان کو اہل کتاب یہود و نصارٰی سے اس وقت تک جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ؛ جب تک کہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے جزیہ ادا کرنے پر آمادہ نہ ہوجائیں، چوں کہ یہ آیت جزیہ کے وجوب اور اس کی مشروعیت کی طرف مشعر ہے اس لیے ہم یہاں پر جزیہ اور اس جیسے دیگر محاصل پر مختصراً روشنی ڈالیں گے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ اہل کتاب یا غیر مسلم اقلیت کے ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں سے بھی بصورت زکات اس قسم کے محاصل وصول کیے جاتے تھے اور مسلمان بھی اس کی ادائیگی کے لیے پابند تھے۔

      عہدِ رسالت ﷺ میں محاصل کی پانچ اقسام تھیں :
 
    (1) غنیمت (2)  فٸ (3) زکات (4) جزیہ (5) خراج 

    (1) غنیمت : وہ مال ہے جو مفتوح قوم سے بوقت فتح حاصل ہوتا تھا ،اس کا پانچواں حصہ اللہ و رسول کے نام پر حکومت کے مصالح اور دیگر اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے مختص تھا بقیہ مال ایک ضابطے کے تحت مجاہدین سپاہیوں میں برابر برابر تقسیم کردیا جاتا تھا۔
   (2) مال فٸ : وہ مال ہے جو مسلمانوں کو کفار سے لڑائی کے بغیر حاصل ہوتا تھا مثلا : صلح وغیرہ سے یہ اللہ کے رسول ﷺ کے زیر انتظام رہتا تھا آپ اسے ذوی القربیٰ ، یتامیٰ ، مساکین، غریب الدیار مسافرین اور عام مسلمانوں کی ضروریات پر خرچ کرتے تھے۔
   (3) زکات : یہ صرف مسلمانوں پر فرض تھی اور چار مدوں سے وصول کی جاتی تھی: نقدی (کیش)، پھل و پیداوار، مویشی، سامانِ تجارت۔
     مسلمانوں کا جذبۂ ایمانی انھیں خود صدقات و زکات پیش کرنے پر آمادہ رکھتا تھا، لیکن ایک وسیع و عریض مملکت میں محاصل کی تحصیل کے لئے باقاعدہ ایک نظام کی ضرورت تھی، اس لیے حضور سید عالم ﷺ نے مال زکات کی تحصیل کے لیے محصلین مقرر فرمائے تھے عموما یہ خدمت ہر قبیلے کے سردار کو دی جاتی تھی تاریخ و سیر کی کتابوں میں محصلین اور عاملین‌ِ زکات کے اسما کا شرح و بسط کے ساتھ ذکر ملتا ہے۔
    (4)  جزیہ : غیر مسلم اقلیت یا رعایہ سے ان کے حقوق، جان و مال، آل و اولاد کی حفاظت کے عوض میں لیا جاتا تھا عہد رسالت ﷺ میں ہر مستطیع اور بالغ مرد سے ایک دینار سالانہ وصول کیا جاتا تھا ابھی ہم اس کی مزید تفصیل کریں گے۔
     (5) خراج: ( مال گزاری ) یہ غیر مسلم کاشت کاروں سے زمین کے مالکانہ حق کے عوض میں وصول کیا جاتا تھا اور اس کی صورت یہ تھی کہ آپسی مفاہمت سے زمین کی پیداوار کا حصہ جس قدر طے پاتا تھا وہ ان کے ذمہ واجب الادا ہوا کرتا تھا۔ خیبر ، فدک ، وادی القریٰ وغیرہ سے خراج ہی وصول کیا جاتا تھا اور اس کے ساتھ اس کی سخت تاکید بھی  کی جاتی تھی کہ خراج کی کوئی رقم ظلم و جبر سے نہ وصول کی جائے۔

     جزیہ اور خراج کی آمدنی سپاہیوں کی تنخواہ اور جنگی مصارف میں صرف ہوتی تھی اہل و عیال والے سپاہیوں کو دو حصے اور مجرد ( غیر شادی شدہ ) کو ایک حصہ ملتا تھا۔
     جزیہ ایک طرح سے حفاظتی ٹیکس تھا جو ذمیوں ( غیر مسلم اقلیت ) سے وصول کیا جاتا تھا، لیکن یہ رقم خود ان کی جان و مال کی حفاظت پر خرچ کی جاتی تھی ذمی فوجی خدمات سے مستثنی تھے لیکن بعض ناگزیر حالات میں اگر ان سے فوجی خدمت لی جاتی تھی تو جزیہ کی رقم ان سے وصول نہیں کی جاتی تھی۔ اسی طرح نادار ، بیکس اور معذور ذمی افراد بھی جزیہ کی ادائیگی سے مستثنی تھے اور یہی نہیں کہ ان سے جزیہ کی رقم نہیں لی جاتی تھی بلکہ اسلامی بیت المال سے جو ہر صوبے میں قائم تھے ان کی کفالت بھی کی جاتی تھی اور ان کی ہر طرح کی ضرورت پوری کی جاتی تھی خلافتِ راشدہ بالخصوص عہدِ فاروقی کے بہت سے معاہدوں میں اس کی صراحت ہے کہ جزیہ ذمیوں کی حفاظت کا صرف ایک ٹیکس تھا عہدِ فاروقی میں اہل جرجان سے جو معاہدہ ہوا اس کے  الفاظ یہ ہیں: 
    " ہمارے ذمہ اس شرط پر تمہاری حفاظت ہے کہ تم کو بقدرِ استطاعت سالانہ جزیہ دینا ہوگا اور اگر ہم تم سے مدد لیں گے تو اس کے بدلے میں جزیہ معاف کردیا جائے گا۔"
 
    آذر بائیجان کی فتح میں یہ معاہدہ لکھا گیا : 
     "جو لوگ کسی سال فوج میں کام کریں گے تو اس سال کا جزیہ ان سے نھیں لیا جائے گا."

      اس قسم کی بہت سی مثالیں آپ تاریخ و سیر کی کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں، بلکہ اگر کسی وجہ سے ذمیوں کی حفاظت سے مسلمان معذور ہوگئے تو جزیہ کی وصول شدہ رقم بھی انھیں واپس کردی جاتی تھی، جیسا کہ یرموک کے معرکہ کے سلسلے میں جب مسلمان فوجی ذمیوں کی حفاظت سے معذور ہوگئے تو سپہ سالارِ لشکر حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام اور مفتوحہ علاقوں کے حکام کے نام یہ فرمان صادر کیا کہ جتنا جزیہ وصول ہوچکا ہے سب واپس کردیا جائے۔

    مزید یہ کہ جزیہ کی وصولی میں کسی سختی سے بھی کام نہیں لیا جاتا تھا، شام کے سفر میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک مقام پر دیکھا کہ ذمیوں پر سختی کی جا رہی ہے سبب پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ لوگ جزیہ کی ادائیگی میں آنا کانی کر رہے ہیں اور اس کی وجہ ان کی ناداری ہے جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا: انہیں چھوڑ دو میں نے حضور ﷺ سے سنا ہے کہ لوگوں کو تکلیف نہ دو جو لوگ دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں قیامت میں عذاب دے گا۔ 
    جزیہ کی وصولی میں اس قدر رعایت برتی جاتی تھی کہ اگر کوئی بوڑھا ذمی کام کرنے سے معذور ہوجاتا یا کسی آفت کا شکار ہوجاتا یا دولت مندی کے بعد وہ غریب ہوجاتا اور اس کے اہلِ مذہب اسے خیرات دینے لگتے تو اس کا جزیہ معاف کردیا جاتا تھا اور صرف یہی نہیں کہ معاف کردیا جاتا تھا بلکہ اسے اور اس کی اولاد کو مسلمانوں کے بیت المال سے خرچ بھی دیا جاتا تھا۔
     حاصل یہ ہے کہ جزیہ ایک خالص حفاظتی ٹیکس تھا جو صرف ان کی حفاظت پر خرچ کیا جاتا تھا اور مسلمان بھی اس قسم کی ادائیگی سے مستثنی نہیں تھے بلکہ مسلمانوں کی زکات کی جو مقدار ہوتی تھی وہ جزیہ کی مقدار سے کہیں زیادہ ہوتی تھی؛ لہذا یہ نہ سمجھا جائے کہ اس قسم کے محاصل صرف غیر مسلم اقلیتوں‌ پر ہی عائد تھے بلکہ مسلمان بھی اس کے پابند تھے اس سے برادرانِ وطن اور فرزندانِ اسلام بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ غیر قوموں کے ساتھ اسلام کا طرزِ عمل کس قدر عادلانہ اور مساوات پر مبنی ہے اور اسلام  کس درجہ روا داری کا علم بردار ہے حد تو یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کسی ذمی کو قتل کردیا تو امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس سے قصاص لینے میں دریغ نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ قبیلۂ بکر بن وائل کے ایک مسلمان نے حیرہ کے ایک عیسائی کو قتل کردیا تو آپ نے مسلمان قاتل کو مقتول عیسائی کے ورثہ کے حوالے کردیا اور انہوں نے اسے قصاص میں قتل کردیا اسی طرح ذمیوں کی املاک کو بھی اگر کوئی نقصان پہونچ جاتا تھا تو آپ انہیں اس کا معاوضہ دلاتے تھے اسی طرح انہیں اسلامی مملکت میں ہرطرح کی آزادی بھی حاصل تھی ، بیت المقدس فتح کرنے کے بعد وہاں کے عیسائیوں کے لیے آپ نے جو معاہدہ لکھا اس کے الفاظ یہ ہیں : 
     " یہ وہ امان ہے جو خدا کے بندے امیر المومنین عمر ( رضی اللہ عنہ) نے اہل ایلیا کو دی۔ یہ امان جان ، مال، گرجا، صلیب ، تندرست، بیمار اور ان کے تمام اہلِ مذہب کے لیے ہے ان کے گرجا میں نہ تو سکونت اختیار کی جائے گی نہ ہی وہ ڈھائے جائیں گے اور نہ ان کے احاطے کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا اور نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کمی کی جائے گی، مذہب کے معاملے میں ان پر کوئی جبر نھیں کیا جائے گا۔
    (تلخیص از تاریخ اسلام ، ج:1، از ص: 191 تا 193)
  
  مزید تفصیل کے لیے آپ کتاب الخراج، تاریخ طبری ج: 5 ، فتوح البلدان میں متعلقہ بحث دیکھیے۔
    اس اقتباس سے برادرانِ وطن کو بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ اسلام قومی یک جہتی روا داری،  عدل و مساوات ، اخوت و بھائی چارگی اور ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کا علمبردار ہے اسلام کبھی بھی ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی ناحق قتل و غارت گری،  خوں ریزی اور شر و فساد کی اجازت نھیں دیتا ہے۔
   اتنی وضاحت کے بعد اب ہم سورۂ توبہ کی آیت : 29 کی طرف آتے ہیں اس آیت میں مسلمانوں کو اہل کتاب یہود و نصارٰی کے ساتھ اس وقت تک قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک کہ وہ جزیہ ادا کرنے پر تیار نہ ہوجائیں جیسا کہ یہ اس آیت کے آخری جزء :
مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حَتّٰی یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ عَنۡ ‌یَّدٍ وَّ ھُمۡ صٰغِرُوْنَ       سے ظاہر ہے۔
    اس آیت میں یہود ونصاریٰ سے قتال کی چار معقول وجہیں بیان کی گئی ہیں: 
     (1) یہ لوگ اللہ پر ایمان نھیں لاتے۔
     (2) یہ لوگ قیامت پر ایمان نھیں رکھتے۔
    (3) اللہ و رسول نے جس چیز کو حرام قرار دیا ہے؛ اسے یہ لوگ حرام نھیں مانتے۔
    (4) یہ لوگ دینِ حق کی پیروی نہیں کرتے ۔

     اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی وحدانیت کے ساتھ ہی ساتھ اس کی ذات اور اس کی تمام صفاتِ ثبوتی اور سلبی پر بھی ایمان لایا جائے اور بعض مفسرین نے اللہ پر ایمان لانے میں اس کے رسولوں پر بھی  ایمان لانے کو داخل قرار دیا ہے۔ یہود و نصارٰی اگرچہ اس بات کے مدعی ہیں کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ان کا یہ دعویٰ باطلِ محض ہے اس لیے کہ یہود اللہ تعالیٰ کی جسمیت کے قائل ہیں اور نصارٰی حلول کے معتقد ہیں جیسا کہ یہ اس کے بعد والی آیت: 30 سے ثابت ہے۔
وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُ ابۡنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ ﴿۳۰﴾

    اور یہودی بولے عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی بولے مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ (کنزالایمان)
    یہودی حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا مانتے ہیں اور اس کی وجہ مفسرین نے یہ بیان کی ہے کہ یہودیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بہت سے انبیاء کو قتل کر ڈالا جس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان سے توریت کو اٹھا لیا( ان کے دلوں سے اسے محو کر دیا ) لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے ایک زمانے کے بعد حضرت جبریل امین علیہ السلام کے ذریعہ حضرت عزیر علیہ السلام کو توریت حرف بحرف یاد کرادیا جس کی وجہ سے یہودیوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اللہ تعالیٰ توریت صرف اپنے بیٹے کے سینے  میں ہی القا کرسکتا ہے جیسا کہ تفسیر ابی سعود میں ہے : 
"ماجمع اللہ التوراۃ فی صدرہ وھو غلام الا انہ ابنہ"
[ تفسیر ابی سعود، ج: 4، ص: 59]  
   اور نصارٰی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی پیدائش بغیر باپ کے حضرت مریم علیہا السلام کے گریبان ، آستین یا دامن یا ان کے منہ میں حضرت جبریل علیہ السلام کے دم کرنے سے ہوئی تھی اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کردیتے تھے اور برص جیسے مرضوں سے لوگوں کو اللہ کے حکم سے شفا دیتے تھے جس کی وجہ سے نصارٰی یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ ابن اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے یہ کام محال ہے جیسا کہ تفسیر ابی سعود میں ہے : 
      " وانما قالوہ استحالۃ لأن یکون ولد بغیر اب أو لأن یفعل ما فعلہ من ابراء الاکمہ   و الأبرص و إحیاء الموتیٰ من لم یکن الٰھاً. "

       اسی طرح یہ لوگ آخرت پر بھی ایمان نہیں رکھتے تھے اور وحیِ متلو یا غیر متلو سے جس کی تحریم ثابت ہے اس کو یہ لوگ حرام نہیں مانتے تھے ، حد تو یہ ہے کہ توریت و انجیل میں تحریف کردیتے تھے اور دینِ حق جو دینِ اسلام ہے اور تمام انبیا کے دینوں کے لیے ناسخ ہے ،اس دین کی بھی یہ لوگ پیروی نہیں کرتے تھے، اسی کے ساتھ ہی ساتھ یہ لوگ عہد و پیمان کی بھی پاسداری نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ شر و فساد پر آمادہ رہتے تھے ان سب وجوہات سے ان سے قتال کا حکم دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ رعایت بھی برتی گئی کہ اگر یہ لوگ ایمان لے آئیں یا عدمِ ایمان کی صورت میں جزیہ کی ادائیگی پر آمادہ ہوجائیں  تو ان کے ساتھ کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی اور جزیہ کی ادائیگی کے بدلے میں کما حقہ ان کے حقوق اور جان و مال کی حفاظت کی جائے گی۔

جاری




ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے