Advertisement

کسی ولی کے مزار کا طواف کرنا، بوسہ دینا اور دوسرے آداب بجا لانا کیسا ہے ؟

کسی ولی کے مزار کا طواف کرنا، بوسہ دینا اور دوسرے آداب بجا لانا کیسا ہے ؟

    کسی ولی کے مزار کا طواف کرنا، بوسہ دینا اور دوسرے آداب بجا لانا کیسا ہے ؟


  مسئلہ : 

 پیر و مرشد کے مزار کا طواف کرنا، مزار اور مزار کی چوکھٹ کو بوسہ دینا، آنکھوں سے لگانا، اور مزار سے الٹے پاؤں پیچھے ہٹ کے ہاتھ باندھے ہوۓ واپس آنا جائز ہے یا نہیں ؟

الجواب : 

 مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے، کہ تعظیم بالطواف مخصوص بخانۂ کعبہ ہے۔ 
 مزار کو بوسہ دینا نہ چاہیے، علما اس میں مختلف ہیں، اور بہتر بچنا ہے۔اور اسی میں ادب زیادہ ہے۔
     آستانہ بوسی میں حرج نہیں، اور آنکھوں سے لگانا بھی جائز ہے کہ اس سے شرع میں ممانعت نہ آئی____ اور جس چیز کو شرع نے منع نہ فرمایا، منع نہیں ہو سکتی_____ قال اللہ تعالیٰ : " إن الحكم إلا اللہ 
     ہاتھ باندھے ہوئے الٹے پاؤں واپس آنا، ایک طرز ادب ہے اور جس ادب سے شرع نے منع نہ فرمایا، اس میں حرج نہیں۔ ہاں اگر اس سے اپنی یا دوسرے کی ایذا کا اندیشہ ہو تو اس سے احتراز کیا جائے۔۔۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

حوالہ : 

فتاوی رضویہ، جلد چہارم، باب الجنائز، صفحہ ٨ ، مطبوعہ: سنی دار الاشاعت علویہ رضویہ، فیصل آباد۔سن طباعت: ماہ رمضان سنہ١٣٩٤ھ / اکتوبر سنہ١٩٧٤ء۔

خلاصۂ جواب       

    اعلی حضرت، امام اہل سنت رحمۃاللہ علیہ (نوراللہ مرقدہ وادم فیو ضہ) فرماتے ہیں:
     مزار کا طواف، اگر صرف تعظیم و تکریم کی نیت سے بھی کرے، تو ناجائز  ہے۔ کیوں کہ تعظیم کی نیت سے طواف کرنا محض خانۂ کعبہ کے ساتھ خاص ہے، اس کے علاوہ کسی بھی مزار یا درگاہ کے لیے جائز نہیں۔
    رہی بات مزار کو بوسہ دینے (چومنے) کی تو اس سلسلے میں اعلی حضرت رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مزار کو بوسہ نہیں دینا چاہیے، کیوں کو اس مسئلے میں ہمارے علمائے کرام کا اختلاف ہے، لہذا بہتر یہی ہے کہ اس سے بچا جائے۔ اور بوسہ نہ دے۔
     البتہ آستانے (یعنی چوکھٹ) کو چومنے اور بوسہ دینے میں کوئی حرج نہیں، آنکھوں سے بھی لگا سکتے ہیں۔ کیوں کہ اس بارے میں شریعت میں منع وارد نہیں ہوا ہے، اور جس چیز کے کرنے سے شرع نے منع نہ کیا ہو، تو وہ چیز ممنوع نہیں ہوا کرتی۔ کیوں کہ یہ اختیار صرف اللہ ربّ العزت ہی کے پاس ہے کہ وہ جس چیز سے چاہے منع کرے اور جس چیز کو چاہے حلال رکھے۔
     اور مزار سے الٹے پاؤں باہر آنا یہ جائز ہے، کیوں کہ یہ ایک طرح کا ادب و احترام ہے۔ اور جس ادب میں ممانعت نہ ہو وہ جائز ہے۔۔۔۔۔۔۔ ہاں اگر، اس طرح الٹے پاؤں واپس آنے سے خود کو کوئی نقصان پہنچے یا کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچنے کا ڈر ہو تو اس سے بچنا چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب۔


ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ٹائپنگ : مولانا حسنین رضا مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے