Advertisement

معترضہ آیاتِ جہاد معنیٰ و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر (قسط سوم)


 معترضہ آیاتِ جہاد

(معنیٰ و مفہوم، شانِ نزول، پس منظر)


قسطِ سوم


 

تحریر : مولانا بدر الدجیٰ رضوی مصباحی

پرنسپل : مدرسہ عربیہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد، ضلع مئو، یوپی، الہند۔

                       


   (2)
یٰۤاَیُّھَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡمُشۡرِکُوۡنَ نَجَسٌ فَلَا یَقۡرَبُوا الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ بَعۡدَ عَامِھِمۡ ھٰذَا ۚ وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ عَیۡلَۃً فَسَوۡفَ یُغۡنِیۡکُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖۤ اِنۡ شَآءَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۸﴾
(التوبہ آیت: 28)
     اے ایمان والو! مشرک نرے ناپاک ہیں تو اس برس کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں اور اگر تمہیں محتاجی کا ڈر ہے تو عنقریب اللہ تمہیں دولت مند کر دے گا اپنے فضل سے اگر چاہے بیشک اللہ علم و حکمت والا ہے۔(کنز الایمان)
     یہ سورہ توبہ کی دوسری آیت ہے جو اسلام دشمن عناصر کے دل میں کھٹک رہی ہے اس سے پہلے یہ بتادیا گیا ہے کہ سورہ توبہ کی اکثر آیات میں مشرکین سے وہ مشرکین مکہ مراد ہیں جنھوں نے عہد و پیمان کی پاسداری نہیں کی تاہم یہاں پر یہ بتانا ضروری ہے کہ اس آیت میں مشرکین کو جو نجس قرار دیا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے ؟ اس آیت میں نجاست سے اس کا متبادر مفہوم بول و براز(پیشاب،پاخانہ) مراد نہیں ہے جیسا کہ اسلام دشمن عناصر سمجھ رہے ہیں بلکہ اس سے ان کا وہ شرک مراد ہے جو نجاست کی منزل میں ہے یا انھیں اس آیت میں نجس اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ وہ صحیح طرح سے طہارت اور غسل وغیرہ نہیں کرتے ہیں اور نجاست سے اجتناب نہیں کرتے ہیں جیسا کہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ یہ کھڑے کھڑے پیشاب کرتے ہیں اور پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتے ہیں، ایک لوٹا پانی سے اجابت کرتے ہیں ان اسباب و وجوہات کی بنا پر ان پر نجاست کا اطلاق کیا گیا ہے۔  اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ بول و براز کی طرح عین نجس ہیں جیسا کہ تفسیر ابی سعود میں ہے : وصفوا بالمصدر مبالغۃ کانھم عین النجاسۃ أو ھم ذو نجس لخبثِ باطنھم اور لان معھم الشرک الذی ھو بمنزلۃ النجس او لانھم لا یتطھرون ولایغتسلون ولا یجتنبون النجاسات فھی ملابسۃ لھم۔ (تفسیر ابی سعود ج: 4، ص: 57)
      بلکہ علامہ امام ابو زکریا بن شرف نووی دمشقی رحمۃ اللہ علیہ صحیح مسلم باب الدلیل علی ان المسلم لاینجس کے تحت فرماتے ہیں : طہارت و نجاست میں کافر کا وہی حکم ہے جو مسلم کا حکم ہے یہی شوافع اور جمہور سلف و خلف کا بھی مذہب ہے اور آیت مبارکہ "انما المشرکون نجس" سے کفار و مشرکین کے اعتقاد کی نجاست مراد ہے یہ مراد نہیں ہے کہ بول و براز اور ان کے امثال کی طرح ان کے اعضا نجس ہیں۔

      امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : و اما الکافر فحکمہ فی الطھارۃ و النجاسۃ حکم المسلم ھذا مذھبنا و مذھب الجماھیر من السلف و الخلف و أما قول اللہ عزو جل: "اِنَّمَا الۡمُشۡرِکُوۡنَ نَجَسٌ" فالمراد نجاسۃ الاعتقاد و الاستقذار و لیس المراد ان اعضاءھم نجسۃ کنجاسۃ البول و الغائط و نحوھما" ( شرح مسلم للنووی، کتاب الطھارۃ/ باب الدلیل علی ان المسلم لا ینجس، ص162: مجلس برکات جامعہ اشرفیہ مبارک پور)


فَلَا یَقۡرَبُوا الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ بَعۡدَ عَامِھِمۡ ھٰذَا
 تو اس برس کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں (کنزالایمان)
        اس آیت میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ کفار ومشرکین کو مسجد حرام کے قریب آنے سے روکیں۔
‌     یہ حکم مشرکین کی نجاست پر متفرع ہے اور نہی عن القرب مبالغہ کی غرض سے ہے، امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے نزدیک اس آیت میں منع سے مراد مشرکین کو حج و عمرہ سے روکنا ہے،نہ کہ حرم ،مسجد حرام اور دیگر مساجد سے اور امام شافعی کے نزدیک خاص مسجد حرام میں دخول سے روکنا مراد ہے،اور امام مالک کے نزدیک جمیع مساجد سے مشرکین کو روک دینے کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ تفسیر ابی سعود میں ہے : و قیل المراد بہ النھی عن الدخول مطلقا،و قیل :المراد بہ المنع عن الحج و العمرۃو ھو مذھب ابی حنیفۃ رحمہ اللہ۔۔۔ولا یمنعون من دخول الحرم و المسجد الحرام و سائر المساجد عندہ و عند الشافعی یمنعون من المسجد الحرام خاصۃ و عند مالک یمنعون من جمیع المساجد (تفسیرِ ابی سعود، ج: 4، 57)

       لیکن صاحب تفسیر ابی سعود نے یہاں پر احناف اور شوافع کے مفتیٰ بہ اور راجح قول کی وضاحت نہیں کی ہے ہم یہاں پر اس بابت احناف اور شوافع کے مذاہب پر مختصرا ڈالنا چاہیں گے۔
      شوافع کے نزدیک حرم میں کفار و مشرکین کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے تاہم دیگر مساجد میں وہ مسلمانوں کی اجازت سے مسجد میں داخل ہوسکتے ہیں پھر یہاں پر مشرکین سے خاص بت پرست مراد ہیں یا دیگر اقسام کے کافر مراد ہیں اس پر شوافع نے بحث کی ہے۔ علامہ سبکی فرماتے ہیں: حرم میں تو مطلقا کافر کو داخل ہونے سے روک دیا جائے گا خواہ وہ ذمی ہوں ( مسلم ملک میں غیر مسلم اقلیت) یا مستامن ( عارضی طور پر پاسپورٹ اور ویزے سے آنے والے غیر مسلم) 
     امام نووی شافعی دمشقی فرماتے ہیں : حرم کے علاوہ باقی مساجد میں مسلمانوں کی اجازت سے کافر کا داخل ہونا جائز ہے (خواہ وہ ذمی ہو یا مستامن بت پرست ہو یا اہل کتاب) اس لیے کہ ثقیف کا ایک وفد رمضان کے مہینے میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آیا آپنے ان کے لیے مسجد میں خیمہ نصب کیا جب وہ اسلام لے آئے تو انہوں نے روزے رکھے اس حدیث کو طبرانی نے اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی وہ روایت بھی ہے جس میں ثمامہ بن اثال کو گرفتار کرکے مسجد کے ستون سے باندھنے کا ذکر ہے اس وجہ سے امام شافعی نے حکم لگایا ہے کہ مسلمان کی اجازت سے کافر کا مسجد میں داخل ہونا جائز ہے خواہ وہ غیر اہل کتاب ہو البتہ مکہ کی مساجد اور حرم میں کسی کافر کا داخل ہونا جائز نہیں ہے۔ علامہ نووی نے "مجموع" میں لکھا ہے کہ ہمارے اصحاب یہ کہتے ہیں  کہ حرم میں کسی کافر کو نہ داخل ہونے دیا جائے اور غیر حرم کی ہر مسجد میں کافر کا داخل ہونا جائز ہے اور مسلمانوں کی اجازت سے وہ رات کو مسجد میں رہ سکتا ہے (تکملہ شرح تہذیب ج 9 ص 436، 437 مطبوعہ دارالفکر بیروت) 
       احناف کے نزدیک غیر معاہد (جن سے مسلمانوں کا معاہدہ نہ ہوا ہو) مشرکین کو حرم اور اسی طرح باقی مساجد میں داخل ہونے سے منع کیا جائے گا اور اہل ذمہ کو حرم اور اسی طرح باقی مساجد میں داخل ہونے سے منع نہیں کیا جائے گا۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ سیر کبیر میں فرماتے ہیں: و ذکر عن الزھری ان ابا سفیان بن حرب کان یدخل المسجد فی الھدنۃ وھو کافر غیر ان ذلک لا یحل فی المسجد الحرام قال اللہ تعالی: اِنَّمَا الۡمُشۡرِکُوۡنَ نَجَسٌ فَلَا یَقۡرَبُوا الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ (سیر کبیر مع شرحہ ج :1، ص 134 مطبوعہ المکتبۃ للثورۃ الاسلامیہ افغانستان )
    زہری سے روایت ہے کہ معاہدہ حدیبیہ کے ایام میں ابو سفیان مسجد میں آتے تھے حالاں کہ اس وقت وہ کافر تھے البتہ یہ مسجد حرام میں جائز نہیں ہے کیوں کہ اللہ  تعالیٰ فرماتا ہے: مشرکین نجس ہیں وہ مسجد حرام کے قریب نہ آئیں۔
      امام محمد کے اس قول سے متبادر ہوتا ہے کہ مطلق مشرکین کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیا جاۓ گا لیکن جامع صغیر میں انہوں نے اس کی صراحت کی ہے کہ اہل ذمہ کے حرم میں داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ فرماتے ہیں: ولا باس بان یدخل اھل الذمۃ المسجد الحرام"  (جامع صغیر ص : 153 مطبوعہ مصطفائی ہند)

     امام محمد کی صراحت کے پیشِ نظر فقہاے احناف کا نظریہ یہ ہے کہ اہل ذمہ کو کعبہ شریف اور باقی مساجد میں داخل ہونے سے منع نہیں کیا جائے گا یہ ممانعت صرف مشرکین غیر معاہد کے لیے ہے۔ 
     عالمگیری میں ہے: 
      لا باس بدخولِ اھل الذمۃ المسجد الحرام و سائر المساجد و ھو الصحیح کذا فی المحیط للسرخسی [ فتاویٰ عالمگیری، ج: 5، ص: 346، مطبوعہ مطبع کبریٰ امیریہ بولاق مصر]
    یہاں پر "وھو الصحیح" سے اس طرف اشارہ ہے کہ علامہ سرخسی نے  شرح سیرِ کبیر میں جو یہ لکھا ہے کہ مسجد حرام اور باقی مساجد میں حربی اور ذمی دونوں کے داخل ہونے کی ممانعت نہیں ہے یہ صحیح نہیں ہے۔
      امام مالک کے نزدیک کسی بھی قسم کے غیر مسلم کو کسی بھی مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے خواہ وہ مسجد حرم ہو یا غیر حرم کی مسجد۔
      امام احمد بن حنبل کے نزدیک مطلقا  حرم (مکۃ المکرمہ کا وہ حصہ جو حرم میں داخل ہے ) میں مشرکین کا داخلہ ممنوع ہے اس میں مسجد حرام کی کوئی تخصیص نہیں ہے اور غیر حرم کی مساجد میں ان کے دو قول ہیں۔
     یہ تمام حوالے ہم نے علامہ سعیدی رحمہ اللہ کی شرح  صحیح مسلم ج: 3، ص: 681، 682، 683  سے لیے ہیں۔

 

            جاری


ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے