Advertisement

معترضہ آیاتِ جہاد معنیٰ و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر ( قسط ہفتم ) از مولانا بدر الدجیٰ مصباحی


معترضہ آیاتِ جہاد

(معنی و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر)


قسطِ ہفتم

تحریر : مولانا بدر الدجیٰ رضوی مصباحی

پرنسپل : مدرسہ عربیہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد، ضلع مئو، یوپی، الہند۔



{8} واقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ وَ اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَ الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِۚ وَ لَا تُقٰتِلُوْهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى یُقٰتِلُوْكُمْ فِیْهِۚ-فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْهُمْؕ-كَذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ
(البقرہ: ۱۹۱)

اور کافروں کو جہاں پاؤ مارو اور انہیں نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا اور ان کا فساد تو قتل سے بھی سخت ہے اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک وہ تم سے وہاں نہ لڑیں اور اگر تم سے لڑیں تو انہیں قتل کرو کافرو کی یہی سزا ہے (کنز الایمان)


{9} وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَآءً فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْهُمْ اَوْلِیَآءَ حَتّٰى یُهَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْهُمْ وَ اقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ لَا تَتَّخِذُوْا مِنْهُمْ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًاۙ
( النسا:۸٩)   

وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ کہیں تم بھی کافر ہوجاؤ جیسے وہ کافر ہوئے تو تم سب ایک سے ہو جاؤ توان میں کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ جب تک اللہ کی راہ میں گھر بار نہ چھوڑیں پھر اگر وہ منہ پھیریں تو انہیں پکڑو اور جہاں پاؤ قتل کرو اور ان میں کسی کو نہ دوست ٹھہراؤ نہ مددگار۔(کنزالایمان)

{10} اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ،وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِؕ،وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖؕ،وَ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
(التوبہ:۱۱۱)      
    
بیشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کے مال اور جان خریدلیے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لیے جنت ہے اللہ کی راہ میں لڑیں تو ماریں اور مریں اس کے ذمۂ کرم پر سچا وعدہ توریت اور انجیل اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ قول کا پورا کون  تو خوشیاں مناؤ اپنے سودے کی جو تم نے اس سے کیا ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔(کنزالایمان)

{11} قَاتِلُوْهُمْ یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَیْدِیْكُمْ وَ یُخْزِهِمْ وَ یَنْصُرْكُمْ عَلَیْهِمْ وَ یَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَۙ
(التوبہ:١٤)         

تو ان سے لڑو اللہ انہیں عذاب دے گا تمہارے ہاتھوں اور انہیں رسوا کرے گا اور تمہیں ان پر مدد دے گا اور ایمان والوں کا جی ٹھنڈا کرے گا۔(کنزالایمان)

        ان چار آیات پر بھی تشدد اور نفرت کو ہوا دینے کا الزام ہے ۔العیاذ باللہ۔ چوں کہ ان چاروں آیات میں قدرے مشترک قتال ہے اس ليے ہم نے اختصار کی غرض سے ان ساری آیات کو اس قسط کے مشمولات میں جمع کردیا ہے۔ ان آیات کے خد و خال، ما لہ وما علیہ پر روشنی ڈالنے سے پہلے ہم برادران وطن اور فرزندان اسلام پر یہ واضح کردیں کہ جب آپ ان آیات کے معنی و مفہوم، شان نزول، سیاق و سباق پر عصبیت سے پرے ہٹ کر دیانت داری کے ساتھ نظر ڈالیں گے تو آپ پر اچھی طرح واضح ہوجاے گا کہ یہ آیات یا تو دشمن کے خلاف دفاع یا نقض معاہدہ کی وجہ سے کفار و مشرکین کے سبق سکھانے کے مفہوم پر مشتمل ہیں ان میں سے کسی  بھی آیت میں اہل ایمان کو بلا وجہ اپنے مدمقابل اور حریف کے خلاف جارحانہ کارروائی، قتل و غارت گری اور ناجائز اقدام کا حکم یا اجازت نہیں دی گئی ہے۔ 
  قرآن مقدس میں بہت سی آیات ایسی ہیں جن کا اپنے ماقبل و مابعد، سیاق و سباق کے ساتھ اتنا گہرا ربط و ضبط ہے کہ جب تک ان کو پیش نظر نہیں رکھ لیا جاتا ان کا مفہوم سمجھنا نہایت مشکل ہے بلکہ بہت سی آیات ایسی ہیں کہ اگر ان کے ماقبل اور مابعد کو ان کے ساتھ نہیں جوڑ لیا جاتا تو عکس مطلوب لازم آۓ گا ۔تقریب فہم کے لیے میں اس کی ایک واضح مثال پیش کرتا ہوں:
‌ یہ کون نہیں جانتا کہ ہر عاقل و بالغ مسلمان پر نماز فرض ہے؟ قرآن و حدیث میں اس کا تاکید کے ساتھ حکم دیا گیا ہے مثلا :
وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ
(البقرہ: 43)

اَقِمِ الصَّلٰوۃَ
 (بنی اسرائیل :78)

حٰفِظُوۡا عَلَی الصَّلَوٰتِ
 (البقرہ: 238)
 اسی طرح احادیث میں بھی اس کی فضیلت و افادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے حتی کہ اسے شرائع دین میں سے قرار دیا گیا ہے۔ اب اگر وسیم رضوی جیسے لوگ قرآن کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوۓ یہ کہیں کہ یہ غلط ہے اللہ کا میسیج دو طرح کا نہیں ہو سکتا ہے لھذا قرآن سے ان آیات کو ڈیلیٹ کر دیا جاۓ کیوں کہ قرآن میں صاف لفظوں میں آیا ہے :
یٰۤاَیُّھَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ
(النساء 43) 
اے ایمان والو نماز کے قریب نہ جاؤ۔ تو برادران وطن یا ہمارے ملک کی عدالت عالیہ (سپریم کورٹ) وسیم رضوی کی شاطرانہ چال کو نہیں سمجھے گی؟ اور آنکھ بند کرکے اس کی بات کا یقین کرلے گی؟ اور یہ فیصلہ سنا دے گی کہ مسلمان اب آج سے نماز کے قریب نہ جائیں اور وسیم رضوی کے کتر بیونت (کاٹ چھانٹ) کا پردہ یہ کہہ کر چاک نہیں کرے گی کہ وسیم رضوی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے اس نے "لا تقربوا الصلوۃ" کے بعد "و انتم سُكٰرٰى  " کو چھوڑ دیا ہے اور پوری آیت یہ ہے :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ
(النساء: 43)  
اے ایمان والو نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ جب تک اتنا ہوش نہ ہو کہ جو کہو اسے سمجھو (کنز الایمان)    
        قرآن فہمی کوئی آسان کام نہیں ہے اس کیلئے توفیق الہی درکار ہے۔

        میری ان باتوں سے آپ یقینا سمجھ گئے ہوں گے کہ یہاں پر دیانت داری کو بالاے طاق رکھ کر بڑی چابک دستی سے کام لیتے ہوۓ اپنے مطلب کا مضمون اخذ کرلیا گیا ہے اور جہاں پر آیت کے سیاق و سباق کو پیش کرنا بے حد ضروری تھا  وہاں پر کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوۓ قطع و برید (کاٹ چھانٹ) سے کام لیا گیا ہے جو دیانت داری کے تقاضے کے سخت خلاف ہے۔ اتنی وضاحت کے بعد اب ہم سیاق و سباق کے ساتھ ان آیات کا صحیح معنی و مفہوم مستند تفاسیر کی روشنی میں آپ کے رو برو کرتے ہیں تا کہ برادران وطن کے ذہن میں ان آیات کے تعلق سے اگر کوئی خلجان پیدا ہو رہا ہے تو وہ بآسانی دور ہوجاۓ. 
       اس قسط میں شامل سورہ بقرہ کی آیت (191) جو اس ساتویں قسط میں سب سے پہلے نمبر پر ہے وہ ماقبل کی آیت :190 سے مربوط ہے اسے جب تک مطمح نظر نہیں رکھا جاۓ گا اس آیت کا مفہوم صحیح طرح نہیں سمجھا جا سکتا ہے ؛لھذا آیت 191 کا مفہوم سمجھانے کیلئے ہم آپ کے سامنے آیت: 190 اور اس کا معنی و مفہوم، شان نزول رکھتے ہیں۔
         آیت مبارکہ :
واقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ
191) سے متصلا پہلے قرآن پاک کی یہ آیت مبارکہ ہے :
وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ وَ لَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ
(البقرۃ:۱۹۰)
اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو اللہ پسند نہیں رکھتا ہے حد سے بڑھنے والوں کو (کنز الایمان)

      اب آپ اس کے بعد آیت: 191 کو اس کے ساتھ جوڑ کر پڑھیں تو وسیم رضوی جو خلجان پیدا کر رہا ہے وہ خود بخود دور ہو جاۓ گا اور آپ پر یہ واضح ہوجاۓ گا کہ اس آیت میں دشمن کے خلاف جارحيت کا حکم نہیں دیا گیا ہے بلکہ دشمن کی جارحيت کے خلاف اہل ایمان کو اپنے دفاع کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ اس آیت میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور اسی کے ساتھ اس پر بھی تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم حد سےآگے نہ بڑھو یعنی تم جنگ میں پہل کر کے یا کسی معاہد کو قتل کر کے یا اچانک حملہ کر کے اور حملہ کرنے کی صورت میں مقتول کا مثلہ (اعضاۓ بدن کو کاٹ کر  الگ کردینا) کر کے اور لڑائی میں اسلام نے جن کے قتل سے باز رہنے کا حکم دیا ہے مثلا عورتیں، بچے، بوڑھے، راہب (تارک الدنیا) وغیرہ کو قتل کر کے تم انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ کرو اور پھر مزید تنبیہ کرتے ہوۓ فرمایا گیا کہ مسلمانو! تم یہ بات ذہن میں جاگزیں کر لو کہ اللہ حد سے آگے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے ۔جیسا کہ تفسیر ابی سعود میں
وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ
 کی تفسیر میں ہے :
 "معناہ الذین یناصبونکم القتال و یتوقع منھم ذلک دون غیرھم من المشائخ والصبیان و الرھبانۃ والنساء" یعنی تم اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑائی کرتے ہیں ان سے لڑائی نہ کرو جو تم سے لڑائی نہیں کرتے ہیں مثلا فلاں فلاں، 
 اور "ولا تعتدوا" کی تفسیر میں ہے: ولا تعتدوا بابتداء القتال او بقتال المعاھد والمفاجاۃ من غیر دعوۃ او بالمثلۃ و قتل من نھیتم عن قتلہ من النساء والصبیان و من یجری مجراھم۔(تفسیر ابی سعود ج 1 ص 204) 
 اور مدارک میں بھی اس کی یہی تفسیر کی گئی ہے۔ اب اس کے بعد اللہ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے حریف تم سے جنگ میں پہل کرتے ہیں، معاہدہ کے باوجود عہد شکنی کرتے ہیں اور تم سے بر سر پیکار ہونا چاہتے ہیں اور کیے ہوۓ عہد کو بالاۓ طاق رکھ کر تم سے جنگ پر آمادہ ہیں تو تم اپنے دفاع میں "واقتلوھم حیث ثقفتموھم" جہاں پاؤ انہیں مارو اور جیسے انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں (مکۃ المکرمہ) سے نکال دیا تھا تم بھی انہیں ان کے گھروں سے دربدر کردو، و غیر ذلک۔ اس سے یہ عیاں ہوگیا کہ اس آیت میں مسلمانوں کو جارحیت اور حقوق انسانی کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف جم کر مقابلہ کرنے اور اپنے دفاع کا حکم دیا گیا ہے جو حق آج کی دنیا میں بھی ہر کسی کو حاصل ہے اور ساری دنیا کی حکومتیں اسی کی داعی اور اسی پر عمل پیرا ہیں اور ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ سورہ بقرہ کی آیت 190،191 کا نزول اس معاہدے کے بعد ہوا جو 6 ھ میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور کفار ومشرکین مکہ کے مابین حدیبیہ کے مقام پر ہوا جسے آج کل "شمیسی" کہا جاتا ہے جو مکہ مکرمہ سے 22 یا 23 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے یہ معاہدہ تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے معاہدے پر عمل کرتے ہوۓ مسلمان حدیبیہ (شمیسی) سے بغیر عمرہ ادا کیے مدینے لوٹ گئے اور معاہدہ کے مطابق جب انہیں آئندہ سال عمرہ کے لیے مکۃ المکرمہ آنا ہوا تو انہیں اندیشہ ہوا کہ مشرکین مکہ اس معاہدے پر عمل نہیں کریں گے اور مسلمانوں سے شہر حرام میں حرم میں جنگ کریں گے جو انہیں ناگوار تھا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ نے انہیں یہ اجازت دی کہ اگر کفار و مشرکین مکہ معاہدے کی پاسداری نہیں کرتے ہیں اور تم سے جنگ میں پہل کرتے ہیں تو تم جہاں پاؤ خواہ حل ہو یا حرم وہاں ان سے جنگ کرو اور جیسے انہوں نے تمہیں تمہارے وطن مکہ سے نکال دیا تھا تم بھی غالب آنے کے بعد وہاں سے انہیں نکال دو البتہ تم اتنا ضرور خیال رکھنا کہ مسجد حرام (حرم) میں ان سے اس وقت تک جنگ نہ کرنا جب تک کہ وہ تم سے وہاں جنگ نہ کریں۔
  (آیت نمبر 191 میں اللہ تعالی نے در پردہ مسلمانوں کو فتح مکہ کی بشارت دی ہے) 
         اتنی وضاحت کے بعد اب آپ کے ذہن میں یہ بات آگئی ہوگی کہ اس آیت میں مسلمانوں کو ہرگز ہرگز یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ برادران وطن کو بلا وجہ جہاں پائیں ماریں اور انہیں ان کے گھروں اور ملک سے دربدر کردیں جیسا کہ وسیم رضوی یا اسلام اور مسلم دشمن عناصر اس آیت کا یہی مفہوم بیان کرکے ملک میں آگ لگانے کے درپے ہیں۔
(9) وَدُّوۡا لَوۡ تَکۡفُرُوۡنَ کَمَا کَفَرُوۡا    الی آخر الآیۃ (النساء: 89)
 سورہ نساء کی اس آیت کا بھی تعلق ماقبل کی آیت نمبر :88 سے ہے جو یہ ہے :

فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْاؕ،اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُؕ،وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
(النساء:۸۸)     
تو تمہیں کیا ہوا کہ منافقوں کے بارے میں دو فریق ہوگئے اور اللہ نے انہیں اوندھا کردیا ان کے کوتکوں کے سبب کیا یہ چاہتے ہو کہ اسے راہ دکھاؤ جسے اللہ نے گمراہ کیا اور جسے اللہ گمراہ کرے تو ہرگز تواس کے لیے کوئی راہ نہ پائے گا۔(کنز الایمان)
          اس کا شان نزول یہ ہے کہ منافقین کی ایک جماعت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی اجازت سے جہاد کے لیے نکلی اور ابھی کچھ ہی دور گئی تھی کہ غداری کرتے ہوۓ مشرکین سے جا ملی ان کے بارے میں مسلمانوں کے مابین اختلاف راۓ ہو گیا بعض لوگوں نے کہا کہ یہ کافر ہیں اور بعض نے کہا مسلمان ہیں اس وقت سورہ نساء کی  آیت نمبر 88 کا نزول ہوا جس میں مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا کہ ان کے بارے میں اختلاف راۓ نہ کریں ان کے ارتداد اور کفار و مشرکین کے ساتھ جا ملنے کے سبب اللہ نے انہیں اوندھا کر دیا ہے جیسا کہ مدارک میں ہے : 
ان ذلک قوما من المنافقین استاذنوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الخروج الی البدو معتلین باجتواء المدینۃ فلما خرجوا لم یزالوا راحلین مرحلۃ مرحلۃ حتی لحقوا بالمشرکین فاختلف المسلمون فیھم فقال بعضھم: ھم کفار، و قال بعضھم: ھم مسلمون
  (مدارک الجزء الاول ص 241 مطبع اصح المطابع ممبئی) 
          اس سے متصلا بعد ہی سورہ نساء کی آیت نمبر 89 میں انہیں منافقین کے بارے میں اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے کہ جو منافقین ایمان چھوڑ کر کفر و ارتداد کی طرف پلٹ گئے ہیں ان کی خواہش ہے کہ جیسے وہ اسلام سے پھر گئے ہیں مسلمان بھی اسلام سے پھر جائیں پھر وہ اور مسلمان کفر میں برابر ہوجائیں۔ ان کے نفاق اور غداری کی وجہ سے ہی اللہ نے مسلمانوں کو اس آیت میں یہ حکم دیا کہ وہ ان میں سے کسی کو اس وقت تک اپنا دوست نہ بنائیں جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں اور اپنے ایمان کا ثبوت نہ دے دیں کہ ان کا ایمان اللہ و رسول کی رضا کے لیے ہے کسی دنیوی منفعت کے لیے نہیں ہے پھر اگر وہ ہجرت کرنے سے منہ پھیریں اور کفر پر قائم رہنے کو اختیار کریں تو اے مسلمانو!تم انہیں پکڑو اور جہاں پاؤ قتل کرو اور اگر وہ تمہاری دوستی کا دعوی کریں اور دشمنوں کے خلاف تمہاری مدد کے لیےتیار ہوں تو ان کی مدد قبول نہ کرو کیوں کہ یہ بھی تمہارے دشمن ہیں 
  ( روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۲۵۶، خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۸۹  ، ۱ / ۴۱۱  ، ملتقطاً )

        اس آیت میں پیٹھ میں خنجر گھونپنے والے منافقین سے مسلمانوں کو جو قتال کا حکم دیا گیا ہے آج ساری دنیا اسی پر عمل پیرا ہے آج بھی قوم اور ملک سے غداری کرنے والوں کی یہی سزا ہے کہ انہیں تختۂ دار پر چڑھا دیا جاۓ
(10) سورہ توبہ کی آیت: 111 میں اللہ تعالی نے نہایت نفیس پیرایہ بیان  میں مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی ہے اور اسے اس انداز سے بیان کیا ہے کہ مسلمانوں  کی جان و مال کو مبیع (فروخت کی جانے والی چیز) اور جنت کو ثمن (قیمت) سے تعبیر کیا ہے اور کمال لطف و کرم کا مظاہرہ کرتے ہوۓ مسلمانوں کو بائع اور اپنے آپ کو خریدار بنایا ہے اور ایسی چیز کا خریدار بنایا ہے جو خود اس کی عطا کردہ اور پیدا کردہ ہے اور اس سودے پر مسلمانوں سے فرماتا ہے کہ تم خوشی پر خوشی مناؤ کیوں کہ تم نے فانی چیز کو باقی چیز کے بدلے میں فروخت کیا ہے۔ اور اس آیت میں
وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًا فِی التَّوْرَاۃِ وَ الاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْآنِ         اس پر دلالت کرتا ہے کہ اعلاء کلمہ حق کیلئے جہاد صرف اسی شریعت میں نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے کی شریعتوں میں بھی تھا

(11) قاتلوھم یعذبھم اللہ  الی آخر الآیۃ"
سورہ توبہ کی اس آیت میں اللہ تعالی نے عہد و پیمان کی پامالی کرنے والے کفار و مشرکین عرب کے ساتھ مسلمانوں کو قتال کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ اس سے پہلے کی آیت نمبر: 13  اس پر دلیل ہے:
اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ وَ هَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَ هُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍؕ-اَتَخْشَوْنَهُمْۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
(التوبہ:۱۳)     
کیا اس قوم سے نہ لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑیں اور رسول کے نکالنے کا ارادہ کیا حالاں کہ انہیں کی طرف سے پہل ہوئی ہے کیا ان سے ڈرتے ہو تو اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو(کنز الایمان)
ماقبل میں بار بار اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ سورہ توبہ کی بیشتر آیات میں مسلمانوں کو جن کفار و مشرکین سے قتال کا حکم دیا گیا ہے وہ عام کفار و مشرکین نہیں ہیں بلکہ اس سے وہ کفار و مشرکین عرب اور یہود مراد ہیں جنہوں نے معاہدۂ امن کی خلاف ورزی کی۔

جاری



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے