Advertisement

گزرے ہوئے دن اور ملٹی میڈیا کا موجودہ دور از مولانا محمد فہیم جیلانی مصباحی


گزرے ہوئے دن اور  ملٹی میڈیا  کا موجودہ دور 



 تحریر : مولانا محمد فہیم جیلانی مصباحی

متعلم : جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔


         ایک وہ دور بھی تھا کہ گاؤں کی کچی سڑکیں ہوا کرتیں تھیں اور پھونس کے مکان، لوگ گاؤں میں رہ کر اپنی زندگی کو گزار دیتے، نوجوان شام کو دالان میں کبڈی کا کھیل جماتے تو دوسری طرف چھوٹی چھوٹی بچیاں زمین پہ پالا بنا کر پائیں پتہ [ایک قسم کا کھیل] کھیلتیں تھی اور بوڑھے حضرات  حقہ پیتے ہوئے  ٹھٹھے لگا کر ریڈیو پہ آنے والی خبروں سے لطف اندوز ہوتے، وہیں پرندے بھی مشرق سے مغرب کی جانب پرواز کرتے ہوئے اپنے گھونسلہ کی طرف روانہ ہونے لگتے، ایک عجیب ہی ماحول  ہوا کرتا تھا کہ ایک طرف محلہ کے بچوں کا شور تو دوسری طرف پرندوں کا چہچہانا  جیسے ہی شام قریب ہونے لگتی بچے اپنے گھروں کو آجاتے، اذانِ مغرب ہوتے ہی گھر کی  ڈبیہ (چراغ) کو روشن کردیا جاتا بہت ہی جلد کھانا کھا کر بستر پہ آجاتے اس وقت ٹی وی عام طور سے لوگوں کے گھروں میں نہیں ہوا کرتی تھی نہ ہی موبائل وغیرہ، بچے اپنے والدین کے پاس بیٹھ کر اپنے بزرگوں کی کہانیاں سنتے نیز یہ کہ دنیاوی بادشاہوں کی قصہ کہانی سنے بغیر نیند نہیں آتی تھی، بچہ اپنے والدین کے ساتھ ہی اپنے اوقات گزارتے، ان دنوں دادا دادی بھی ایک ہی گھر میں رہا کرتے تھے، بچہ آپس میں ضد کرتے کہ "دادی کے پاس مجھے سونا ہے مجھے سونا ہے"، پڑوسیوں سے اچھے تعلقات ہوا کرتے، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوا کرتا،  کوئی کسی سے بڑا نہیں ہوا کرتا، نہ ہی کسی کے دل میں دوسروں کے لیے بغض و حسد، ایک دوسرے کے گھر میں آنا جانا لگا رہتا، گرمیوں کے دنوں میں دوپہر کو تمام محلہ والے چھوٹے بڑے ایک نیم [ بطور مثال، خواہ کوئی بھی درخت ہو ] کے درخت کے نیچے بیٹھ جاتے اور گپ شپ لڑاتے اپنی محبتوں کا بھرپور طریقہ سے اظہار کرتے، ریڈیو پہ بہت اچھے انداز سے خبریں پیش کی جاتیں جس کو سن کر لوگ اپنی معلومات میں اضافہ کرتے، ہر ایک طرف اتحاد چاہے ہندو ہو یا مسلم وغیرہ۔
         لیکن اب یہ تمام چیزیں بدل چکی ہیں، سوشل میڈیا تیزی کے ساتھ اپنی جڑوں کو پوری دنیا میں پھیلا چکا ہے وہیں لوگوں نے اپنے طرز کار کو مختلف انداز سے عوام میں پیش کرنا شروع کردیا ہے، کسی نے اپنی زندگی کے لمحات کو ویڈیو میں ڈھال کر یوٹیوب کے نظر کردیا ہے تو کوئی اپنے خیالات کو آواز ریکارڈر کے ذریعہ اطراف و اکناف میں نشر کر رہا ہے، اب شام وہ شام نہیں رہی، اب پرندے بھی نظر نہیں آتے، نہ وہ گھر رہے کہ دادا دادی کو گھر میں رکھا جائے، پڑوسی بھی ایک دوسرے کی تنگ نظری کی وجہ سے دور ہوچکے، لوگ پاس رہ کر بھی دور رہنے لگے، باپ  بیٹے سے گفتگو کے لیے ترستا ہے، بیٹا فون میں مصروف ہونے کے سبب ٹائم نہیں دے پا رہا ہے۔
         ہائے افسوس ! آج وہ دور پلٹ کر نہیں آسکتا۔ تو کیا وہ محبتیں پھر باقی نہیں رکھی جا سکتیں ؟ کیا پڑوسیوں کے ساتھ حسن اخلاق کے ساتھ پیش نہیں آسکتے ؟ ہمیں ضرورت ہے پھر اسی دور کی، بھائی چارہ کو باقی رکھنے کی۔
        آج ہم ملٹی میڈیا دَور سے اگر چہ نہیں بچ سکتے پر اتحاد آج بھی قائم کرسکتے ہیں، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کرسکتے ہیں، اپنے والدین کے ساتھ اپنی ضروریات ضرور  شیئر کرسکتے ہیں۔

یہ مضامین بھی پڑھیں 👇



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے