Advertisement

امام کے پیچھے مقتدی سورۂ فاتحہ پڑھے یا نہ پڑھے/آمین بآواز بلند کہنا درست ہے یا نہیں ؟

 مسئلہ :

       (1) امام کے پیچھے مقتدی سورۂ فاتحہ پڑھے یا نہ پڑھے ؟
       (2) آمین بآواز بلند کہنا درست ہے یا نہیں؟
       (3) بجائے بیس 20 رکعت تراویح کے آٹھ 8 رکعت پڑھے تو درست ہے؟
       (4) بجائے تین 3 وتر کے ایک وتر پڑھنا درست ہے یا نہیں؟

       الجواب  :

       (1)   مقتدی کو قرآن مجید پڑھنا مطلقًا جائز نہیں، اللّٰہ عزّ و جلّ فرماتا ہے :
وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔

نبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : إنما جُعل الإمام لِيؤتمّ به، فإذا كبّر فكبّروا، وإذا قرأ فأنصتوا. عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : "مجھے تمنا ہے کہ جو امام کے پیچھے پڑھے، اس کے منھ میں آگ ہو." عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : "قدرت پاتا تو اس کی زبان کاٹ دیتا." واللّٰہ تعالىٰ أعلم۔
       (2)   آمین با آواز بلند کہنا نماز میں مکروہ و خلاف سنت ہے، اللّٰہ عزّ و جلّ فرماتا ہے :
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْيَةً.

نبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : إذا قال : "ولاالضّالّين" فقولوا: "آمين" ؛فإن الإمام يقولها. واللّٰه تعالىٰ أعلم.

       (3)   تراویح بیس 20 رکعت سنت مؤکدہ ہیں، سنت مؤکدہ کا ترک بَد ہے، نبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : عليكم بسنّتي و سنّةِ الخلفاءالرّاشدين، عضُّوا عليها بالنَّواجِذ. دوسری حدیث میں ہے : إنّه سيحدث بعدي أشياء، وإنّ مِن أحبِّها إليَّ لما أحدث عمر. واللّٰه تعالىٰ أعلم.
        (4)   ایک رکعت وتر خواہ نفل باطلِ محض ہے، حضورِ اقدس صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کا آخری فعل تین 3 رکعت وتر ہے، وإنما يؤخذ بالآخر، فهو الآخر من فعل رسول اللّٰه صلى اللّٰه تعالىٰ عليه وسلم.

         اتنا یاد رہے کہ یہاں ان مسائل میں مخالفت کرنے والے غیر مقلدین وہابیہ ہیں, جن پر بوجوہِ کثیرہ ان کے ضالہ کے سبب کفر لازم، جس کی قدرے تفصیل ہمارے رسالہ "الكوكبة الشهابية" میں ہے، وہ کہ مسلمان ہی نہیں، انھیں ایسے فروعی مسائلِ اسلامی میں دخل دینے کا کیا حق ! ان سے تو اصول پر گرفت کی جائے گی؛ کہ مقتدی فاتحہ پڑھے نہ پڑھے, آمین جہر سے کہے یا آہستہ، تراویح آٹھ 8 رکعت ہوں یا بیس 20، وتر ایک رکعت ہو یا تین 3، یہ تو سب اس پر موقوف ہیں کہ نماز بھی صحیح ہو, جس کا اسلام صحیح نہیں اس کی نماز کیسے صحیح ہو سکتی ہے ؟ وہ ان مسائل میں اِس طرف عمل کرے تو اس کی نماز باطل، اُس طرف عمل کرے تو باطل، پھر لایعنی فضول زق زق سے کیا فائدہ ؟ اور مسلمان کو ہوشیار رہنا چاہیے ؛ کہ نہ ان سے ملنا جائز، نہ ان کی بات سننی جائز، نہ ان کے پاس بیٹھنا جائز، اللّٰہ عزّ و جلّ فرماتا ہے :
وَاِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ.

نبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : إيّاكم و إيّاهم! لا يُضِلّونكم ولا يفتنونكم.

حوالہ : 

فتاویٰ رضویہ، جلد چہارم، صفحہ : 619 و 620 ، مطبوعہ : امام احمد رضا اکیڈمی۔


مزید پڑھیں :



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ٹائپنگ : مولانا محمد کلیم مصباحی مرزاپوری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے