Advertisement

موجودہ حالات میں مسلمانوں کی از سر نو تعمیر وترقی کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی از مولانا حسان نظامی مصباحی


موجودہ حالات میں مسلمانوں کی از سر نو تعمیر وترقی کے لیے 

 ایک جامع منصوبہ بندی

                (ضرورت اور پلان

(ماقبل سے پیوست)

(چوتھی اور آخری قسط)

 تحریر : مولانا محمد حسان نظامی مصباحی

متعلم : جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔  


سبب چہارم :

 اپنی بقا اور اپنی عزت و سر بلندی کے سلسلے میں وقت اور زمانے کے تقاضوں سے چشم پوشی اور ا س کاانسداد : 

       وقت اور زمانے کے تقاضوں سے چشم پوشی نے بھی ہماری تنزلی اور پستی میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے ۔ آج میڈیا ہمارے خلاف ہے مگر اس کا جواب دینے کے لیے نہ تو ہمارا کوئی دم دار چینل ہے اور نہ ہی کوئی اخبار۔ اسی طرح فوج ،پولیس اور دوسرے اعلی اور با عزت محکموں میں ہماری شرح اونٹ کے منہ میں زیرے جیسی بلکہ اس سے بھی کم ہے ۔
ہمارا ایک بڑا طبقہ معاشی اعتبار سے بہت پست ہے لیکن ہمارے اہل ثروت حضرات کو ان کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں اہل ثروت حضرات کو چاہیے کہ بڑے بڑے کار خانے کھولیں اور ان میں ملازمت کے لیے اپنے مسلم بھائیوں کو مقدم رکھیں نیز اپنے لیے تھوڑا رکھیں اور اپنے مزدور بھائیوں کو ان کا پورا پورا حق بلکہ زیادہ دیں اور اللہ و رسول کی خوش نودی حاصل کریں ساتھ ہی ہمارے سیاسی اکابرین علاقے کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے سر کار سے ہر ممکن امداد غریبوں تک امانت داری کے ساتھ  پہنچائیں ،اس طرح ہماری معاشی حالت کا فی حد تک بہتر ہو سکتی ہے۔
یوں ہی ہم اپنی شادیوں میں کئی کئی لاکھ خرچ کرنے کی بجائے آسانی پیدا کریں اور اسلامی طریقے پر کم سے کم خرچ میں شادی کریں اور اس سے بچنے والی رقم لوجہ اللہ تعالی و رسولہ اپنے پڑوسیوں کی دست گیری میں خرچ کریں؛ ان کے بچوں کی تعلیم اور ان کے راشن پانی وغیرہ کا انتظام کر دیں۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ہماری غریب بچیوں کی شادیاں وقت پر آسانی کے ساتھ ہو جائیں گی ۔یہ بھی معاشی حالت کی بہتری کی جانب ایک قابل ستائش قدم ہوگا۔

اسی طرح اپنی آواز دنیا کے ہر خطے اور ملک کے ہر گوشے میں پہچانے کے لیے ہمارا  کم از کم ایک دم دار چینل اور اخبار ہونا چاہئے ۔اس کے لیے بھی اہل خیر حضرات آگے آکر چینل و اخبار کا قیام عمل میں لائیں خواہ بزنس ہی کے لیے کیوں نہ ہو۔۔۔ ہاں ! بزنس پر قوم کے سود و زیاں کوضرور مقدم رکھیں اور شریعت کے مطابق بزنس و تجارت کا طریقہ اختیار کریں۔ اس طرح بزنس بھی ہوگا اور قوم کی خدمت بھی۔ 
    ایسے متعدد مراکز بھی ہونے چاہیے جہاں ہمارے ہونہار طلبہ 
 U P S C   (UNION PUBLIC SERVICE COMMISSION) 

اور              S P S C (STATE PUBLIC SERVICE COMMISSION) 
 کی مفت تیاری کر سکیں 
اور  (INDIAN ADMINSTRATIVE SERVICE)I A S, P C S  (PROVINCIAL CIVIL SERVICE) 
 آفیسرز بن کر ملت کی زبوں حالی کو دور کرکے اسے سربلند کرنے میں اہم کردار ادا کرسکیں اور ایسے مراکز بھی جہاں ہمارے جوان فوج اور پولیس میں بھرتی کے لیے مفت ٹرینگ حاصل کر سکیں اور پھر ملک کی حفاظت اور انتظام میں حصہ لے کر ہمارا سر فخر سے اونچا کر سکیں۔ نیز شفا خانوں کا قیام بھی فراموش نہیں کیاجا سکتا جہاں عمدہ علاج و معالجہ کی سہولیت مناسب اجرت پر ہو اور غریبوں کے لیے مفت علاج کا بند و بست بھی ۔ کوشش یہ بھی ہو کہ ہماری ملت کے بچے اور بچیاں جو ڈاکٹر بننے کے خواہش مند ہیں ان کی تعلیم و تربیت کا معقول انتظام ہو۔ایسے ٹرسٹ اور ادارے بھی ہوں جو ایسا عظیم ہدف رکھنے والے غریب بچوں اور بچیوں کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں اور اگر ان کے گھر والے صاحب استطاعت ہوں تو وہ خود یہ ذمہ داری سمجھیں اور اپنے بچوں کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں اپنی ساری قوت صرف کر دیں۔

یہاں دو چیزیں محل نظر ہیں : 

اول یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو تعصب کی وجہ سے عموماً  نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور ہمیں نوکریاں نہیں ملتیں ،لیکن اس کی وجہ سے ہم تعلیم اور تیاری نہیں چھوڑ سکتے ہاں اس کے تدارک کے لیے ہم سب عمومی طور پر اور ہمارے سیاسی لیڈران خصوصی طور پر قانونی اور سیاسی لڑائی لڑتے رہیں لیکن بہر صورت قانون شکنی کا ارتکاب ہر گز نہ کریں۔
دوم یہ کہ ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے کافی سرمایہ کی ضرورت ہو گی۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہر مسلم مالک نصاب خواہ ملک کی کسی بھی گوشے اور خطے سے تعلق رکھتا ہو وہ اولا ڈھائی فیصد زکاۃ ایمان داری سے خوف خدا رکھ کر نکالے اور ڈھائی فیصد یا اس سے کم و بیش جتنا ہوسکے بخوشی اللہ اور اس کے رسول کی رضا کو مقدم رکھ کر قوم وملت کی ناؤ کو پار لگانے کے لیے مزید پیش کرے تاکہ جہاں زکاۃ کی رقم سے ہمارے غربا و مساکین اور مدارس و جامعات کی زندگی خوش آئند ہو وہیں مذکورہ منصوبوں کی بھی تکمیل ہوسکے ۔

لائحہ عمل : 

 مذکورہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری ہے کہ کام کو مختلف حصوں اور شعبوں میں تقسیم کر کے ہر شعبے کے لیے لائق اور فعال افراد پر مشتمل مجلس یا بورڈ بنا دیے جائیں تاکہ کام آسانی سے ہو سکے، نیز تین چار یا چار پانچ افراد پر مشتمل ایک تھنک ٹینک (THINK TANK) یا مجلس اعلیٰ ہو جو بالغ نظری کے ساتھ تمام منصوبوں کی جانچ اور انھیں عملی جامہ پہنانے کے لیے مجالس سازی،اصول سازی، تنفیذ و ترویج کی ذمہ دار ہو اسی طرح مشکلات اور رکاوٹوں پرغور کرنے اورانھیں دور کرنے پر بھی ان کی نظر ہو۔
ہر علاقہ کا دورہ کر کے وہاں کے حالات اور ضروریات کا جائزہ لیا جائے،قابل عمل اور لائق اعتماد افراد تلاش کیے جائیں اور وہاں کی ضرورتوں کی تکمیل طے شدہ خطوط کے مطابق ان کے سپرد کی جائے اور جہاں  پہلے ہی سے اپنے منصوبے کے مطابق ادارے وغیرہ قائم ہوں انھیں بھی تنظیم سے منسلک کیا جائے اور انھیں زیادہ فعال اور کار آمد بنایا جائے۔ نیز پیران عظام و اہل ثروت حضرات سے ملاقات کر کے طے شدہ منصوبے کے مطابق انہیں خدمت خلق کی دعوت دی جائے اور ان کے کام میں انھیں کو ذمہ دار بنادیا جائے، یوں ہی سبب چہارم میں سرمایہ کی حصولیابی کے طریقے پر عمل کرنے کے لئے کچھ مخلص افراد متعین کیے جائیں، اس طرح ہر جگہ کے حالات سے واقفیت بھی بہم ہوگی اور ہر علاقے کے نمائندے تھنک ٹینک (THINK TANK) یامجلس اعلیٰ کے ما تحت مجلس منتظمہ یا مجلس شوریٰ میں شامل ہوں گے اور برابر ان سے رابطہ رہ سکے گا۔
بہت بڑی مرکزی عمارت اور بہت سی آفسوں اور ورکروں کی بھی ضرورت ہوگی جو ہر علاقے کے حالات جاننے ،ان کی رپورٹ پیش کرنے اور عام ضروریات کے لیے اپنے متعلقہ مقامات کا دورہ کرنے کے ذمہ دار ہوں ۔ساری تفصیلات تھنک ٹینک (THINK TANK) یا مجلس اعلیٰ طے کر سکتی ہے۔اگر ملک گیر پیمانے پر آغاز مشکل ہو تو جس حد تک بآسانی ابتدا ہو سکے اسی حد پر کام شروع کیا جائے۔

سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ پیش قدمی کس طرح ہو ؟کہاں سے ہو ؟ اور کون کرے ؟

بہر حال یہ اقدام ایک یا چند حساس،درد مند،مخلص اور توانا قلب و جگر کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا مگر قوم کے خسارے سے صرف نظر کسی طرح روا نہیں،اقدام ہونا چاہیے اور ضرور ہونا چاہیے۔ واللہ الموفق والمعین۔
اگر سارے اکابر اور پیشوایان قوم اس میں دلچسپی نہیں لیتے توجو حساس اور درد مند حضرات ہیں وہی پیش قدمی کر کے کام شروع کریں اور آگے بڑھائیں ،باقی حضرات سے گزارش کی جائے گی کہ اگر حمایت اور مشارکت نہیں کر سکتے تو مخالفت اور رکاوٹ سے بھی باز رہیں ورنہ احکم الحاکمین کے حضور ملت کے خساروں کا حساب دینے کے لیے تیار رہیں۔
اگر ہماری اکثریت خصوصا اہل علم ودانش اور اہل ثروت میں یہ احساس بیدار ہو جائے کہ ہم مسلسل خساروں سے دو چار ہیں اور تلافی کے لیے میدان عمل میں جان و دل،ہوش و خرد اور زبان و عمل کے ساتھ سر گرم ہوناضروری ہے تو کام کی راہیں کھل سکتی ہیں ورنہ غفلت و بے حسی کے ماحول میں کامیابی کی توقع فضول ہے مگر اندازہ ہے کہ اکثریت حساس اور بیدار ہونے کے ساتھ کسی پیش قدمی کی منتظر ہے۔ وھو المستعان و علیہ التکلان۔

رب تعالیٰ ہمارا حسن ظن راست فرمائے اور سب کو حسب درجہ و مقام اور حسب ہمت و صلاحیت توفیق خیر سے نوازے ۔(اہل سنت کی شیرازہ بندی مسائل اور امکانات از خیر الاذکیا حضرت علامہ محمد احمد مصباحی، ناظم تعلیمات الجامعہ الاشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ یوپی)
اخیر میں استاذ گرامی صدرالعلما حضرت علامہ محمد احمد مصباحی دام ظلہ ہی کا ایک اور نہایت ہی زریں قول من و عن نقل کر رہا ہوں؛ آپ فرماتے ہیں:
’’آج کا وقت ایک دوسرے پر الزام اور ذمہ داری ڈالنے کا نہیں ،متحد ہو کر یا الگ الگ خود آگے بڑھنے اور ہر محاذ پر کام سنبھالنے کا ہے۔۔۔۔ہاں اگر اپنے فرض کا احساس نہ ہو ،نہ قوم کے زیاں کا درد ہو،نہ قیامت میں جواب کی فکر ہو،صرف زبانِ عوام سے چھٹکارا حاصل کرنا پیش نظر ہو تو ایک نہیں ہزار بہانے بنائے جا سکتے ہیں ۔‘‘(نوائے دل،مجموعہ خطبات ،مرتبہ مولانا جنید احمد مصباحی ،استاذالجامعہ الاشرفیہ مبارک پور ،اعظم گڑھ،ص:۱۳۳)
لہذاہم سب کو حسب درجہ و مقا م اور حسب ہمت وصلاحیت اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے کمر بستہ ہوم جانا چاہیے کیوں کہ     ؎


شکوۂ ظلمت شب سے توکہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے 


اللہ تبارک و تعالی ہمیں اپنے حبیب ﷺ اور آپ کے پیارے صحابہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیقِ رفیق مرحمت فرمائے ،ہماری عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت و صیانت فرمائے، دونوں جہاں میں ہمیں عزت سربلندی عطا کرے اور ہمارے ملک ہندستان کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنائے ۔
آمین بجاہ حبیبہ النبی الامین الکریم و بجاہ آلہ الکرام و اصحابہ العظام لاسیما الخلفاء الراشدین المھدیین علیہ و علیہم افضل الصلوٰۃو اکرم التسلیم  ۔ تمت بالخیر۔



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے