Advertisement

ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریاں از مولانا عبد السبحان مصباحی


 ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریاں 


تحریر : مولانا عبد السبحان مصباحی

استاذ : جامعہ صمدیہ دار الخیر پھپھوند شریف


مؤمن نہیں مناتے گناہ و بدی کی یاد 
ایمان والے کرتے ہیں پاکیزگی کی یاد 

اظہارِ عشق کر چکے، اپنے نبیﷺ سے جو
کرتے نہیں وہ عشق میں آوارگی کی یاد 

تہذیبِ نو ہے جسم و نظر کی بر ہنگی
جو بے حیا کرتے ہیں بے پردگی کی یاد 

دن لَہْو میں کھونا تجھے شب صبح تک سونا تجھے
شرمِ نبی خوفِ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

          ویلنٹائن ڈے کے نام پر  بے شمار دوشیزائیں، ماڈرن لڑکیاں اور مغربی کلچر کی دلدادہ عورتیں اپنی عزت و آبرو کا جنازہ نکالنے کی ہمہ تن کوشش و تیاریاں کر رہی ہیں۔ اور یوں اپنے ماں باپ اور بھائی کی عزت کو تار تار کرنے کا پختہ عزم و ارادہ کر چکی ہیں ۔ اس کے تعلق سے ایک چشم کشا تحریر کا ساغر اخلاص آپ کی بارگاہِ محبت میں حاضر ہے. 
          اس وقت پوری دنیا میں ویلنٹائن ڈے ایک تہوار کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ جو ہر سال ١٤/فروری کو بڑی دھوم اور بڑے تزک واحتشام سے منایا جاتا ہے۔ جس کی غرض و غایت بے حیائی، بے شرمائی، بے پردگی، رقص و سرور اور زنا جیسے خطرناک جرائم کو فروغ دینا ہے ۔ اسے ستم ظریفی کہیے کہ ویلنٹائن ڈے کی نحوست میں مسلم لڑکے اور لڑکیاں بھی گرفتار ہو چکی ہیں۔ خاص طور پر کالج و یونیورسٹی میں آزادانہ زندگی گزارنے والے طلبہ و طالبات  اور مغربی تہذیب و تمدن کے دلدادہ ایسے مواقع پر پیش پیش رہتے ہیں ۔ ہمیں اغیار سے کیا شکوہ و شکایت وہ تو قوم مسلم کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں۔
  ہم اپنی اس تحریر کے ذریعے خاص طور پر ویلنٹائن ڈے کے شوقین اپنے مسلمان بھائی بہنوں کو ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریوں سے روشناش کرانا چاہتے ہیں ۔
         "ویلنٹائن ڈے" ایک "ویلنٹائن " نامی پوپ سے منسوب ہے، جسے ١٤/ فروری ٢٧٠/ عیسوی کو پھانسی کا حکم دیا گیا تھا، عیسائی ابھی بھی اس دن جشن مناتے، برائی و بے حیائی عام کرتے ہیں۔ 
           اس وقت پوری دنیا میں سر پھرے عاشق و معشوق [Valentine Day] مناتے ہوئے سرخ پھولوں کا تبادلہ کرتے ہیں، اس دوران سرخ لباس زیب تن کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کو مبارک باد بھی دیتے ہیں، کچھ سرخ رنگ کی مٹھائیوں پر سرخ رنگ کے دل بنا کر پیش کرتے ہیں، بے حیائی، بے شرمائی، آوارگی، بد چلنی، زنا کاری، بدکاری، فحاشی، شراب نوشی، رقص اور نغمہ سنجی وغیرہ بے شمار ناجائز و حرام کام خود تو کرتے ہی ہیں دوسروں کو بھی ان کی ترغیب دیتے ہیں ۔
 اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : 
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الۡفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۙ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ
القرآن الكريم - سورۃ نمبر: ٢٤، النور، آیت نمبر: ١٩} 
           بیشک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔
تفسیر صراط الجنان، آیت مذکورہ بالا کے تحت ہے کہ:-
            "اشاعت" سے مراد تشہیر کرنا اور ظاہر کرنا ہے جبکہ "فاحشہ" سے وہ تمام اَقوال اور اَفعال مراد ہیں جن کی قباحت بہت زیادہ ہے اور یہاں آیت میں اصل مراد زِنا ہے۔ (روح البیان، النور، تحت الآیۃ :۱۹، ٦/ ۱۳۰ ،ملخصاً) البتہ یہ یاد رہے کہ اشاعتِ فاحشہ کے اصل معنیٰ میں بہت وسعت ہے چنانچہ اشاعتِ فاحشہ میں  جو چیزیں داخل ہیں  ان میں  سے بعض یہ ہیں :
{١}:- فحش تصاویر اور ویڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں    دیکھنے کے ذرائع مہیا کرنا۔  
{٢}:- ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور بنوا کر لگانا، لگوانا جن میں جاذِبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عُریانِیَّت کا سہارا لیا گیا ہو۔  
{٣}:- حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا، ان کی تشہیر کرنا اور انہیں  دیکھنے کی ترغیب دینا۔

{٤}:- فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں    کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔  
{٥}:- زنا کاری کے اڈّے چلانا وغیرہ۔  
         ان تمام کاموں میں مبتلا حضرات کو چاہیے کہ خدارا ! اپنے طرزِ عمل پر غور فرمائیں بلکہ بطورِ خاص ان حضرات کو زیادہ غور کرنا چاہیے جو فحاشی و عریانی اور اسلامی روایات سے جدا کلچر کو عام کر کے مسلمانوں    کے اخلاق اور کردار میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں اور بے حیائی، فحاشی و عریانی کے خلاف اسلام نے نفرت کی جو دیوار قائم کی ہے اسے گرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
          ایک نوجوان نے رسول اکرم ﷺ سے زنا کی اجازت طلب کی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے تبسّم آویز انداز میں سمجھاتے ہوئے ارشاد فرمایا ... آپ بھی حدیث مبارک پڑھیے اور ایمان کو جِلاء بخشیں ۔
 عن أبي أمامة الباهلي :
أنَّ فتًى من قريشٍ أتى النَّبيَّ ﷺ فقال : يا رسولَ اللهِ !
ائذَنْ لي في الزِّنا.
فأقبَل القومُ عليه وزجَروه فقالوا :
 مَهْ مَهْ.
فقال : ادنُهْ. فدنا منه قريبًا.
فقال : أتُحِبُّه لأمِّك؟
قال : لا واللهِ جعَلني اللهُ فداك.
 قال : ولا النّاسُ يُحبُّونَه لأمَّهاتِهم.
 قال : أفتُحِبُّه لابنتِك؟
 قال : لا واللهِ يا رسولَ اللهِ! جعَلني اللهُ فداك.
قال : ولا النّاسُ يُحِبُّونَه لبناتِهم.
 قال : أفتُحِبُّه لأختِك؟
 قال : لا واللهِ يا رسولَ اللهِ! جعَلني اللهُ فداك.
قال : ولا النّاسُ يُحِبُّونه لأخواتِهم.
 قال : أتُحِبُّه لعمَّتِك؟
 قال : لا واللهِ يا رسولَ اللهِ! جعَلني اللهُ فداك.
قال : ولا النّاسُ يُحِبُّونَه لعمّاتِهم.
 قال : أتُحِبُّه لخالتِك؟
 قال : لا واللهِ يا رسولَ اللهِ! جعَلني اللهُ فداك.
قال : ولا النّاسُ يُحِبُّونَه لخالاتِهم.
 قال(أبو امامة الباهلي) : فوضَع يدَه عليه. 
 و قال : اللَّهمَّ اغفِرْ ذنبَه وطهِّرْ قلبَه وحصِّنْ فرجَه.
قال : فلم يكُنْ بعدَ ذلك الفتى يلتَفِتُ إلى شيءٍ.
(مجمع الزوائد: ١٣٥/١) 

ترجمہ :-

سیدنا امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ایک قریشی شخص، رسول اللہﷺ کے پاس آکر عرض گزار ہوا :
اے اللہ کے رسول ! ﷺ مجھے زِنا کی اجازت دے دیجیے !
لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے ڈانٹ ڈپٹ کر کہا:
رُک جاؤ،رک جاؤ، خاموش ہو جاؤ۔
رسول اکرم ﷺ نے دل آویز تبسّم کے ساتھ ارشاد فرمایا :
ذرا قریب آ جاؤ۔ وہ شخص آپ کے قریب آکر بیٹھ گیا۔
محسنِ انسانیت ﷺ نے اس سے فرمایا : کیا تم اس چیز{یعنی زنا کو} کو اپنی ماں کے لیے پسند کرتے ہو ؟
اس نے کہا : مجھے اللہ عزوجل آپ پر قربان کرے، نہیں اللہ کی قسم (میں اپنی ماں کے لیے یہ چیز پسند نہیں کرتا)۔
معراج کے دولہا نے فرمایا : لوگ بھی اپنی ماؤں کے لیے اس (زنا کی گندگی) کو پسند نہیں کرتے۔
(اچھا یہ بتاؤ کہ) کیا تم اپنی بیٹی کے لیے پسند کروگے ؟
اس نے کہا : مجھے اللہ عزوجل آپ پر قربان کرے، نہیں اللہ کی قسم (میں اپنی بیٹی کے لیے یہ خباثت پسند نہیں کروں گا)۔
سرکارِ کائنات نے فرمایا : اسی طرح لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے لیے اس چیز کو ناپسند کرتے ہیں۔
(چلو یہ بتاؤ کہ) کیا تم اسے اپنی بہن کے لیے پسند کرو گے ؟
اس نے کہا : اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کردے، نہیں بالکل بھی نہیں، اللہ کی قسم (نہیں)-
نبی کَونَین ﷺ نے فرمایا : لوگ بھی اس چیز کو اپنی بہنوں کے لیے ناپسند کرتے ہیں۔
(اچھا یہ بتاؤ کہ) کیا تم اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند کرو گے ؟
اس نے کہا : میں آپ پر قربان جاؤں، نہیں، (خدا کی قسم) نہیں۔
آپ نے فرمایا : لوگ بھی اسے اپنی پھوپھیوں کے لیے ناپسند کرتے ہیں۔
(اچھا یہ بتاؤ کہ) کیا تم اسے اپنی خالہ کے لیے پسند کرو گے ؟
اس نے کہا : میں آپ پر قربان جاؤں، نہیں، (خدا کی قسم) نہیں۔
آپ نے فرمایا : لوگ بھی اس چیز کو اپنی خالاؤں کے لیے ناپسند کرتے ہیں۔
پھر رسول اکرم ﷺ نے اس نو جوان پر اپنا دست مبارک رکھا اور یہ دعا فرمائی کہ : "اے اللہ تعالیٰ ! اس کے گناہ بخش دے اور اس کے دل کو پاک وصاف کر اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما-".
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہ نو جوان کسی ایسی چیز کی طرف مائل و متوجہ نہیں ہوتا تھا. (مجمع الزوائد ،امام ہیثمی)

رسول اکرم ﷺ نے بدکاری کے نقصانات سے امت کو آگاہ فرمایا اور کثرتِ اموات، عام عذاب الٰہی اور طاعون جیسی مہلک بیماریوں کا سبب زنا کو بتایا:- 
چناچہ ارشاد فرمایا :-
 لا تزالُ أمَّتي بخيرٍ ما لم يفْشِ فيه الزِّنا فإذا فشا فيهم الزِّنا فأوشك أن يعُمَّهم اللهُ بعذابٍ
 {الزواجر للهيتمي المكي (ت ٩٧٤)، ٢‏/١٣٦}

بروایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت ہمیشہ بھلائی پر قائم رہے گی جب تک اس میں زنا عام نہ ہو، جب زنا عام ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عام عذاب میں مبتلا کردے گا۔
  ولا فَشا الزِّنا في قومٍ قطُّ إلّا كثُرَ فيهمُ الموتُ•
{فتح الباري لابن حجر ١٠‏/٢٠٣}
جب کسی قوم میں زنا عام ہو جاتا ہے تو ان میں مَوت کی کثرت ہو جاتی ہے ۔
 لم تَظْهرِ الفاحِشةُ في قومٍ قطُّ حتى يُعلِنُوا بِها؛ إلا فَشا فِيهمُ الطاعونُ والأَوجاعُ التِي لم تكنْ مَضتْ في أسلافِهم الَّذين مَضَوا...
{سنن ابن ماجه: كِتَابُ الْفِتَنِ، بابٌ : الْعُقُوبَاتُ، حدیث نمبر :٤٠١٩، المعجم الأوسط للطبراني ، حدیث نمبر :٤٦٧١•} 

جس قوم میں زناکاری، بدکاری پھیل جاتی ہے اور بلا روک ٹوک ہونے لگتی ہے تو اللّٰہ تعالی ان لوگوں کو طاعون کی مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے اور ایسے دکھ درد میں مبتلا کر دیتاہے جس سے ان کے اسلاف نا آشنا تھے۔
  " تَبِيتُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى أَكْلٍ وَشُرْبٍ، وَلَهْوٍ وَلَعِبٍ، ثُمَّ يُصْبِحُونَ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ، وَيُبْعَثُ عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ أَحْيَائِهِمْ رِيحٌ، فَتَنْسِفُهُمْ كَمَا نَسَفَتْ مَنْ كَانَ قَبْلَهُمْ ؛ بِاسْتِحْلَالِهِمُ الْخُمُورَ، وَضَرْبِهِمْ بِالدُّفُوفِ، وَاتِّخَاذِهِمُ الْقَيْنَاتِ ".
{مسند أحمد: مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ: حَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، حدیث نمبر :٢٢٢٣١} 

        نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا ایک گروہ کھانے پینے اور کھیل کود پر رات گزارے گا پھر صبح اس حالت میں کریں گے کہ بندر اور خنزیر{سور} ہو جائیں گے ۔ اور ان کے زندہ رہنے والوں پر ایک ہوا بھیجی جائے گی تو وہ انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی جیسے ان سے پہلے لوگوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے شراب کو حلال ٹھہرایا، طبلہ بازی کی اور گانے والی عورتوں کے ساتھ راتیں رنگین کیں.
حضرت سلیمان بن یسار مشہور و معروف محدث ہیں ۔ ایک مرتبہ حج کے سفر پر روانہ ہوئے تو جنگل میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالا۔ آپ کے ساتھی کسی کام سے شہر گئے تو آپ اپنے خیمے میں اکیلے تھے اتنے میں ایک خوبصورت عورت آپ کے خیمے میں آئی اور کچھ مانگنے کا اشارہ کیا ۔ آپ نے اس کو کچھ کھانا دینا چاہا تو اس نے برملا کہا میں آپ سے وہ چاہتی ہوں جو جوان عورت ایک مرد سے چاہتی ہے۔ حضرت سلیمان بن یسار رحمہ اللہ نے یہ سنا تو سمجھ گئے کہ شیطان نے میری عمر بھر کی محنت ضائع کرنے کے لیے اس عورت کو بھیجا ہے ۔ وہ خوف خداوندی سے اتنا روئے اتنا روئے کہ وہ عورت شرمندہ ہوکر چلی گئی ۔ حضرت سلیمان بن یسار نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس مصیبت سے جان چھوٹی ۔ رات کو سوئے تو حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام کی خواب میں زیارت ہوئی ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا مبارکباد ہو ۔ تم نے ولی ہو کر وہ کام کر دکھایا جو ایک نبی نے کیا تھا ۔ {حیاء اور پاکدامنی،ص:٣٠}

ویلنٹائن ڈے میں بےحیائی اور فحاشی کا ایک سمندر نوجوانوں کے دلوں میں ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے، اس رات بڑے سے بڑا گناہ کیا جاتا ہے، بلکہ اس رات وہ سب کچھ ہوتا ہے، جو اللہ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند تھیں،حالانکہ اسلام میں جو پردے کا حکم نازل کیا وہ دراصل گناہوں، بےحیائی اور بد نگاہی سے بچنے کا اہم ذریعہ ہے، کیوں کہ بد نگاہی سے بچنا اصل کامیابی ہے،زیادہ تر گناہ بد نگاہی کی وجہ سے ہوتا ہے، اس لیے اپنے معاشرے کو ہر قسم کی برائیوں سے دور رکھا جائے تب حیا کا کلچر عام ہوگا، 

ویلنٹائن ڈے میں بھی یہ سب کچھ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو اسلامی اقدار و روایات کی سمجھ عطا فرمائے اور شریعت طاہرہ پر بحسن و خوبی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین بجاہ حبیبہ النبی الامین الکریم و بجاہ آلہ الکرام و اصحابہ العظام لاسیما الخلفاء الراشدین المھدیین علیہ و علیہم افضل الصلوٰۃو اکرم التسلیم ۔ تمت بالخیر۔

یہ مضامین بھی پڑھیں 👇




ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے