Advertisement

لوٹے میں وضو کے بچے پانی سے استنجاء کرنا یا وضو کرنا کیسا ہے ؟

 

   لوٹے میں وضو کے بچے پانی سے

 استنجاء کرنا یا وضو کرنا کیسا ہے ؟

  مسئلہ : 

       کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے لوٹے سے وضو کیا، اس میں پانی بچ گیا۔ اب اس بچے ہوئے پانی سے، چھوٹا یا بڑا استنجاء کرنا(یعنی پیشاب یا پاخانا کرنا) یا وضو کرنا کیسا ہے؟ اور اسے پھینک دینا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا تؤجروا
  

  الجواب :

    پھینک دینا تو ضیاع مال ہے، {جو} کہ شرع میں قطعاً ممنوع ہے(یعنی شریعت میں مال وغیرہ کو یوں ہی ضائع اور برباد کرنے سے منع کیا گیا ہے)۔ 
     اور وضو کے بچے ہوئے پانی سے) وضو کرنا بلاشبہ جائز{ہے}۔ مگر یہ کہ اس میں ماء مستعمل اس قدر گر گیا ہو کہ غیر مستعمل پر غالب ہوگیا ہو(یعنی اگر اس پانی میں ماء مستعمل اتنا زیادہ مل جائے، کہ وہ غیر مستعمل پانی سے زیادہ ہو، تو اس سے وضو جائز نہیں)۔
    رہا استنجا کے جواز میں، تو اس میں بھی شبہ نہیں(یعنی اس پانی سےاستنجا کرنا جائز ہے) نہ کسی کتاب میں اس کی ممانعت، نظر فقیر سے گزری، (یعنی اعلی حضرت رحمہ اللہ کی نظر میں ایسی کوئی بات نہیں آئی جس میں وضو کے پانی سے استنجا کرنا منع کیا گیا ہو) ، ہاں اس قدر ہے کہ بقیۂ وضو {یعنی وضو کے بچے ہوۓ پانی} کے لیے شرعاً عظمت و احترام ہے۔ اور نبی کریم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ حضور نے وضو فرما کر بقیہ پانی کو کھڑے ہو کر نوش فرمایا ، اور ایک حدیث شریف  میں روایت کیا گیا ہے کہ "اس کا پینا ستر مرض سے شفا ہے" ، تو وہ ان امور میں آب زم زم سے مشابہت رکھتا ہے، لہذا ایسے پانی سے استنجا کرنا مناسب نہیں۔
        در مختار میں ہے " كماء زمزم"  (یعنی وضو کا بچا ہوا پانی آب زمزم کی طرح ہے) ۔ جامع ترمذی میں سیدنا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کھڑے ہوکر بقیۂ وضو پیا پھر فرمایا:
 "أحببت أن أريكم كيف كان طهور رسول الله صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم" (یعنی میں نے تمہیں دکھانا چاہا کہ نبیٔ کریم ﷺ کا وضو کیسا تھا)  
       ردالمحتار میں ہے کہ " ماء زمزم شفاء و کذا فضل الوضوء" یعنی آب زمزم میں شفا ہے اور اسی طرح وضو کے بچے ہوۓ پانی میں بھی شفا ہے۔
         وفی شرح ھدیۃ ابن العماد لسیدی عبد الغنی النابلسی" ومما جربته أني إذا أصابني مرض اقصد الاستشقاء بشرب فضل الوضوء فحصل لي الشفاء و هذا دأبي اعتمادا على قول الصادق صلي الله تعالى عليه وسلم" فی ھذا الطب النبوی الصحیح اھ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب.

 خلاصۂ عبارت : 

  اس عبارت کا ما حصل یہ ہے کہ علامہ نابلسی نوراللہ مرقدہ  -وادام فیوضہ علینا- فرماتے ہیں کہ میرا یہ تجربہ رہا ہے کہ جب بھی مجھے کوئی مرض لاحق ہوتاہے اور میں بیمار پڑ جاتا ہوں، تو میں *وضو کے بچے ہوئے پانی* کو، پی لیتا ہوں اور مجھے شفا مل جاتی ہے، میرا مرض دور ہو جاتا ہے، بیماری ختم ہو جاتی ہے اور میں صحت یاب ہو جاتا ہوں _سبحان اللہ_


 حوالہ : 

     فتاویٰ رضویہ، جلد دوم، کتاب الطھارۃ، باب الانجاس، صفحہ ١٢٤، مطبوعہ؛ سنی دار الاشاعت، فیصل آباد، سنہ اشاعت : جمادی الآخر سنہ ١٤٠٠ھ / اپریل سنہ ١٩٨٠ء۔

 نوٹ :    

     حاصل جواب یہ ہے کہ شریعت میں اس بات کی کوئی وضاحت نہیں ہے کہ آیا وضو کے بچے ہوئے پانی سے استنجا کرنا جائز ہے یا نہیں ، البتہ احادیث کریمہ واقوال ائمہ سے اتنی بات صاف ہے کہ آب زمزم کی طرح یہ بھی قابل احترام پانی ہے، اور اس کی طرح اس میں بھی شفا ہے ، لہذا وضو کے بعد اس پانی سے استنجا کرنا مناسب نہیں، اور ایسی جگہ اس پانی کو گرانا بھی نہیں چاہیے جہاں بے ادبی ہو ، یا تو اس پانی کو کھڑے ہوکر، پی لیا جائے یا کسی اچھے کام میں خرچ کیا جائے۔

نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔


مزید پڑھیں :



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ٹائپنگ : مولانا حسنین رضا مصباحی  

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے