Advertisement

معترضہ آیاتِ جہاد معنیٰ و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر ( قسط چہارم ) از مولانا بدر الدجیٰ مصباحی


معترضہ آیاتِ جہاد

(معنیٰ و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر)


قسطِ چہارم


 

تحریر : مولانا بدر الدجیٰ رضوی مصباحی

پرنسپل : مدرسہ عربیہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد، ضلع مئو، یوپی، الہند۔


(3) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةًؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ(۱۲۳)
   
اے ایمان والو! ان کافروں سے جہاد کرو جو تمہارے قریب ہیں اور وہ تم میں سختی پائیں اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔(کنز الایمان)   
     
    ابھی حال ہی میں وسیم رضوی کا نیا ویڈیو وائرل ہوا ہے اس میں اس نے سپریم کورٹ میں پیش کردہ چھبیس آیات میں سے 6/آیات کا الٹا سیدھا ترجمہ نہایت ہی غیظ و غضب اور دیدہ دلیری کے ساتھ پڑھ کر سنایا ہے جس میں سے پہلی آیت : فاذا انسلخ الاشھر الحرم  الخ کا جواب ہم اپنی دوسری قسط میں دے چکے ہیں۔ اس آیت میں "اشھر حرم" کا ترجمہ اس ناخلف نے رمضان کے مہینے سے کیا ہے ،جب کہ "اشھر حرم" سے ذوالقعدہ، ذوالحجہ،محرم اور رجب کے مہینے مراد ہیں حیرت بالاۓ حیرت ہے کہ جس کی قرآن فہمی کا یہ عالم ہے کہ اسے یہ تک نہیں معلوم ہے کہ "اشھر حرم" سے کیا مراد ہے ؟  وہ قرآن کی چھبیس آیات کو سپریم کورٹ میں چیلینج کرنے چلا ہے اور بار بار میڈیا میں اس کی ریپیٹ کر کے یہ ظاہر کر رہا ہے کہ 
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْؕ-وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ٘-وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠(البقرۃ ۷)
 اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔(کنزالایمان)
 کے مصداق ابھی نا پید(ختم ) نہیں ہوۓ ہیں۔

        سورہ توبہ کی آیت نمبر : 123 کو اس نے وائرل ویڈیو میں ذکر کیا ہے اور اسے اپنی پٹیشن میں داخل کیا ہے اس کے بارے میں آپ کو یہ بتایا جا چکا ہے کہ سورہ توبہ کی بیشتر آیات میں وہ کفار و مشرکین عرب مراد ہیں جنہوں نے معاہدہ امن کی نہ صرف یہ کہ خلاف ورزی کی بلکہ مسلمانوں پر انتہائی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوۓ بدر، احد اور خندق جیسی بھیانک جنگوں سے انہیں دو چار کردیا جن میں احد میں خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر کے دندان مبارک شہید کر دیے بلکہ عمرو بن قمیہ نے ایک پتھر اس زور سے مارا کہ سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کے خود کی کڑیاں رخسار مبارک میں چبھ (دھنس) گئیں جس سے لبہاۓ مبارک اور رخ انور زخمی ہوگئے اور شدید جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوۓ 108 مہاجرین و انصار صحابہ کو شہید کردیا، اور اس پر بھی انہیں تسلی نہیں ہوئی تو باختلاف روایت دس ہزار یا چوبیس ہزار کی بھاری نفری لے کر تمام قبائل عرب کے ساتھ مدینہ پر حملہ کردیا جس کا دفاع صحابہ کرام نے خندق کھود کر کیا پھر جب معاہدہ حدیبیہ کی قرار داد پاس ہوئی تو انہیں بھی اپنے پیروں تلے روند ڈالا، سورہ توبہ کی آیات میں ایسے شریر کفار و مشرکین عرب کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ ہندوستان کے امن پسند شہریوں اور برادران وطن کے ساتھ۔
       اس ضروری وضاحت کے بعد اب ہم آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سورہ توبہ کی آیت : 123 میں جو قریبی کفار سے اہل ایمان کو جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے  اس سے کون سے کفار مراد ہیں ؟ لیکن اس سے پہلے ہم اس کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن مقدس میں متعدد مقامات پر جو لفظ "کفر" یا اس کے مشتقات مثلا کافر،کفار،کافرین اور کافرون وغیرہ کا ذکر آیا ہے اس سے کیا مراد ہے ؟ کیا لفظ کافر سب و شتم (گالی) ہے جیسا کہ وسیم رضوی جیسا ناخلف یہ سمجھ اور سمجھا رہا ہے، اس لئے ہم یہاں پر فرزندان اسلام اور برادران وطن پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کافر کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جو برادران وطن کے آزار، تضحیک، تذلیل یا تکلیف کا باعث ہو بلکہ یہ لفظ مسلم کے مقابلے میں محض ایک اصطلاح ہے۔ اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور دیگر انبیا و رسل کی نبوت و رسالت اور تمام شرائع دین کی دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کرنے اور ماننے والے کو مسلم کہتے ہیں اور جو اس کا منکر ہو، اسے نہ مانتا ہو اسے کافر کہتے ہیں جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے :
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْۚ(البقرہ ٢٨)

تم کیسے اللہ کے منکر ہوسکتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے تواس نے تمہیں پیدا کیا (کنز الایمان)
 اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتا ہے :
وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا(النساء ١٣٦)

 اور جو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور قیامت کو نہ مانے تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں جاپڑا۔ (کنزالایمان )

اور بولا جاتا ہے: کفر باللہ، أو بنعمۃ اللہ۔ اس نے اللہ یا اس کی نعمت کا انکار کیا (المعجم الوسیط ک ف ر ص 956) 
میں نے عربی، اردو، انگلش کی متعدد لغات میں دیکھا اور دکھوایا لیکن کسی بھی لغت میں لفظ کافر کا ایسا معنی تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں ملا جس سے کسی بھی زاویے سے اس لفظ سے گالی، سب و شتم کا مفہوم متبادر ہو لھذا ہر کسی کو یہ غلط فہمی دور کر لینی چاہئے کہ لفظ کافر برادران وطن کیلئے گالی ہے، اس سے بھی آسان لفظوں  میں آپ کو یہ بتا دوں کہ ایک ہے مسلم اور  ایک ہے نان مسلم اور جو نان مسلم ہیں انہیں کو قرآن میں کافر یا کفار سے تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ سورہ توبہ کی اس آیت میں ہے۔
            مسلم اور کافر کے معانی و مفاہیم کی وضاحت کے بعد سورہ توبہ کی اس آیت : (123) میں الاقرب فالاقرب کے فارمولے کے تحت اہل ایمان کو پہلے قریبی کفار سے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو سب سے پہلے ان لوگوں تک اسلام کی تبلیغ و انذار کا حکم دیا گیا جو آپ کے بہت قریب تھے اور جن پر آپ کو کافی اعتماد تھا کیوں کہ جو بہت قریب ہوتا ہے وہ سب سے پہلے خیر و فلاح اور اصلاح حال کا مستحق ہوتا ہے 
      اب اس آیت میں قریبی کفار سے کون سے لوگ مراد ہیں؟ اس میں دو قول ہے: (1) مدینہ کے یہود مراد ہیں مثلاً : بنو قریظہ، بنونضیر، بنوقینقاع۔ (2) اہل روم، کیوں کہ یہ شام میں رہتے تھے اور شام عراق کے بہ نسبت مدینۃ المنورہ سے زیادہ قریب پڑتا تھا جیسا کہ تفسیر ابی سعود میں ہے : 
قیل: ھم الیھود حوالی المدینۃ کبنی قریظۃ والنضیر و خیبر و قیل :الروم فانھم کانوا یسکنون الشام وھو قریب من المدینۃ بالنسبۃ الی العراق و غیرہ (تفسیر ابی سعود ج 4 ص 112) 
لیکن قرین قیاس یہ ہے کہ اس سے بنو قریظہ، بنو نضیر، بنو قینقاع کے یہودی مراد ہیں جو مدینے میں آباد تھے اور معاشی اعتبار سے اتنے خوشحال تھے کہ مدینے اور دیگر شہروں کی تجارتی منڈیوں پر ان کا قبضہ تھا لیکن اسی کے ساتھ یہ ہر طرح کی اخلاقی بیماریوں میں بھی مبتلا تھے مثلا یہ سود کھاتے تھے، جھوٹ بولتے تھے، رات دن سازشیں رچا کرتے تھے، احکام الہی میں ذاتی فائدے کیلۓ تحریف (رد و بدل) سے بھی باز نہیں آتے تھے مسلمانوں سے بغض و حسد ان کی فطرت میں داخل تھا۔ عرب اوس و خزرج جو بعد میں انصار صحابہ سے مشہور ہوۓ یہودیوں سے ہمیشہ دبے رہتے تھے کیوں کہ معاشی بد حالی کی بنا پر یہ اکثر یہودیوں کے مقروض رہا کرتے تھے اور قرض کے لیے یہ یہود مدینہ کے پاس اپنی عورتوں اور بچوں تک کو رہن رکھ دیتے تھے یہود مدینہ کے تفوق اور بالادستی کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ اہل کتاب کے ساتھ زیرک و دانا اور اہل خرد بھی تھے۔
           مکۃ المکرمہ میں صرف ایک قوم اہل اسلام کے سامنے تھی جو بت پرست، جاہل اور اجڈ تھی جب کہ مدینہ مختلف اقوام اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا مرکز تھا اس لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے مدینہ منورہ ہجرت کر جانے کے بعد اپنی پیغمبرانہ بصیرت سے یہود مدینہ سے ایک معاہدہ کیا جو تاریخ و سیر کی کتابوں میں صحیفہ کے نام سے جانا جاتا ہے جس کی دفعات نہایت جامع اور امن و امان کے لیے بہت ضروری تھیں جس کا مقصد یہ تھا کہ شہر کے داخلی امن و امان میں کوئی خلل نہ آنے پاۓ او باہر سے کوئی خطرہ درپیش اور نمودار ہو تو مدینے کے تمام قبائل مل کر اور متحد ہوکر اس کا مقابلہ کریں یہ معاہدہ مساوات پر مبنی تھا اور اس کی دفعات میں بلا تفریق اہل مدینہ کے تمام شہری اور مذہبی حقوق کی حفاظت کا نظم کیا گیا تھا لیکن یہود اپنی فطرت سے باز نہیں آۓ اور اسلام اور اہل اسلام کے خلاف در پردہ ریشہ دوانی شروع کردی مثلا اوس و خزرج (انصار صحابہ) میں تفرقہ ڈال کر خانہ جنگی کی وہ آگ دوبارہ بھڑکانے کی کوشش کی جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ہجرت سے پہلے دونوں گروہوں میں پشتوں سے بھڑک رہی تھی اور دونوں گروہوں کی ہلاکت اور تباہی کا باعث بنی ہوئی تھی اس آپسی خانہ جنگی کی وجہ سے ہجرت سے پہلے یہ یہودیوں کے دست نگر بن کر رہ گئے تھے معاہدے کے باوجود یہ شرک اور بت پرستی کو وحدانیت سے بہتر اور قابل ترجیح قرار دیتے تھے جب کہ یہ خود اہل کتاب تھے اور یہ خود کو اس کے لیے بھی آمادہ رکھتے تھے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جائیں گے جیسا کہ آج وسیم رضوی کا حال ہے، در پردہ یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بھی منصوبہ بندی کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو ہمیشہ یہودیوں سے جان کا خطرہ بنا رہتا تھا جس کی مثال یہ ہے کہ جب حضرت طلحہ بن براء رضی اللہ تعالی عنہ کا وقت اخیر آیا تو انہوں نے یہ وصیت کردی کہ اگر میرا دم رات میں نکل جاۓ تو حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر نہ کرنا کہ مبادا وہ جنازے میں تشریف لائیں اور یہودی ان پر پر حملہ کردیں ۔
جیسا کہ "اسد الغابہ" میں ہے:
فقال : ادفنوني و ألحقوني بربي ،ولا تدعوا رسول اللّه صلّى اللَّه عليه وسلم فإني أخاف عليه اليهود أن يصاب في سبيل" 
(أسد الغابة في معرفة الصحابة،ج:٣.ص:٨١)
اس سازش میں منافقین مدینہ بھی پیش پیش رہتے تھے جن کا سردار عبد اللہ بن ابی تھا یہودی اس کے حلیف تھے مشرکین مکہ بھی برابر انہیں اکسایا کرتے تھے کہ ہمارے صاحب (حضور علیہ الصلوۃ والسلام) کے ساتھ تم برابر لڑتے رہو ورنہ ہم تمہارے ساتھ یہ کریں گے وہ کریں گے۔کعب بن اشرف الگ سے درد سر بنا رہتا تھا حاصل یہ ہے کہ یہود مدینہ اپنے معاہدے پر زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکے ایک مسلمان عورت بنو قینقاع کے محلے میں دودھ بیچنے گئی یہودیوں نے اس کے ساتھ اتنی شرارت کی کہ اسے بر سر بازار ننگا کردیا اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس پر بات کرنے کے لیے طلب کیا تو انہوں نے معاہدے کا کاغذ بھی واپس کردیا اور جنگ وجدال پر آمادہ ہوگئے ان کی عیاری اور شرارت اس حد تک بڑھ گئی کہ انہوں نے در پردہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے قتل تک کا منصوبہ بنا لیا لیکن بر وقت وحی الہی سے ان کے جان لیوا منصوبے کا آپ کو علم ہوگیا ان اسباب، وجوہات اور حالات کے پیش نظر اس آیت میں اہل ایمان کو حکم دیا گیا کہ پہلے ان قریبی کفار کی خبر لو پھر دور والوں کو دیکھنا کیوں کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھاۓ مشہور مثل ہے اور نسبتا دور والوں سے قریب والے زیادہ خطرناک اور ڈینجر ہوتے ہیں یہی اس آیت کا مطلب ہے کہ ایمان والے پہلے اپنے قریب رہنے والے یہودی بنونضیر،بنوقریظہ(یہود مدینہ) سے جنگ کریں اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان اپنے پڑوس ، محلہ ، گاؤں ، قصبے اور شہر کے رہنے والے غیر مسلم برادران وطن کے خلاف بلاوجہ بندوق، اور کلاشنکوف کے ساتھ صف آرا ہوجائیں اور چلتے پھرتے برادر وطن کو بلا گولیوں سے بھون دیں، جیسا کہ وسیم رضوی یہ بھرم پیدا کر رہا ہے اور برادران وطن میں اشتعال پیدا کرکے فریقین کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنا چاہتا ہے۔

     اور سورہ توبہ آیۃ : (123) کی صوفیانہ تفسیر یہ ہے کہ اہل ایمان پہلے اپنے قریبی کفار نفس امارہ سے قتال اور جہاد کریں پھر خارجی اور دور والے کافروں کا خیال کریں کہ ان سے جہاد آسان ہے لیکن اپنے قریبی کافر نفس سرکش سے جہاد بڑا مشکل اور کٹھن کام ہے لھذا تم میں خوب سختی اور غلظت کی ضرورت ہے کہ کسی بھی وقت نفس تم میں نرمی نہ پاۓ کہ تم پر غالب آجاۓ ،اسی لیے کہا گیا ہے کہ کفار سے جہاد جہاد اصغر ہے اور نفس سے جہاد جہاد اکبر ہے جہاد اصغر کے لیے تیر و تلوار بازار سے خریدے جا سکتے ہیں مگر نفس سے لڑنے کے ہتھیار کوچہ و بازار میں نہیں بکتے ہیں اس کے لیے دل میں عشق نبی کی شمع جلانی پڑتی ہے اور نفس کشی اور انتہائی سخت مجاہدہ سے گزرنا پڑتا ہے جو بڑا مشکل کام ہے۔
     

     جاری



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے