Advertisement

روزگار کی عدم فراہمی کے اسباب اور اس کے تدارک کے لیے چند رہنما اصول پہلی قسط از مولانا محمد ایوب مصباحی


 روزگار کی عدمِ فراہمی کے اسباب اور اس کے تدارک کے لیے

  چند رہنما اصول 

(پہلی قسط)


تحریر : مولانا محمد ایوب مصباحی۔ 

صدر المدرسین دار العلوم گلشنِ مصطفی، بہادر گنج، سلطان پور، مراداباد، یوپی۔ہند۔


     آج ہندوستان میں عام طور سے ہر طبقے میں اقتصادی زبوں حالی کسی بھی ذی شعور پر مخفی نہیں خصوصا مسلمان اور ان میں بھی زیادہ تر علما  و ائمہ جس کی کئی وجوہات و اسباب ہیں کچھ دینی اور کچھ دنیوی جن کا قدرے تفصیل سے ہم ذکر کریں گے، پھر اس کے تدارک کے لیے کچھ اصول قلم بند کرنے کی کوشش کریں گے کہ جن پر عمل پیرا ہوکر دنیا و آخرت کو سنوارنے کی کوشش کی جا سکے۔ 

رزق میں تنگی کے اسباب:

١۔ محدود فکر : 

 آج ہر انسان کی اور خصوصا طلبہ و اساتذۂ مدارس کی فکر کافی حد تک محدود ہوچکی ہے۔ مثلا طلبہ کا ٹارگیٹ اور مطمحہ نظر صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ مدارس اسلامیہ میں صرف اس قدر تعلیم حاصل کرلیں کہ وہ ایک اچھے پیشہ ور خطیب بن جائیں یا کم از کم اتنا بولنا سیکھ جائیں کہ کہیں بھی سال دوسال پڑھ کر مناسب امامت لگاکر اپنی زندگی بسر کرسکیں جس سے کئی ایک نقصان ہوتے ہیں کہ وہ لوگ جو خود اصلاح طلب ہوتے ہیں وہ قوم کی اصلاح و رہنمائی کا فریضہ انجام دینے لگتے ہیں اور قلتِ علم کے باعث ان میں بہت سی اخلاقی خرابیاں رونما ہوجاتی ہیں کہ وہ اس بات پر تیار ہوجاتے ہیں کہ انھیں یہاں رکھ لیا جائے یا یہاں سے نہ ہٹایا جائے چاہے معقول ماہانہ وظیفہ جاری ہو یا نہ ہو، در اصل تحصیل علم میں انتھک جدوجہد نہ کرنے کے سبب وہ جانتے ہیں کہ وہ اسی کے لائق ہیں یہی حال ہر کم پڑھے لکھے ملازم کا ہے الا ماشاء اللّٰه۔ 

   ٢۔ توکل کا فقدان : 

 سرکاری دفاتر سے لےکر عام پرائویٹ اداروں و محکموں اور شعبوں میں ملازمین کا توکل سے خالی ہونا یعنی اپنی ملازمت کو حتمی اور یقینی بنانے کے لیے اور تادیر اس میں استقلال لانے کے لیے ناظمِ اعلی، صدر، ٹرسٹیوں، اور ذمہ داران کی خوشامد اور ان کی جھوٹی تعریف میں قصیدے نظم کرنا ہے، لیکن ان حضرات میں جو باشعور ہوتے ہیں وہ اولِ نظر میں سمجھ جاتے ہیں کہ خوشامد کرنے والے ملازمین سے کس قدر دین کا زیاں ہے کہ وہ یہ کارنامہ اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے کرتے ہیں( اور یقینا ان اشخاص کو سمجھنا اور پرکھنا بہت ضروری ہے کہ خانقاہوں اور بیشتر مدارس و مراکز میں بھی خسارہ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے ہوا ہے) جس سے ان کے رزق کے وسائل تنگ ہوجاتے ہیں کہ اولا تو انھیں کوئی رکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی جاتا ہے تو معقول وظیفے کا انصرام ناتمام ہوتاہے۔اس کے علاوہ اگر وہ امانت داری سے دین کی خدمت کرتے اور رزقِ وافر کی امید اللّٰہ تعالیٰ سے رکھتے تو وہ غیب سے اس کے سامان ضرور مہیا فرماتا۔

   ٣۔  کسبِ معاش میں کاہلی : 

 انسان کا وطیرہ آج یہ ہوگیا ہے کہ وہ کام سے بچنا چاہتا ہے اور اپنے جسم کو آرام کا عادی بنا لیتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی سعی کسبِ معاش کے تئیں اس قدر رہتی ہے کہ وہ اتنا کمالے جتنا کھالے، حالاں کہ مستقبل کی فکر بھی انسان کو ہونی چاہیے چیونٹی جس کی ایک بہترین مثال ہے کہ وہ بارش کے موسم کا انتظام و انصرام موسمِ گرما میں ہی کرلیتی ہے اور یہ توکل کے خلاف بھی نہیں ہے اس لیے کہ انسان حقیقی رازق صرف اللہ کو تصور کرے لیکن اسباب و وسائل خود مہیا کرے جو ان دو آیتوں : "وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزۡقُہَا" اور  "هُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ ذَلُوۡلًا فَامۡشُوۡا فِیۡ مَنَاکِبِہَا" کے درمیان تطبیقِ انیق بھی ہے۔

۴۔ ذکرِ الہی سے اعراض :

 اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا (س:طہ،آیت:١٢۴) 
ترجمہ : اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا اس کے لیے تنگ زندگانی ہے۔ (کنزالایمان) 
     اس آیت کی تفسیر میں صدر الافاضل فخر الاماثل نعیم الدین مرادابادی تفسیرِ خزائن العرفان میں فرماتے ہیں : 

"دنیا میں، یاقبر میں، یاآخرت میں، یا دین میں، یا ان سب میں؛

دنیا کی تنگ زندگانی یہ ہے کہ ہدایت کا اتباع نہ کرنے سے عملِ بد اور حرام میں مبتلا ہو یا قناعت سے محروم ہوکر گرفتارِ حرص ہوجائے اور کثرتِ مال و اسباب سے بھی اسے فراغِ خاطر (بے فکری) اور سکونِ قلب میسر نہ ہو، دل ہر چیز کی طلب میں آوارہ ہو اور حرص کے غموں سے کہ یہ نہیں وہ نہیں، حال تاریک اور وقت خراب رہے اور مومن متوکل کی طرح اسے سکون وفراغ حاصل ہی نہ ہو۔جس کو حیاتِ طیبہ کہتے ہیں : قال تعالیٰ فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ۚ  (تو ضرور ہم اسے اچھی زندگی جلائیں گے) اور قبر کی تنگ زندگانی یہ ہے کہ حدیث شریف میں وارد ہوا کہ کافر پر اس کی قبر میں ننانوے اژدہے مسلط کیے جاتے ہیں، اور آخرت میں تنگ زندگانی جہنم کے عذاب ہیں ،جہاں زقوم(تھوہڑ) یعنی دھتورا اور کھولتا پانی اور جہنمیوں کے خون اور ان کے پیپ کھانے پینے کو دیے جائیں گے، اور دین میں تنگ زندگانی یہ ہے کہ نیکی کی راہیں تنگ ہوجائیں اور آدمی کسبِ حرام میں مبتلا ہو۔" 

۵۔ تجارت میں قسم کھانا : 

 تجارت میں قسم کھانا بھی تنگیی رزق اور بے برکتی کا ایک سبب ہے ۔ حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں، کہ آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ "تجارت میں قسم کی کثرت سے پرہیز کرو کہ یہ اگرچہ مال کو بکوا دیتی ہے مگر برکت کو مٹادیتی ہے۔"(مسلم شریف، کتاب المسافاتِ والمزارعۃ ، باب النھی عن الخلف، ص : ٨۶۵/مکتبہ دارِ حزم بیروت) 

۶۔ مال کے لالچ میں امیر گھرانے میں شادی کرنا :

 یہ بلا بہت عام ہوچکی ہے کہ بچے جوان ہوجاتے ہیں اور ان کے اولیا اولا تو شادی ہی نہیں کرتے اور اگر شادی کے بارے میں سوچتے بھی ہیں تو طرح طرح کی ڈیمانڈ و مطالبات ؛ کہ جہیز میں یہ چاہیے وہ چاہیے، کھانا ایسا ویسا ہو پھر یہ سب حاصل کرنے کے چکر میں بڑے گھرانے میں شادی تاکہ مال کثرت سے حاصل ہوجائے حالاں کہ جو شخص دوسرے مال پر نظر رکھ کر شادی کرتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اسے اور زیادہ محتاج و فقیر بنا دیتا ہے آج تک بیوی کے مال سے کوئی مال والا نہیں ہوا۔ حدیث شریف میں ہے : آقاے کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "جو کسی عورت سے اس کی عزت کے سبب نکاح کرے اللّٰہ تعالیٰ اس کی ذلت میں اضافہ فرمائے گا اور جو کسی عورت سے اس کے مال کی وجہ سے نکاح کرے اللہ تعالیٰ اس کی محتاجی ہی بڑھائے گا اور جو کسی عورت کے حسب (خاندانی مرتبے) کی وجہ سے نکاح کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے کمینے پن میں اضافہ فرمائے گا"۔ (المعجم الاوسط، ج:٢،ص:١٨،حدیث:٢٣۴٢)

(جاری)

یہ بھی پڑھیں 👇


ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے