Advertisement

'مجھے دین سے کوئی مطلب نہیں' وغیرہ ایسے جملے کہنے والے کا کیا حکم ہے ؟

  

"مجھے دین سے کوئی مطلب نہیں"

 وغیرہ

 ایسے جملے کہنے والے کا کیا حکم ہے ؟

  مسئلہ : 

        زید کا لڑکا خالد نے دوران طالب علم ہی میں شاعری کرنا شروع کردیا اور ہمیشہ اسی میں لگا رہتا تھا اور اس کا باپ زید بارہا اسے منع کرتا رہتا تھا کہ ابھی طالب علمی کا دور ہے ۔ لہذا تم ابھی شاعری مت کرو، لیکن وہ نہیں مانتا تھا اور اسی میں لگا رہتا تھا اتفاق کی بات کہ ایک دن زید پہلے سے غصہ میں تھا اور اسی دوران اس کا لڑکا اپنی لکھی نعت پڑھنے لگا، جس کو اس کا باپ زید سن کر بے حد غصہ میں بھر آیا ، اور یہاں تک کہ وہ بالکل بے قابو ہوگیا، اور اچانک اس کی زبان سے یہ جملے نکل پڑے کہ یہاں دین کی کوئی بھی بات نہیں ہونی چاہیے۔ میں دین کی بات کو سننا نہیں چاہتا اور مجھے دین سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ اور اس کے بعد وہ پہلے کی طرح اسلام کے ہر ہر قول و فعل کو مانتا رہا، اس کے بعد لوگوں نے اس سے توبہ کرنے کے لیے کہا تو اس نے کہا کہ میں نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ میرا مقصد نہیں تھا بلکہ وہ جملے اچانک میری زبان سے نکل پڑے ہیں بلکہ میرا مقصد صرف اپنے لڑکے کو ڈرانا اور نصیحت کرنا تھا۔ لہذا میں کافر نہیں ہوں، بلکہ میں مسلمان ہوں اس لیے میں توبہ نہیں کروں گا ، تو ز ید پر شریعت کا کیا حکم ہے، کیا وہ مسلمان ہے یا نہیں ؟ ہے تو کیوں؟ اور اس کو کیا کرنا چاہیے ؟ حضور والا جو سب سے آسان طریقہ ہو اسے تحریر فرمائیں۔ بینوا توجروا۔

  الجواب : 

         زید مذکورہ بالا جملوں کے کہنے کی وجہ سے کافر و مرتد ہوگیا۔ اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل گئی اس کے تمام اعمال حسنہ ضائع ہو گئے ۔ اس پر فرض ہے کہ فوراً ان تینوں جملوں سے توبہ کرے، کلمہ پڑھ کر پھر سے مسلمان ہو اور اگر اپنی اس بیوی کو رکھنا چاہتا ہو تو دوبارہ نئے مہر پر نکاح کرے۔ یہ تینوں جملے صریح کفر ہیں ۔ ان کے بکنے سے آدمی بہر حال کا فر ہوجاتا ہے، اس کی نیت کچھ بھی ہو ، اس کا اعتبار نہیں ۔ کلمۂ کفر بکنے والا کسی بھی نیت سے بکے کافر ہو جائے گا۔ والله تعالی اعلم۔

حوالہ : 

 فتاویٰ شارح بخاری، جلد دوم، ص : 467 ، مطبوعہ : دائرۃ البرکات، گھوسی، ضلع مئو۔

ایڈیٹر و ٹائپنگ : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے