Advertisement

معترضہ آیاتِ جہاد معنیٰ و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر ( قسط پنجم ) از مولانا بدر الدجیٰ مصباحی


 معترضہ آیاتِ جہاد

(معنی و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر)


قسطِ پنجم

تحریر : مولانا بدر الدجیٰ رضوی مصباحی

پرنسپل : مدرسہ عربیہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد، ضلع مئو، یوپی، الہند۔


(4) اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِنَا سَوۡفَ نُصۡلِیۡھِمۡ نَارًا ؕ کُلَّمَا نَضِجَتۡ جُلُوۡدُھُمۡ بَدَّلۡنٰھُمۡ جُلُوۡدًا غَیۡرَھَا لِیَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا. [ النساء، آیت:56]

 جنھوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا عنقریب ہم ان کو آگ میں داخل کریں گے ، جب کبھی ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں انھیں بدل دیں گے کہ عذاب کا مزہ لیں ، بےشک اللہ غالب حکمت والا ہے.( کنز الایمان)
    سورہ نسا کی یہ آیت مبارکہ آیاتِ وعید میں سے ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے منکرینِ آیاتِ الہی پر وعید قائم کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم انھیں جہنم میں داخل کریں گے۔
‌‌     اس کی تشریح سے پہلے ہم آپ کو یہ بتا دیں کہ اس کا تعلق ماقبل کی آیات سے ہے لھذا ہم ماقبل کی آیات پر ایک سرسری نظر ڈال لیتے ہیں۔
      اس سے پہلے آیت نمبر : 51 ہے ، جس کا شانِ نزول یہ بتایا گیا ہے کہ ستر افراد پر مشتمل یہودیوں کا ایک وفد قریشِ مکہ سے ملاقات کے لیے مدینہ سے مکہ پہنچا جس کی قیادت حی بن اخطب اور کعب بن اشرف جیسے سرکردہ علمائے یہود کر رہے تھے اس وفد کا مقصد حضورﷺ کے خلاف جنگ میں قریش مکہ کو اپنا حلیف بنانا اور اس معاہدے کو پامال کرنا تھا جو حضور ﷺ اور یہود کے مابین طے پایا تھا جس پر ہم نے اپنی چوتھی قسط میں روشنی ڈالی ہے، جب ان کے مابین بات چیت شروع ہوئی تو قریش مکہ نے ان سے کہا کہ تم اہل‌ِ کتاب ہو اور ہمارے لحاظ سے محمد (ﷺ) کے زیادہ قریب ہو لھذا ہم تمھاری باتوں پر بآسانی بھروسہ نہیں کرسکتے تاہم اگر تم ہمارے معبودوں کو سجدہ کرکے ہمیں اطمینان دلا دو تو ہم تم پر اعتماد کرسکتے ہیں اور محمد ( ﷺ ) کے خلاف جنگ میں تمھیں اپنا حلیف بنا سکتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مقصد برآری کے لیے یہود بتوں کے آگے سر بسجود ہوگئے، عیاری و مکاری ان کی سرشت میں داخل تھی؛ اس لیے انھیں ابلیس کی اطاعت کرنے میں دیر نہیں لگی، پھر ابو سفیان جو اس وقت اسلام نہیں لائے تھے؛ ان سے مخاطب ہوئے اور کعب بن اشرف سے سوال کیا کہ تم تو اہل کتاب اور صاحبِ علم ہو اور ہم تمہارے مقابلے میں گنوار ہیں تم بتاؤ کہ ہم سیدھی راہ پر ہیں یا محمد (ﷺ) اور ان کے اصحاب؟ کعب بن اشرف نے کہا : محمد(ﷺ) تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں ؟ ابو سفیان نے کہا کہ : وہ ہمیں  صرف ایک خدا کی عبادت کا حکم دیتے ہیں اور سیکڑوں خداؤں کی عبادت سے منع کرتے ہیں کعب بن اشرف نے ابو سفیان سے پوچھا کہ : تمہارا دین کیا ہے ؟ جس کے جواب میں ابو سفیان نے اپنے دین اور معمولات بتاے۔
 کعب بن اشرف نے برجستہ کہا : "انتم اھدیٰ سبیلا" [ تفسیر ابی سعود، ج: 2، ص:189] تم ہی سیدھی راہ پر ہو۔ 
‌     آیت نمبر: 52، 53 میں اللہ تعالیٰ نے اس فعل پر یہودیوں کی توبیخ کی ہے اور فرمایا ہے کہ : اگر زمین پر ان کو اقتدار اور فرماں روائی حاصل ہو جائے اور یہ زمین کے سیاہ و سفید کے مالک بن جائیں؛ تو دیگر لوگوں کو یہ بے دخل کردیں اور انھیں رہائش اور سکونت کے لیے ایک تل کے برابر بھی جگہ نہ دیں ،آج فلسطینیوں کے ساتھ یہودی جو ظالمانہ سلوک کررہے ہیں وہ دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔

     آیت نمبر: 54، میں یہودیوں کی گندی جبلت اور سرشت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ ان لوگوں پر حسد کرتے ہیں ؛ جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم کی بارش کی ہے، بالخصوص یہ حضور ﷺ اور دیگر اہل ایمان سے کڑھتے ہیں اور ان سے قلبی رنجش اور عداوت رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انھیں جو نبوت و نصرت، غلبہ اور عزت عطا فرمائی  ہے اس سے یہ جلتے ہیں۔
   پھر آیت نمبر : 55 میں فرمایا گیا کہ :  پھر یہود میں سے کچھ لوگوں نے ایمان و اسلام کی طرف پیش قدمی کی اور عقیدۂ توحید اور حضور ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لے آئے مثلا: حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھ والے  رضی اللہ تعالی عنہم اور کچھ لوگوں نے منہ پھیر لیا مثلا: کعب بن اشرف اور حی بن اخطب وغیرھما خذلھم اللہ۔
     اب اس کے بعد ہم سورۂ نسا کی آیت: 56 کی طرف آتے ہیں جس پر وسیم رِ ضوی نے اعتراض کیا ہے اور اسے اپنی پیٹیشن میں داخل کیا ہے اور وائرل ویڈیو میں اس نے اس کا ترجمہ پیش کیا ہے۔
        آیت مبارکہ: "ان الذین کفروا بآیاتنا" میں دو احتمال ہیں: 
     (1) اس سے عہد رسالت کے کفار مراد ہیں مثلاً : یہود و نصارٰی اور دیگر کفار و مشرکینِ عرب 
     (2) اولین و آخرین کفار مراد ہیں مثلاً: ماقبلِ عہدِ رسالت، عہد رسالت، ما بعد عہدِ رسالت 
     پہلی تقدیر پر آیات سے آیاتِ قرآن، حضور ﷺ کے جملہ معجزات، آپ سے صادر تمام ارشادات، احکام و قوانین مراد ہیں اور دوسری صورت میں آیات سے چار مشہور آسمانی کتابیں مثلا : توریت ، انجیل، زبور ، قرآن اور ایک سو کی تعداد میں غیر مشہور صحیفے مراد ہیں حضرت آدم علیہ السلام پر دس، حضرت شیث علیہ السلام پر پچاس حضرت ادریس علیہ السلام پر تیس حضرت ابراہیم علیہ السلام پر دس جیسا کہ مرقاۃ المفاتیح میں ہے: 
     "الکتب المنزلۃ مأۃ و اربع کتب، منھا: عشر صحائف نزلت علی آدم و خمسون علی شیث و ثلاثون علی ادریس و عشرۃ علی ابراھیم و الاربعۃ السابقۃ و افضلھا القرآن۔ [ مرقاۃ المفاتیح، ج: 1، ص: 117]

     اور وہ تمام معجزات شواہد و احکام مراد ہیں جو گزشتہ تمام انبیا و رسل کو عطا کیے گئے ہیں جیسا کہ تفسیر ابی سعود میں اس آیت کے تحت ہے : 
       "ان ارید بھم الذین کفروا برسول اللہ ﷺ فالمراد بالآیات إما القرآن أو ما يهم كله و بعضه أو ما يعم سائر معجزاته أيضا الخ" [تفسیر ابی سعود ج: 2،ص: 191]
      اس تو ضیح و تشریح کے بعد اب ہم آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ  نے اس آیتِ مبارکہ میں تمام منکرینِ آیات کی زجر و تو بیخ کی ہے اور ان پر وعید کی ہے  اور یہ فرمایا ہے کہ : جنہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا عنقریب ہم ان کو آگ میں داخل کریں گے ، جب کبھی ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں انہیں بدل دیں گے کہ عذاب کا مزہ لیں ، بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے.( کنز الایمان)
        اس کا مطلب یہ ہے کہ  وہ جلی ہوئی کھال نئی کھال سے بدل دی جاۓ گی جو شکل و صورت میں پہلی کھال سے الگ ہوگى، لیکن ازروئے مادہ کے وہ وہی کھال ہوگی یعنی صرف وصف میں تبدیلی ہوگی مادہ وہی رہے گا ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
 "یبدلون جلودا بیضاء کامثال القراطیس۔" (تفسیر ابی سعود ایضا) 
     ان کی سیاہ کھال کاغذ کے مانند سفید کھال سے بدل دی جاۓ گی یا پھر گوشت سے ہی نئی کھال نکل آۓ گی جیسا کہ دنیا میں جب جلد جل جاتی ہے تو علاج و معالجہ کے بعد کچھ ہی دنوں میں نئی جلد نکل آتی ہے ،کھال میں تبدیلی کا عمل اس لیے ہوگا تاکہ قوت احساس ان کے اندر ختم نہ ہونے پاے اس لیے کہ تعذیب و تنعیم بغیر احساس کے بے معنی ہیں ،اس طرح وہ مسلسل آیات الہی کے انکار کا مزہ چکھتے رہیں گے ۔العیاذ باللہ۔
         اس آیت میں رب ذوالجلال نے جو وعید قائم کی ہے وہ فطرت کے تقاضے کے عین مطابق ہے ظاہر ہے جو آیات الہی کا منکر ہو، اس کے وضع کردہ قوانین کے خلاف علم بغاوت بلند کرے، اس کی بتائی ہوئی روش پر نہ چلے اس کے بھیجے ہوۓ نبیوں اور رسولوں کی تکذیب اور ان کے خلاف سازش کرے ان کے قتل کے منصوبے بناۓ اللہ کی عبادت کے بجاۓ اپنے ہاتھوں کے تراشیدہ بتوں کی پرستش کرے ،وہ بت جو پرستش کرنے کی صورت میں اپنے پجاریوں کو کوئی نفع نہیں دے سکتے اور  پرستش نہ کرنے کی صورت میں انہیں کوئی ضرر بھی نہیں پہونچا سکتے حتی کہ وہ خود اپنی بھی حفاظت نہیں کر سکتے اللہ فرماتا ہے: "مَا لَا یَضُرُّهٗ وَ مَا لَا یَنْفَعُهٗ "(الحج/١٢) 
ایسے منکرین کو اللہ تو سزا دے گا ہی اور یہ  دنیاوی حکومتوں کا بھی نظام ہے مثلا ہمارے ہی ملک میں آپ دیکھ لیں جزا اور سزا کا عمل جاری ہے جو بھی ملکی قوانین کا احترام نہیں کرتا ہے اسے سزا کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور جیسا جرم ہوتا ہے اسی کے اعتبار سے ملک کی آئینی دفعات میں اس کی سزا کا التزام بھی کیا گیا ہے ،اگر کوئی ملک کے خلاف علم بغاوت بلند کرتا ہے اور غداری کا مرتکب ہوتا ہے تو ہمارے آئین میں اس کیلۓ عمر قید یا پھانسی کی سزا کا التزام کیا گیا ہے جیسا جرم ویسی سزا ۔کما تدین تدان۔
        اور ایسا نہیں ہے کہ قرآن میں صرف کفار و مشرکین کے لیے  ہی وعید کی گئی ہے، بلکہ عصاۃ(گنہ گار) مومنین کیلۓ بھی قرآن میں وعیدات آئی ہیں وسیم رضوی کو یہ آیات تو قرآن میں نظر آگئیں لیکن ان آیات پر اس کی نظر نہیں پڑی جن میں بے نمازی مسلمانوں کے دردناک عذاب کو بیان کیا گیا ہے اور ان کی سخت زجر و توبیخ کی گئی ہے مثلا یہ آیت مبارکہ:
فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَۙ(۴)الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَۙ(۵) الخ
(الماعون ٤،٥) 
تو ان نمازیوں کے لئے خرابی ہے۔ جو اپنی نماز سے غافل ہیں ۔(کنز الایمان) 
(ویل جہنم کی اس وادی کا نام ہے جس کی سختی سے جہنم بھی پناہ مانگتا ہے) 
اسی طرح قرآن پاک کی یہ آیت : فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ الخ (مریم ٥٩) 
تو ان کے بعد وہ نالائق لوگ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غی سے جاملیں گے (کنزالایمان)
 (غی جہنم کی ایک گرم نہر یا جہنم کی ایک وادی ہے)
 اسی طرح قرآن پاک کی یہ آیت جس میں مانعین زکوۃ کیلئے نہایت سخت وعید آئی ہے:
 وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ الخ (التوبہ ٣٤،٣٥) اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوش خبری سناؤ ۔جس دن وہ مال جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں اور ان کے پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا) یہ وہ مال ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کر رکھا تھا تو اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو۔ 
اس طرح کی بہت سی آیات ہیں ہم نے یہاں بطور نمونہ صرف تین آیات کو ذکر کیا ہے۔

     ان آیات سے معلوم ہوا کہ قرآن میں مومنین اور کفار دونوں کے لیے وعیدات آئی ہیں لھذا اسلام دشمن عناصر کو ان آیات پر بھی نظر رکھنی چاہیے جن میں مومنین کے لیے بھی وعیدات کا ذکر ہے۔ قرآن مقدس میں جیسا جرم ویسی سزا کا فارمولہ پیش کیا گیا ہے۔

جاری




ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے