Advertisement

موجودہ حالات میں مسلمانوں کی از سر نو تعمیر وترقی کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی دوسری قسط از مولانا محمد حسان نظامی مصباحی


موجودہ حالات میں مسلمانوں کی از سر نو تعمیر وترقی کے لیے 

ایک جامع منصوبہ بندی

(ضرورت اور پلان)


گزشتہ سے پیوستہ

دوسری قسط

 تحریر : مولانا محمد حسان نظامی مصباحی

متعلم : جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔


سبب اول : 

 دین متین سے بیزاری ، اپنے مقصد حیات کی فراموشی اور اس کا طریقۂ انسداد :

 چودہ سو سال قبل ہی اللّٰہ تعالی نے اپنے مقدس کلام قران مجید میں انس و جن کے مقصد حیات کے رخ پرنور سے نقاب کشائی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : 
وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾
ترجمہ : ہم نے جن و انس کو اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ۔(سورہ ذاریات، آیت : ۵۶)
عبادت کے زمرے میں وہ تمام امور آتے ہیں جن میں رضائے الٰہی مقدم اور شریعت مطہرہ جن کی اسا س ہو ۔
پھر رب تعالی نے حضرت انسان کو اپنی خلافت کے منصب جلیل پر فائز کیا اور ابدی سر بلندی و سربراہی کا بے مثال سبق بھی پڑھادیا ؛ ارشاد ہوا :
وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۳۹﴾
 ترجمہ : اور تمھیں غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو۔ (سورہ آل عمران ، آیت : ۱۳۹ )
اور اس عظیم درس کی مکمل توضیح و تشریح آقائے کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے وجود مسعود کی شکل میں ہمارے سامنے رکھ دی اور فرمایا :
لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ﴿ؕ۲۱{
 ترجمہ : بے شک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے ۔(سورہ احزاب، آیت : ۲۱)
اور تاریخ شاہد ہے کہ جب تک قوم مسلم اس درس حیات پر مکمل طور سے عمل پیرا رہی عزت و سربلندی اس کے قدم چومتی رہی اور جب بھی اس درس عظیم سے غفلت و بے اعتنائی کا شکار ہوئی اللہ تعالیٰ کی گرفت اور اس کی آزمائش نے اسے آلیا۔۔۔آج ہماری خستہ حالی بھی اپنے مقصد حیات کی فراموشی ہی کا نتیجہ ہے اوریہ ایک بڑی بیماری ہے جس کا علاج ضروری ہے۔
اس بیماری کے علاج اور ملت کے ہر ہر فرد کو سر بلندی کا درس دینے کے لیے دو محاذوں پر کام کرنا ہوگا ۔

اول : اپنے نو نہالوں کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دینا۔

دوم : دین بیزار لوگوں کو دین سے قریب لانا۔


پہلا محاذ :

 اپنے نونہالوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینا :

      اس کے لیے ہمیں اپنے مدارس و مکاتب کے فرسودہ نظام کو تابناک بنا نا ہوگا۔
        دیکھاجاتا ہے کہ ابتدائی تعلیم کے مدارس و مکاتب میں تیس تیس ،چالیس چالیس بچوں کو ایک ہی کلاس میں ٹھونس دیا جاتا ہے، اوردرجہ طفلان میں تو یہ تعداد پچاس ساٹھ کی گنتی بھی کراس (Cross) کر جاتی ہے ۔
       اب ایسی صورت میں استاذ محترم کا بیش تر وقت بچوں کو بٹھانے اور ان کے جھگڑے چھڑانے کی نذر ہو جاتا ہے ، طلبہ کی تعداد کے سامنے دعا خوانی کے بعد سے چھٹی ہونے تک کا پورا وقت پہلے ہی سے تنگی داماں کا شکوہ کناں تھا اور اب تو بیش تر وقت ضائع بھی ہوگیا اب اچھی تعلیم کی توقع قیاس سے بعید ہے۔ تنگی وقت کا یہ شکوہ صرف درجہ طفلان کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ دوسری جماعتیں بھی اس درجہ کے ہم رکاب ہیں ۔
چناں چہ طلبہ کی تعداد کے اعتبار سے ہر جماعت کی گروپ بندی کی جائے اور مزید اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں۔      
 اب اس موڑ پر اساتذہ کی تنخواہ کا مسئلہ ایک بڑی رکاوٹ کھڑی کرے گا لیکن یہ رکاوٹ بھی ہماری ذراسی توجہ سے ٹل سکتی ہے؛ ہمارے یہاں جلسے جلوسوں کی کثرت ہے جن میں کافی روپیہ صرف کر دیا جاتا ہے بسا اوقات ایک ایک مقرر اور شاعر کے ایک رات کے نذرانے میں تیس چالیس ہزار سے ساٹھ ستر ہزارتک بلکہ اس سے بھی زیادہ رقم خرچ کر دی جاتی ہے یہ بھی مشاہدے میں ہے کہ بعض گاؤں میں سال میں ایسے دو دو جلسے عموما ہوتے ہیں ؛ ایک عرس کے نام پر تو دوسرا مدرسے کی جانب سے۔ اگر ہم ان اخراجات کو کم کردیں اور ایک سال میں ایک ہی جلسے پر اکتفا کریں اور اس ایک جلسے میں بھی اخراجات کو سمیٹنے کی کوشش کریں ؛ اس طور پر کہ ہم اپنے گاؤں یا قریبی مدارس کے دین کا درد رکھنے والے علما کو مدعو کریں اور بچنے والی رقم اپنے مدارس کے لیے مختص کردیں تو ہماری مشکلات کافی حد تک حل ہو سکتی ہیں نیز ارباب مدارس اساتذہ کو معقول معاوضہ دیں تاکہ وہ اپنی آمدنی و اخراجات سے بے فکر ہو کر ہمارے نو نہالوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دے سکیں ۔
        نیز اساتذہ قابل و ماہر ہوں اوران میں دو تین اچھے خطیب بھی ہوں جنہیں تقریروں کے لیے باہر بھیج کر علاقے کی تبلیغی ضرورت کو پورا کیا جاسکے۔ تدریس سے ان کا تعلق جزوی ہو اور ان کی غیر حاضری میں دیگر مدرسین کی خالی گھنٹیوں کے ذریعہ متبادل انتظام ابتدا ہی سے نظام الاوقات میں شامل ہو۔ ضرورت ہو تو ایسے مقبول مقررین کو صرف مبلغ کے طور پر بھی رکھا جا سکتا ہے ۔ جو مدرسین اپنے طور پر پروگرام کرتے ہیں وہ اسے ملحوظ رکھیں کہ تعلیمی نقصان کے بغیر لوگوں کی ضروریات یا اپنی ضروریات پوری کی جائیں ۔(ملخصاً رہنماے علم و عمل از خیر الاذکیا علامہ محمد احمد مصباحی دام ظلہ ،ص :۲۰
       سب سے اہم یہ کہ ہمارے ماہر تعلیم علما اور دانشوران سے ابتدائی تعلیم کا ایک ایسا نصاب اور نظام مرتب کرایا جائے جو دینی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کو بھی بحسن و خوبی پورا کر سکے ۔

دوسرا محاذ :

دین بیزار لوگوں کو دین سے قریب لانا :

      اس ضمن میں ہمیں دعوت و تبلیغ کے روحانی طریقے کو فروغ دینا ہوگا ؛ اس سلسلے میں ایک اہم کردار اوپر مذکورہ اصولوں کے مطابق منعقد ہونے والے ہمارے جلسے کریں گے اور دوسرا اہم رول ہماری مساجد کے ائمہ کا ہے ؛ ایک طرف ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ائمۂ کرام کا ادب و احترام ملحوظ خاطر رکھیں اور ان کی ضروریات کا پورا پوراخیال رکھیں اور دوسری جانب ائمۂ کرام اپنے ذمہ یہ لازم کر لیں کہ جہاں تک ممکن ہو چند مخلصین کے ساتھ اپنے حلقے کا دورہ کر کے دعوت و تبلیغ کے نورانی مشن کو انجام دیں اور جمعہ کے دن وقت کے تقاضے کے مطابق ایک جامع خطبہ دے کر عوام الناس کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیں اور ان میں قوت فکر و عمل پیدا کریں کیوں کہ یہ گردش ایام ہماری قوت فکر و عمل کے فقدان ہی کا نتیجہ ہے ؛ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان عالی شان ہے :

اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ؕ﴿۱۱﴾
  ترجمہ : بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کو گردش میں نہیں ڈالتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہ بدل ڈالیں۔ ( سورہ رعد ، آیت : ۱۱)
ڈاکٹر اقبال نے کہا ہے :

قوت فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے

تب کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے

(جاری)




ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے