Advertisement

کیا امام کا تنہا بلند جگہ کھڑا ہونا مکروہ ہے ؟

    

مسئلہ : 

         کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلۂ مندرجہ ذیل میں کہ بہارشریعت جلد سوم ص : 174 میں ہے کہ امام کا تنہا بلند جگہ کھڑا ہونا مکروہ ہے، بلندی کی مقدار یہ ہے کہ دیکھنے میں جس کی اونچائی ظاہرا ممتاز ہو ، پھر یہ بلندی اگر قلیل ہو تو کراہت تنزیہیہ ورنہ کراہت بظاہر تحریم۔ 
       سوال یہ ہے کہ قلیل و کثیر کی مقدار معتبر و مفتی بہ کیا ہے؟ بینوا توجروا۔

     الجواب : 

بلند مقام پر امام کا تنہا کھڑا ہونا مکروہ ہے، یہ امر کہ کس حد کی بلندی سے کراہت ہوتی ہے اس میں تین قول ہیں :
          ایک یہ کہ قامت انسان سے متجاوز ہو تو کراہت ہے، دوم بقدر ذراع، سوم بقدر امتیاز 
قول اول امام طحاوی رحمہ اللّٰہ تعالی سے منقول اور امام ابی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی سے مروی بلکہ امام ابی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی یہ فرماتے ہیں کہ قامت سے کم میں کراہت نہیں، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قامت کی قدر ہو تو مکروہ ، لہذا اس کو قول رابع قرار دے سکتے ہیں، قول دوم کو اکثر نے اختیار کیا اور اس پر اعتماد کیا، اور قول سوم اطلاق حدیث کے مطابق ہے اور یہی ظاہرالروایۃ ہے۔ چوں کہ اس مسئلہ میں تصحیحات مختلف ہیں لہذا ظاہر الروایۃ کو ترجیح دی جائے گی۔ 
        ابوداؤد میں یہ حدیث ہے کہ عمار بن یاسر رضی اللّٰہ تعالی عنہ مدائن میں نماز پڑھانے کے لیے بلند جگہ کھڑے ہوگئے اور تمام مقتدی نیچے تھے حضرت حذیفہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ ان کا ہاتھ پکڑ کر نیچے اتار لائے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا : ألم تسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إذا أم الرجل القوم فلايقم في مكان أرفع من مقامهم أو نحو ذلك ، فقال عمار لذلك اتبعتك حين أخذت على يدي. 
       کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے نہیں سنا کہ جب قوم کا امام ہو تو ان سے اونچی جگہ نہ کھڑا ہو، عمار رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا : اسی وجہ سے میں نے اتباع کیا جب تم نے میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔ 
فتح القدیر میں ہے : و اختلف في مقدار الارتفاع الذي تتعلق به الكراهة فقيل : قدر القامة، و قيل : ما يقع به الامتياز، وقيل : ذراع كالسترة وهو المختار و الوجه أوجهية الثاني لأن الموجب وهو شبهة الازدراء يتحقق فيه غير مقتصر على قدر الذراع.  
 درمختار میں ہے : و قدر الارتفاع بذراع ولا بأس بمادونه و قيل مايقع به الامتياز وهو الأوجه ذكره الكمال و غيره. 
         رد المحتار میں ہے : قوله : وقيل الخ : وهو ظاهرالرواية كما في البدائع ، قال في البحر والحاصل أن التصحيح قد اختلف و الأولى العمل بظاهرالرواية و اطلاق الحديث اھ وكذا رجحه في الحلية. 
جب یہی ظاہر الروایۃ ہے اور یہی اطلاق حدیث کا مقتضی اور پھر اسی میں احتیاط بھی ہے تو اس پر عمل کرنا چاہیے؛ اس روایت میں صرف امتیاز کو مقدار کراہت بتایا گیا ہے تو اس کی تحدید پیمانے کے ساتھ نہیں کی جا سکتی بلکہ وہ مقدار قلیل بھی کہ بظاہر ممتاز ہو کراہت کے لیے کافی ہے، مثلا : تین چار انگل کی بلندی بھی قابل امتیاز ہے یہ بھی مکروہ ہے۔ و اللّٰه تعالى أعلم.

 حوالہ : 

فتاوی امجدیہ، جلد اول، ص : 195 و 196، مطبوعہ : کتب خانہ امجدیہ۔


ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ٹائپنگ : مولانا محمد حسان نظامی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے