Advertisement

پیر کے شرائط کیا ہیں ؟ اور کتنے پیروں سے مرید ہونا چاہیے ؟


  پیر کے شرائط کیا ہیں ؟ اور کتنے 

 پیروں سے مرید ہونا چاہیے ؟ 

 مسئلہ : 

       (1) :  کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین درج ذیل مسائل میں کہ زید کے زمانۂ نا بالغی میں ایک پیر نے اسے مرید کر لیا دراں حالے کہ وہ پیر عامل شریعت نہ تھا اور نہ زید کو اس کی اطلاع دی کہ میں نے تم کو مرید کر لیا ہے۔ اب بالغ ہونے پر زید  پھر دوسرے پیر سے مرید ہوا، ، یہ پیر بھی پہلے پیر کی طرح بلکہ اس سے ابتر ثابت ہوا ، جس کے غلط افعال کو دیکھ کر زید اس سے سلام و کلام کرنا بھی پسند نہیں کرتا اور بتایا یہ جا تا ہے کہ بیعت نجات اخروی کا سبب ہے تو ایسی صورت میں زید کیا کرے۔ اس دوسرے پیر کی بیعت فسخ کر دینے کی شریعت نے اس کو اجازت دی ہے یا نہیں؟

          (2) :  ایک آدمی بیک وقت چند سلسلوں کی پیروں سے مرید ہوسکتا ہے یا نہیں جیسا کہ سنا جاتا ہے کہ فلاں بزرگ کو سلسلۂ قادریہ و نقشبندیہ و سہروردیہ الغرض اس طرح کی بہت سارے سلسلوں سے خلافت حاصل ہے اس پر کچھ لوگ کا کہنا ہے کہ جب ان سلسلوں کے پیروں نے خلافت سے نوازا ہے تو یقیناً مرید بھی کیا ہو گا ؟ 

  الجواب : 

       (1)   :    پیر کے لیے چار شرائط ضروری ہیں : صحیح العقیدہ سنی ہونا کوئی بد مذہب پیر نہیں ہوسکتا ، شریعت کا پابند ہونا ، کوئی فاسق فاجر پیر نہیں ہوسکتا، عالم ہونا ، سلسلہ کا متصل ہونا۔ ان چار شرطوں میں سے ایک بھی شرط کسی شخص میں نہ پائی جائے تو اس کو پیر بنانا درست نہیں، سائل جن دو شخصوں سے مرید ہوا وہ دونوں فاسق ہیں تو اس پر واجب ہے کہ بیعت فسخ کر دے اور کسی صالح نیک پابند شریت جامع شرائط پیر سے مرید ہو۔ پیر کی تعظیم لازم ہے اور فاسق کی تعظیم حرام اور اس سے دور رہنا واجب ۔ شامی وغیرہ میں ہے " قد وجب عليهم اهانته شرعا". 
اور حديث  میں فرمایا :
  "و ابتغوا رضا الله بسخطهم تقربوا إلى الله بالتباعد عنهم".
 اللّٰہ کی خوشنودی ڈھونڈو ان کی ناراضگی میں ، اللّٰہ کی نزدیکی چاہو ان سے دور ہو کر ۔ واللہ تعالی اعلم۔ 



(2) :  مرید ایک ہی پیر  کا ہوتا ہے اور ایک ہی پیر کا ہونا چاہیے "ایک در گیر محکم گیر" سارے بزرگان دین مرید کسی ایک ہی پیر کے تھے ، طلب فیض کے لیے دوسرے حضرات سے بھی بیعت کی یا صرف تعلیمات لی ۔ یہی اب بھی ہے ۔ تعلیم سلوک کسی اور سے بھی حاصل کر سکتا ہے،  فیض کے لیے دوسرے سے بیعت بھی ہوسکتا ہے ، خلافت صرف مریدین ہی کو نہیں دی جاتی ہے ، بلکہ صلاحیت اور استعداد دیکھ کر کبھی کبھی غیر مرید کو بھی خلافت دے دی جاتی ہے۔ میں خود مرید حضرت صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہوں لیکن حضرت مفتی اعظم ہند رحمة الله تعالی علیہ نے اپنے کرم سے اپنے تمام سلاسل کی اجازت مرحمت فرمائی۔  واللہ تعالٰی اعلم۔

  حوالہ : 

 فتاویٰ شارح بخاری ، جلد دوم ، ص : 268 و 269 ، مطبوعہ : دائرۃ البرکات ، گھوسی ، ضلع مئو۔

ایڈیٹر و ٹائپنگ : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے