Advertisement

موجودہ حالات میں مسلمانوں کی از سر نو تعمیر وترقی کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی پہلی قسط از مولانا محمد حسان نظامی مصباحی


 موجودہ حالات میں مسلمانوں کی از سر نو تعمیر وترقی کے لیے 

 ایک جامع منصوبہ بندی 

(ضرورت اور پلان)

(پہلی قسط)

 تحریر : مولانا محمد حسان نظامی مصباحی

متعلم : جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔


مبسملا و حامدا و مصلیا

ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں آزادی کے بعد سے اب تک مسلمان مسلسل پستی و زبوں حالی کی قعر مذلت میں گرتا چلا جا رہا ہے۔
           وہ مسلمان جس نے اپنے پیارے وطن کی آزادی کی جد وجہد میں اپنی جان و مال کو بے دریغ قربان کر دیا، جس کی قیادت کرنے والے سیکڑوں علما، دانش ور اور ملی رہنما اپنے محبوب وطن کے لیے مسکراتے ہوئے تختۂ دار پر چڑھ گئے لیکن ظالم انگریزوں کے آگے سر نہ جھکایا، آج اس مسلمان کا کوئی پر سان حال نہیں ہے، اس کی زندگی کس مپرسی کی ایک جیتی جاگتی تصویر بن چکی ہے، خوف و دہشت نے ہر چہار جانب سے اسے گھیر رکھا ہے، طرح طرح کے ظلم وستم کے پہاڑ اس پر توڑے جارہے ہیں، مختلف بہانے بنا کر ماب لنچنگ اور ہجومی تشدد کے ذریعہ اس کا استیصال کیا جارہا ہے، اس کی عبادت گاہوں اور تعلیمی اداروں کونقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے اس پر مستزاد یہ کہ حکومت بھی ان کے ساتھ سوتیلا برتائو کر رہی ہے، بلکہ موجودہ حکومت ہی کیا آزادی کے بعد سے اب تک کی دوسری سبھی حکومتوں نے بھی مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک سمجھا ہے اور ہمیشہ ان کے سلسلے میں دوغلی پالیسی پر ہی عمل کیا ہے۔
       حکومت کی قانونی ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ مسلم اور دیگر پسماندہ طبقات کی تعمیر و ترقی اور ان کے روشن مستقبل کے لیے ٹھوس اور مضبوط لائحۂ عمل تیار کر کے اس پر عمل در آمد کر وائے اور انہیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرے لیکن افسوس خود حکومت نے کانسٹی ٹیوشن (CONSTITUTION) کو پس پشت ڈال کر مسلمانوں کے مسائل اور ان کی مشکلات کو دو چند کرنے کی ہی کوشش کی ہے؛ یہی کیا کم تھا کہ وراثت اور نکاح و طلاق کے مسائل شرعیہ میں مداخلت کر کے مسلم پرسنل لا کو تہس نہس کیا اب تو یہ حکومت مسلمانو ں کو بے گھر و بے وطن کرنے اور دوسرے درجے کا شہری قرار دینے اور ایک خاص طبقے کی منشا کے مطابق اس سیکولر کہے جانے والے ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی تگ ودو میں اپنی پوری قوت صرف کر رہی ہے؛ N R C (NATIONAL REJISTER OF CITIZENS) کے ذریعہ اپنے اس ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پارلیمنٹ سے  C A (CITIZENSHIP AMENDMENT ACT) پاس کر وایا، جب مسلمانوں کے ساتھ دوسرے سیکولر ذہنیت کے برادران وطن نے سخت احتجاج کیا تو اب  N P R (NATIONAL POPULATION REJISTER)جیسے دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعہ اپنے نجس ہدف کو پانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔
      غرضے کہ مسلمان خود اپنے ملک اور وطن میں اجنبی اور بے گانہ ہوگیا ہے؛ نہ تو اس کا کوئی حامی و ناصر ہے اور نہ ہی کوئی یارو مددگار، نہ تو اسے اپنی عزت و آبرو کا کوئی محافظ نظر آرہا ہے اور نہ ہی اپنی جان و مال کا کوئی نگہ بان ،جس میدان اور جس شعبے میں بھی نگاہ ڈالیے اس کی پستی میں دبے لچے مسلمان ہی نظر آتے ہیں ۔
مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت کا جائزہ لینے کے لیے آج سے پندرہ سال قبل  ۲۰۰۵ء میں سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے ذریعہ دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں قائم کی جانے والی سچر کمیٹی کی رپورٹ سے یہ بات ساری دنیا کے سامنے آچکی ہے کہ ہندوستانی مسلمان کی حالت دلتوں اور دیگر پچھڑے طبقوں سے بھی گئی گزری ہے اور حکومتی اداروں میں ان کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
     اب سوال یہ ہے کہ حکومتوں نے تو ہمارے لیے ابھی تک کچھ نہیں کیا لیکن کیا ہم نے اپنے حال کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے اور اپنے مستقبل کو روشن و تابناک بنانے کے سلسلے میں کچھ جد و جہدکی ؟ کیا ہم نے اپنی زبوں حالی کے اسباب و عوامل کو تلاش کر کے انہیں بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی ؟ کیا ہم اپنے قانونی حقوق کو حاصل کرنے کے لیے حقیقی جد وجہد کے راستے پر گامزن ہوئے ؟ کیا ہم نے اپنی عظمت رفتہ کی بازیافت کے لیے کوئی منصوبہ تیار کر کے اس کو عملی جامہ پہنانے کی سعی کی ؟ افسوس صد افسوس ! ہم نے بھی ایسا کچھ نہیں کیا، اگر دانشوران ملت نے منصوبے تیار بھی کیے تو وہ صفحہ قرطاس کی زینت تک ہی محدود رہے، ہم نے کلی طور سے اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش ہی نہیں کی۔
      میرے عزیزو ! میرے دینی بھائیو ! اب بھی وقت ہے ،اگر ان مظالم سے بھی ہم نے سبق نہ سیکھا اور حکمت عملی کے ساتھ منصوبہ بند طریقے سے اپنے روشن مستقبل کی راہ کو اختیار نہ کیا تو وہ دن دور نہیں جب یہ ظالم ہمیں اتنا کچل دیں گے کہ ہم میں اٹھنے کی سکت بھی نہ ہوگی چہ جائے کہ قوت جد و جہد    ؎
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤ گے اے ہندی مسلمانو!
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
      
 ذیل میں ہم مسلمانان ہند کی از سر نو تعمیر و ترقی کے لیے ان کی زبوں حالی کے اسباب و عوامل کے رخ سے پردہ ہٹائیں گے اوران کے انسداد و تدارک کے طریقوں کو آشکاراکر کے ایک جامع اور کار گر منصوبہ بھی پیش کریں گے۔
       آج جب ہم اپنی خستہ حالی کے اسباب و وجوہ کو تلاش کرتے ہیں تو ہمیں اپنی اس زبوں حالی کے درج ذیل چار بنیادی اسباب نظر آتے ہیں۔
      اول : اپنے دین متین سے بیزاری اور اپنے مقصد حیات کی فراموشی ۔
     دوم : تعلیم سے دوری اور اس کے حصول سے غفلت و بے اعتنائی ۔
      سوم : سیاسی میدان کو غیروں اور ملت کا درد نہ رکھنے والے دین بیزار دولت کے پجاریوں کے لیے خالی چھوڑ دینا ۔
      چہارم : اپنی بقا اور اپنی عزت وسر بلندی کے سلسلے میں وقت اور زمانے کے تقاضوں سے چشم پوشی۔

(جاری)


 یہ مضامین بھی پڑھیں 👇



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے