Advertisement

موجودہ حالات میں مسلمانوں کی از سر نو تعمیر وترقی کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی از مولانا حسان نظامی مصباحی


موجودہ حالات میں مسلمانوں کی از سر نو تعمیر وترقی کے لیے 

ایک جامع منصوبہ بندی

(ضرورت اور پلان)

گزشتہ سے پیوستہ

تیسری قسط

 تحریر : مولانا محمد حسان نظامی مصباحی

متعلم : جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔


سبب دوم :

 علم سے دوری ،اس کے حصول سے غفلت اور اس کا طریقہ تدارک : 

 تعلیم کے تین مدارج ہوتے ہیں  اول : ابتدائی ، دوم : ثانوی،  سوم : اعلیٰ۔ 

ابتدائی تعلیم کے موجودہ حالات اور اس میں بہتری لانے کے طریقے پر ہم سبب اول کے ضمن میں گفتگو کر چکے ہیں، ثانوی اور اعلی تعلیم کی اگر بات کریں تو وہاں بھی ہماری غفلتیں عروج پر ہیں؛ اولا تو ہم اپنے بچوں کو بغیر کسی تعلیم کے یا ابتدائی تعلیم کے بعد ہی کسب معاش پر لگا دیتے ہیں اور اگر کسی طرح ثانوی تعلیم حاصل بھی کر لیں تو اعلیٰ تعلیم سے روکنے کے لیے بہت ساری وجوہات ہم پیش کر دیتے ہیں یوں سارے کیے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے اس پر طرہ یہ کہ اعلیٰ و ثانوی تعلیم کے ادارے بھی بے توجہی کے شکار ہیں۔
خیر الاذکیا ،ماہر تعلیمات حضرت علامہ محمد احمد مصباحی دام ظلہ ،ناظم تعلیمات الجامعہ الاشرفیہ مبارک پور ،اعظم گڑھ فرماتے ہیں :
"عربی مدارس کسی بھی جماعت کے ہوں سب کا حال یکساں ہے؛ بعض ایسے ہیں جن کا معیار تعلیم بڑی حد تک قابل تحسین و ستائش ہے اور زیادہ تر وہ ہیں جن کا حال خراب ہے اور مدارس عربیہ سے ابتر حال بیشتر کالجوں اور اسکولوں کا ہے۔ جس کے نتیجے میں پورے ملک کے طول و عرض میں سند یافتہ نا اہلوں کی بہت بڑی بھیڑ جمع ہوتی جارہی ہے جبکہ ہماری حکومت کا کثیر سرمایہ بھی ان کے اوپر خرچ ہوتا ہے لیکن صورت حال نے دانشوروں کو محو حیرت بنا رکھا ہے۔"(رہنماے علم و عمل ، ص : ۹)۔

اگر کچھ اسکول و کالج بظاہر اعلیٰ معیار پر دِکھتے بھی ہیں تو ان کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ نسل نو کے دل دماغ سے مذہبی اسپرٹ بالکل ختم کر دی جائے اور وہ یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ ہم کیا ہیں ؟ ہمارا مقصد وجود کیا ہے ؟
افسوس یہ ہے کہ مسلم اہل ثروت بھی اپنے بچوں کو ایسی درسگاہوں میں داخل کرا رہے ہیں جس کا لازمی نتیجہ مذہب سے بیزاری اور اسلامی اخلاق و تہذیب سے نا آشنائی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
ہونا یہ چاہیے کہ اہل ثروت مادی نفع عاجل کی ہوس کو چھوڑ کر ابدی سرمدی سر بلندی و سرخروئی کا رخ کریں اور ایسی درسگاہیں قائم کریں جن میں عصری طرز تعلیم کی بھر پور رعایت کی جائے ساتھ ہی طلبہ کو اس اخلاق و تہذیب کا حامل بنایا جائے جس کا تقاضا مذہب اسلام کرتا ہے؛ ان درسگاہوں میں ابتدا ہی سے قرآن مجید اور دینیات کی تعلیم دی جائے اور عصری علوم بھی پڑھائے جائیں تاکہ ایک طرف وہ بچے مذہبی جذبات و عواطف اور اسلامی اسپرٹ سے سرشار نظر آئیں اور دوسری طرف عصری فنون کے ماہر ہو کر ہر عصری ماہر علوم کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر بات کرنے کی ہمت اور اسلام کی حقانیت و بر تری ثابت کرنے کی صلاحیت بھی رکھیں۔ (مفہوماً و ملخصاً رہنماے علم و عمل، ص : ۷ ، ۸)۔
نیز وہ حضرات جن پر اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دروازے کھول رکھے ہیں اور بے پایاں دولت وثروت سے نوازا ہے وہ مختلف علاقوں میں لا کالج ،انجینیرنگ کالج اور سائنسی ادارے قائم کریں جہاں بالعموم ملک کے تمام طلبہ اور بالخصوص مسلم طلبہ معمولی معاوضے پر یاضرورت مند ہوں تو فری اور بلا معاوضہ اعلیٰ تعلیم حاصل سکیں اور بلاخوف و خطر وہ ترقی کی شاہراہ پر دوڑ سکیں۔
یوں ہی ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے دینی ادارے بھی ماہر تعلیم علما اور دانشوروں کے مشورے سے اعلیٰ نظام تعلیم و نصاب تعلیم مرتب کر کے اسے عملی جامہ پہنائیں کیوں کہ مدارس و جامعات ہمارے دین کے قلعے ہیں، آج ہمارے دین کی بقا انھیں اداروں پر ہے، وہیں پر ہمارے دین کے سپاہی؛ حفاظ، علما، فقہا اور محدثین کا عظیم دستہ تیار ہوتا ہے جو تادم حیات دین کی حفاظت اور دفاع کے لیے تیار رہتا ہے۔ ان کی مالی مشکلات کو حل کرنا ہماری خانقاہوں کے پیران عظام اپنا منصبی فریضہ سمجھیں۔ 


سبب سوم : 

 سیاسی میدان کو غیروں اور ملت کا درد نہ رکھنے والے دین بیزار دولت کے پجاریوں کے لیے خالی چھوڑ دینا اور اس کا تصفیہ : 

 سیاست کے معنی لوگوں کے معاملا ت سنبھالنے اور ان کے لیے تدبیر و انتظام کر نے کے ہیں اور یہ نا پسندیدہ کام تو ہے نہیں بلکہ اگر اسلامی اصولوں پر سیاست کی جائے تو یہ باعث ثواب بھی ہے لیکن افسوس آج ہمارے اکثر علما، دیگر اہل علم اور ملت کا درد رکھنے والے حضرات اسے نا پسند کرتے ہیں اور اس سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح سے یہ میدان غیروں اور دین بیزار ہوس کے پجاریوں کے لیے خالی اور ان کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کی آج ہم ہر قسم کے ظلم ستم کے ہدف عظیم بنے ہوئے ہیں اور حکومت کے ایوانوں میں ہمارے مسائل کو اٹھانے والے اتنے قلیل ہیں کہ ہما رے لیے ان کی چیخ و پکار خاطر خواہ اثر انداز ہی نہیں ہو پاتی ۔
ایسے نازک وقت میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ علما اور دیگر اہل علم و درمندان ملت سیاسی میدان میں آئیں اور اسلامی طرز سیاست کو اپنا کر قوم و ملت کی قیادت کریں اور ملک کو دوبارہ امن و سلامتی اور یکجہتی و سالمیت کے لہلہاتے چمن میں تبدیل کردیں ۔
ایک طرف ہمارے سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے اکابرین و دردمندان ملت ملکی و صوبائی سیاست میں پوری طرح منظم طریقے سے سرگرم عمل ہو جائیں اور ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے ہر جائز طریقہ اور حکمت عملی کو اپنائیں وہیں دوسری جانب کچھ دیگر علم دوست احباب علاقائی سیاست میں قدم جمائیں مثلاً گرام پنچایت ،ضلع پنچایت وغیرہ انتخابات میں حصہ لیں اور اپنے قدم جمانے کے لیے شریعت مطہرہ کی روشنی میں ہر ممکن کوشش کریں؛ اپنے حلقے کے افراد کی بلا تفریق مذہب و مسلک اسلامی طریقے پر خبر گیری اور مدد کریں اور خدا نہ خواستہ اگر ہار جائیں تو مایوسی کو اپنے گرد نہ بھٹکنے دیں اور حسبِ سابق لوگوں کی حتی الامکان خدمت کرتے رہیں اور اگر خدائے تعالی انہیں فتح و کامرانی سے نوازے تو لوگوں کی خبر گیری و داد رسی کے اس عمل کو اپنے اوپر لازم کرلیں۔ اس طرح سے ایک نہ ایک دن اہل وطن کی مشام جاں کو اسلامی سیاست کی باد نسیم معطر کردے گی اور وہ موجودہ گندی سیاست کی مسموم فضا سے باہر نکل آئیں گے اور پھر سے ہمارے گلستاں میں یک جہتی کی بلبل اور سونے کی چڑیا چہچہانے لگے گی۔ مانا کہ یہ کام مشکل اور وقت طلب ہے مگر نا ممکن نہیں اس لیے  ؎
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے 

(جاری)



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے