Advertisement

معترضہ آیاتِ جہاد معنیٰ و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر ( قسط ششم ) از مولانا بدر الدجیٰ مصباحی


معترضہ آیاتِ جہاد

(معنی و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر)


قسطِ ششم

تحریر : مولانا بدر الدجیٰ رضوی مصباحی

پرنسپل : مدرسہ عربیہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد، ضلع مئو، یوپی، الہند۔



(5) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
( التوبہ ۲۳)
اے ایمان والو اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو اگر وہ ایمان پر کفر پسند کریں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی کرے گا تو وہی ظالم ہیں ۔ (کنز الایمان)

(6) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ ﳕ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
( المائدہ ۵۱)
اے ایمان والو یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بیشک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا۔(کنز الایمان)

(7) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ الْكُفَّارَ اَوْلِیَآءَۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
(المائدہ ۵۷)
اے ایمان والو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنا لیا ہے وہ جو تم سے پہلے کتاب دئے گئے اور کافر ان میں کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اگر ایمان رکھتے ہو۔ (کنز الایمان)
         ان آیات کو بھی وسیم رضوی نے اپنی عرضی میں یہ نوٹ لگا کر پیش کیا ہے کہ یہ آیات ملک میں نفرت اور تشدد کو ہوا دیتی ہیں (العیاذ باللہ)

        ان آیات میں چوں کہ منہی عنہ (جس سے روکا گیا ہے) مشترک ہے اس لئے ہم نے اس قسط میں ایک ساتھ ان تینوں آیات کو شامل کرلیا ہے تا کہ جواب کا بار بار اعادہ نہ کرنا پڑے ان آیات میں اللہ تبارک و تعالی نے اہل ایمان کو یہود و نصاری، کفار و مشرکین اور مرتدین سے موالات (دوستی) سے منع فرمایا ہے اور ان سے دوستی رکھنے والوں پر اپنی سخت ناراضگی اور برہمی کا بھی اظہار کیا ہے لیکن اس پر روشنی ڈالنے سے پہلے ہم اسلام دشمن عناصر پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے یہ انسانوں کی زندگی سے کھلواڑ کرنے کے لیے نہیں آیا ہے بلکہ انسانی زندگی کو بنانے، سنوارنے اور اسے نوع بنوع ترقیات سے ہمکنار کرکے درجہ کمال پر فائز کرنے کے لیے وجود میں آیا ہے   لہذا یہاں پر وسیم رضوی اور اسلام دشمن عناصر کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ان آیات میں یہود و نصاری، کفار و مشرکین اور مرتدین سے دوستی رکھنے سے منع کیا گیا ہے لیکن ان سے معاملات یعنی خرید و فروخت، لین دین، اٹھنے بیٹھنے، مل جل کر زندگی بسر کرنے اور دیگر دنیوی معاملات سے منع نہیں کیا گیا ہے لہذا قرآن پر نفرت اور تشدد کو ہوا دینے کا الزام لگانے والے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ موالات (دوستی) اور معاملات دو الگ الگ چیزیں ہیں دونوں میں سے کوئی بھی کسی کے لیے لازم اور ملزوم نہیں ہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ کسی سے زندگی بھر آپ کے معاملات ہوں، لین دین ہو، اٹھنا بیٹھنا ہو مگر اس سے براۓ نام بھی آپ کی دوستی اور تعلق خاطر نہ ہو اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی سے آپ کی دوستی ہو، محبت ہو، دلی وارفتگی اور لگاؤ ہو لیکن زندگی بھر آپ کا اس سے کوئی بھی لین دین، مدارات اور معاشرت نہ ہو اس سے یہ واضح ہو گیا کہ دوستی کے لیے معاملات لازم ہیں نہ ہی معاملات کے لیے موالات اور دوستی لازم ہے۔ موالات اور دوستی الگ چیز ہے اور معاملات اور معاشرت الگ چیز ہے۔ اللہ تعالی نے ان آیات میں یہود و نصاری، کفار و مشرکین اور مرتدین کے ساتھ دوستی سے منع فرمایا ہے ان کے ساتھ معاملات رکھنے اور معاشرت سے منع نہیں کیا ہے اور موالات (قلبی دوستی) سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ضرورت سے زیادہ تعلق خاطر رکھنے، ان کو دل میں بٹھانے یا ان کے دل میں بیٹھ جانے سے مسلمان اپنا دین و ایمان ہی گنوا بیٹھیں اور ان کی محبت میں گرفتار ہوکر اپنا قومی اور ملی راز ہی ان کو دے بیٹھیں اور اسلام سے پھر جائیں جیسا کہ وسیم رضوی آج اس کی زندہ مثال ہے یہ ان سے موالات اور قلبی لگاؤ کا ہی کرشمہ ہے کہ اس نے اللہ و رسول کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے اور خلفاۓ ثلاثہ پر الزام لگا رہا ہے اور اپنے دین و ایمان سے مرتد ہوکر یہود و نصاری کی گود میں بیٹھ کر ان کی زبان بول رہا ہے دنیا کو یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے   کہ اسلام قومی یکجہتی کو فروغ دینے، برادران وطن کے ساتھ حسب ضرورت اٹھنے بیٹھنے، مل جل کر زندگی بسر کرنے اور ان کے ساتھ کار و بار تجارت کرنے اور کرانے یا ان کے ساتھ مل کر رفاہ عام کا کوئی کام کرنے کا مخالف نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ موالات (دوستی) سے مانع ہے اور یہ صرف اسلام ہی نہیں بلکہ خود ہمارے اور دیگر ممالک کا آئین بھی اس کا داعی ہے کہ کسی بھی دشمن ملک کے ساتھ اس حد تک دوستی نہ کی جاۓ کہ اپنا قومی اور ملکی راز ان پر ظاہر کردیا جاۓ ان کے ساتھ تعلق بنانے میں اس حد تک آگے نہ جایا جاۓ کہ اپنی فوجی، عسکری اور دیگر رازدارانہ سرگرمیاں ان پر ظاہر کرکے ملک کی سکیورٹی کو ہی داؤ پر لگا دیا جاۓ اور شہریوں کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کیا جاۓ اور اگر کوئی اس کا مرتکب ہوتا ہے تو اس پر ملک سے غداری کی دفعات عائد کرکے مقدمہ چلایا جاتا ہے اور اسے تختہ دار پر چڑھا دیا جاتا ہے تاکہ اوروں کے لیے یہ سامان عبرت اور نصیحت ہو۔

         ہم نے ماقبل میں جو کچھ بیان کیا ہے اب ہم اس پر کچھ شواھد پیش کرتے ہیں: جب سورہ ممتحنہ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں، مثلا :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِیَآءَ
( الممتحنہ 1 ) 
اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ (کنز الایمان) 
تو اہل ایمان نے اپنے اہل قرابت سے عداوت رکھنے میں تشدد سے کام لیا اور اس معاملہ میں ان سے بہت سخت ہوگئے تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی (خزائن العرفان).  

لَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ لَمْ یُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَ تُقْسِطُوْۤا اِلَیْهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ
( الممتحنۃ ۸) 
اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا ہے جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ برتو بیشک انصاف والے اللہ کے محبوب ہیں (کنز الایمان)
         اس آیت کی تفسیر کے تحت صاحب تفسیر ابی سعود فرماتے ہیں: ای لا ینھاکم عن البر بھولاء فان قولہ تعالی (ان تبروھم) بدل من الموصول (و تقسطوا الیھم) ای تفضوا الیھم بالقسط ای العدل (ان اللہ یحب المقسطین) ای العادلین۔ (تفسیر ابی سعود ج 8 ص 238)۔
         جس کا حاصل یہ ہے کہ جن لوگوں نے تمہارے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں کیا ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے دربدر نہیں کیا ہے اللہ تمہیں ان کے ساتھ بھلائی، حسن سلوک اور عادلانہ برتاؤ سے منع نہیں کرتا ہے 
         اسی طرح اس آیت کی تفسیر میں صاحب مدارک فرماتے ہیں : تکرموھم و تحسنوا الیھم قولا و فعلا" (مدارک، الجزء الثالث ص 248 مطبع جاملی محلہ ممبئی نمبر 3) 
         اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ جن لوگوں نے تم پر زیادتی نہیں کی ہے تم ان کی عزت کرو اور ان کے ساتھ قولا و فعلا بھلائی اور احسان کرو پھر اس کے بعد فرق بیان کرتے ہوۓ اللہ تعالی نے فرمایا :
اِنَّمَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ اَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ وَ ظٰهَرُوْا عَلٰۤى اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْۚ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
(ایضا ۹) اللہ تمہیں ان سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں لڑے یا تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا یا تمہارے نکالنے پر مدد کی کہ ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی ستمگار ہیں (کنز الایمان) 
         اب ہم فتاوی رضویہ شریف سے کچھ حوالے نقل کرتے ہیں کہ سیدی امام احمد رضا قدس سرہ کی تحقیق ہمارے لئے حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے ۔
         امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ آیات ممتحنہ میں بر و معاملات سے کیا مراد ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوۓ فرماتے ہیں: اس تحقیق سے روشن ہوا کہ "کریمہ لا ینھاکم" میں بر سے صرف اوسط مراد ہے کہ اعلی (موالات کی قسم اعلی،رکون،وداد، اتحاد، انقیاد، تبتل) معاہد سے بھی حرام اور ادنی (موالات کی قسم ادنی مثلا معاملات، مدارات) غیر معاہد سے بھی جائز اور آیت فرق کے لیے اتری ہے نیز ظاہر ہوا کہ "کریمہ انما ینھاکم" میں "لا تولوھم" سے یہی بر و صلہ مراد ہے تاکہ مقابلہ اور فرق فریقین ظاہر ہو۔ لاجرم تفسیر معالم اور تفسیر کبیر میں ہے: ثم ذکر الذین ینھاھم عن صلتھم فقال انما ینھاکم اللہ الآیہ۔ پھر اللہ تعالی نے ان لوگوں کا بیان فرمایا جن سے نیک سلوک کی ممانعت ہے کہ فرمایا اللہ تمہیں ان سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں لڑیں۔ (فتاوی رضویہ شریف ج 14 ص 469 مطبع مرکز اہل سنت برکات رضا پوربندر گجرات) 
         پھر سیدی امام احمد رضا قدس سرہ ایک دوسرے مقام پر مولانا سید سلیمان اشرف بہاری پروفیسر دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ قدس سرہ کے ایک سوال کے جواب میں موالات کی حقیقی اقسام اور ان کا حکم بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں: اور معاشرت بضرورت و مجبوری جائز ورنہ حرام اور جواز مدارات کے لیے ضرورت اور مجبوری درکار نہیں مصلحت ہی کافی ہے یہ اقسام موالات میں ان سب سے خارج معاملہ ہے یہ ہر کافر سے ہر وقت جائز ہے مگر مرتدین سے، واللہ اعلم" (فتاوی رضویہ شریف، ج 6 ص 110. مطبع رضا اکیڈمی ممبئی ).  

       اب ہم اختصار کے ساتھ اس قسط کی آیات کا شان نزول بیان کریں گے۔ سورہ توبہ کی آیت 23 میں جمیع اہل ایمان کو مخاطب بتاتے ہوۓ یہ فرمایا گیا کہ کفار و مشرکین سے موالات نہ کریں اور یہ آیت مہاجرین کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب مکہ کے حالات انتہائی جاں گسل ہوگئے تو صحابہ کو ہجرت کرجانے کا حکم دیا گیا اس پر بعض لوگوں نے یہ کہا کہ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ انسان اپنے ماں باپ، بھائی بہن، عزیز و اقارب، زمین و جائداد، اور گھر بار کو چھوڑ کر ترک وطن کرجاۓ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جیسا کہ تفسیر ابی سعود میں ہے: والآیۃ نزلت فی المہاجرین لما امروا بالہجرۃ فقالوا  الی آخرہ (تفسير ابی سعود، ج 4 ص 54)
       جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے اللہ و رسول کے حکم پر اتنی سختی کے ساتھ عمل در آمد کیا کہ ان کے پاس ان کے عزیز و اقارب آتے لیکن وہ ان پر کوئی توجہ نہ دیتے نہ انہیں پاس ٹھہراتے نہ ان پر کچھ خرچ کرتے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو مرتد ہوکر مکہ لوٹ گئے تھے (ایضا)
       سورہ مائدہ کی آیت 51 میں علی سبیل التغلیظ اہل ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ یہود و نصاری کے ساتھ دوستی اور موالات یعنی ان کی مدد کرنا اور ان سے مدد چاہنا اور ان سے قلبی روابط رکھنا منع ہے یہ حکم عام ہے اگر چہ اس کا نزول حضرت عبادہ بن صامت صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عبد اللہ بن ابی ابن سلول منافقین کے سردار کے بارے میں نازل ہوئی ہے تفصیل تفسیر میں موجود ہے۔  

       سورہ مائدہ کی آیت 57 رفاعہ بن زید ، اور سوید بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے پہلے اپنا اسلام ظاہر کیا پھر انہوں نے منافقت کی کچھ مسلمان ان کی منافقت کے باوجود ان سے قلبی لگاؤ رکھتے تھے تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی جیسا کہ مدارک میں ہے: و روی ان رفاعۃ بن زید و سوید ابن الحارث قد اظھر الاسلام ثم نافقا و کان رجال من المسلمین یوادونھما فنزل (الجزء الثانی، ص 290 مطبع اصح المطابع ممبئی)

جاری




ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے